حافظ سعید کی نظربندی۔۔۔ چین یا امریکہ کا دباؤ؟

مائیکل کوگل مین

حافظ سعید کی نظر بندی پر جو سب سے بڑا سوال پیدا ہوتا ہے وہ کیوںنہیں، بلکہ ابھی کیوںہے، کیوں کہ بہرحال ہم اس سے پہلے بھی ان کی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں۔

ممبئی حملوں کے چند دن بعد دسمبر 2008 میں انہیں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ نئی دہلی اور واشنگٹن کے مطابق حملوں کی منصوبہ بندی میں انہوں نے مدد فراہم کی تھی۔ ستمبر 2009 میں ایک بار پھر انہیں نظر بند کر دیا گیا۔ دونوں بار ان کی نظر بندی بہت جلد ختم کر دی گئی تھی۔

گزشتہ چند سالوں میں وہ لاہور میں آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور ریلیوں کا انعقاد، اور مقامی و مغربی صحافیوں کی میزبانی بھی کر رہے تھے۔

تو پھر آخر کیوں اس پیر کو پاکستانی حکام نے انہیں ایک بار پھر نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا؟

ایک پاکستانی میڈیا رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ اقدام امریکی دباؤ پر اٹھایا گیا۔ رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں

میں امریکی افسران نے پاکستان کو یا تو حافظ سعید کو قابو کرنے یا پھر پابندیوں کا سامنا کرنے کے متعلق خبردار کیا تھا۔

نظربندی کے چند لمحوں بعد جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں حافظ سعید خود غیر معمولی انداز میں دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے گہری دوستی نبھانا چاہتے ہیں، اس وجہ سے پاکستان پر ایسا کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔ حافظ سعید کے ترجمان نے بھی ایک ایسا ہی دعویٰ کیا ہے۔

یہ درست ہے کہ واشنگٹن پاکستان پر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سالوں سے دباؤ ڈالتا رہا ہے مگر اس اس مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ تو ایسے میں یہ کہنا کہ امریکی دباؤ نے اچانک اور جادوئی انداز میں پاکستان کو حافظ سعید کو نظر بند کرنے پر فوراً آمادہ کر لیا، وہ بھی ایسے وقت میں جب امریکا اور پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہونے جا رہے ہیں، ایک خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ جہاں واشنگٹن پرجوش ہو کر نئی دہلی سے تعلق جوڑ رہا ہے، وہاں اسلام آباد بیجنگ کے ساتھ اپنی ہر مشکل گھڑی میں مددگار پارٹنرشپ کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔

یہ خیال کرنا بھی ایک بیوقوفی ہوگی کہ حافظ سعید کے خلاف یہ اقدام اٹھانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ پاکستان پر دباؤ ڈال رہی تھی۔ ٹرمپ کو صدارت سنبھالے ابھی دو ہفتوں سے بھی کم وقت ہوا ہے اور ان کی جانب سے ایک کے بعد ایک صدارتی حکمنامے جاری کرنے کے علاوہ ان کی صدارت جنونیت اور بے ترتیبی کا شکار نظر آتی ہے — اس کے علاوہ ان کی حکومت سینیئر سفارتکاروں اور قومی سلامتی کے کئی عہدوں کے خالی ہونے کی وجہ سے محدود اثر و رسوخ کی حامل نظر آتی ہے۔

تو نتیجہ کیا اخذ ہوا؟ یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس پہلے ہی کافی اہم کام کرنے باقی ہیں۔ اس کے پاس پاکستان پر یوں خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا ابھی وقت ہی نہیں ہے۔ حافظ سعید کو نظر بند کرنے کے لیے اگر کوئی بیرونی دباؤ ہے بھی تو وہ واشنگٹن سے زیادہ بیجنگ کی جانب سے ڈالا گیا ہوگا۔

کچھ ہفتوں قبل میڈیا کی زینت بنے بغیر ایک غیر معمولی پیش رفت ہوئی۔ کلکتہ میں چین کے سابق قونصل جنرل نے ایک بلاگ پوسٹ کیا جس میں انہوں نے بیجنگ پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد، جس میں جیشِ محمد کے رہنما مولانا مسعود اظہر پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، کی مخالفت اور اسے ویٹو کر دینے کی اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔

