چینی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے

چین چلڈرن گارمنٹس میں سستی مصنوعات مارکیٹ میں ڈمپ کر رہا ہے

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اوراس کے ممکنہ طور پر مقامی صنعت پر منفی اثرات کے حوالے سے اب ملک میں بحث شروع ہوگئی ہے۔کچھ سرمایہ کار اس کے حق میں ہیں جبکہ کئی دیگر کو اس پر تحفظات ہیں۔ماضی میں سستی چینی مصنوعات کی بدولت گوجرانولہ کی کاٹیج انڈسڑی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔چینی مصنوعات قیمت کے لحاظ سے کم تو ہوتی ہیں مگراس کے ساتھ انتہائی غیر معیاری بھی ہیں۔جس کا خمیازہ نہ صرف پاکستانی سرمایہ کار بلکہ عوام کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔

اس مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر مزمل سلطان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ چینی سرمایہ کار کِن شعبوں میں آرہے ہیں اور اس سے مقامی صنعت کو کیا نقصانا ت ہو سکتے ہیں۔ چینیوں کو یہاں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ ان کےلیے ویزے کی شرائط انتہائی نرم ہیں۔ وہ یہاں پر زمینیں بھی خرید رہے ہیں جب کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو چینی ویزے کے حصول میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ بعض اوقات مہینوں ان کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں۔ ویزے کی درخواست کے ساتھ کئی طرح کے کاغذات کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے اور ویزے جاری بھی بہت محدود وقت کے لیے کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے آنے سے ٹیکسٹائل اور فینسی مصنوعات سمیت کئی دیگر شعبے متاثر ہوں گے۔ صرف ٹیکسٹائل سے ہی چالیس لاکھ افراد کا روزگار پنجاب میں وابستہ ہے جب کہ لاکھوں لوگ کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ چین پہلے ہی چلڈرن گارمنٹس میں سستی مصنوعات مارکیٹ میں ڈمپ کر رہا ہے، جس سے مقامی صنعت کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ قوی امکان ہے چینی سرمایہ کاری ٹیکسٹائل کے شعبے