جب ہم سی پیک جیسے غیر معمولی اہمیت کے حامل منصوبے کو مدِنظر رکھتے ہیں تو ان ساری باتوں کا ایک واضح مطلب سمجھنے میں آ نے لگتا ہے۔ بیجنگ کے لیے (اسی طرح اسلام آباد کے لیے بھی) اس منصوبے پر تیز رفتار اور پائیدار عمل درآمد جاری رکھنا ہی سب سے اہم کلیدی اسٹریٹجک ضرورت ہے۔حافظ سعید سے چین کو بھلے ہی براہِ راست کوئی خطرہ نہ ہو، مگر ان کی آزادی سے پاک و ہند تعلقات کو براہِ راست خطرہ ضرور ہے۔

اب جبکہ چین پاکستان میں سی پیک پر تیزی کے ساتھ کام شروع کر چکا ہے، ایسے میں چین کبھی نہیں چاہے گا کہ پاک بھارت تعلقات کسی قسم کی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوں — جس طرح گزشتہ سال کئی ہفتوں تک جنگی صورتحال قائم رہی تھی۔

چین دہشت گردی کے مسئلے کو پوری قوت کے ساتھ حل کرنے کے لیے ایک عرصے سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا آیا ہے اور اس کے واضح نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی جانب سے آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کے فیصلے کے پیچھے بھی بیجنگ کے دباؤ نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔

اس آپریشن میں نشانہ بننے والے ریاست مخالف عسکریت پسندوں نے نہ صرف پاکستان میں دہشت پھیلائی ہوئی تھی، بلکہ وہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاروں اور کارکنوں کے لیے بھی ایک خطرے کا باعث تھے۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے لال مسجد آپریشن میں بھی چین کا دباؤ رہا ہو۔مختصراً کہیں تو ہمیں چین کے پاکستان میں اثر و رسوخ کو کبھی کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ چین پاکستان کو ان کاموں پر بھی آمادہ کر لیتا ہے جنہیں پاکستان دوسری صورت میں ماننے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا۔

اور سوال اب بھی باقی ہے کہ: حافظ سعید کی نظر بندی ابھی کیوں؟ اگر حافظ سعید کی نظر بندی کے پیچھے چین کا اثر و رسوخ شامل ہے تو پاکستان نے یہ کام ہفتوں یا مہینوں پہلے کیوں نہیں کیا؟یہاں بات آتی ہے صدر ٹرمپ کے امیگریشن پر صدارتی حکمنامے کی۔وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ حافظ سعید کے معاملے پر ٹرمپ نے دباؤ ڈالا ہوگا مگر ایسا ممکن ہے کہ حافظ سعید کی نظر بندی ٹرمپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کی گئی ہو۔

ہم اس نظر بندی کو پاکستان کی جانب سے نئی امریکی انتظامیہ کو انسداد دہشتگردی میں اپنا خلوصِ نیت دکھانے، اور ٹرمپ کو پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں شامل کرنے سے روکنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جس کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر 90 روزہ پابندی لگ چکی ہے۔ ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف کے مطابق پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ حافظ سعید جلد ہی رہائی پا لیں اور یہ تمام تر قیاس آرائی سچ ثابت نہ ہو۔لیکن اگر چین بھارت مخالف عسکریت پسندی کے مسئلے پر پاکستان کو دکھاووں سے ہٹ کر عملی کارروائی کرنے پر زور ڈالتا ہے، یا پھر اگر پاکستان حافظ سعید کو طویل المدت نظر بند رکھتے ہوئے واشنگٹن کو لمبے عرصے تک اشارہ دیتا رہتا ہے تو یہ قیاس آرائی حقیقت ثابت ہو سکتی ہے۔

افسوس پاکستان کے اہم اسٹریٹجک مفادات اور حکام کی جانب سے حافظ سعید کو دی جانے والی ایک اثاثے کی متفقہ اہمیت کے پیش نظر میرے نزدیک ان میں سے کوئی بھی منظر نامہ قلیل عرصے میں سچ ثابت ہوتے دکھائی نہیں دیتا۔

Dawn News

Comments are closed.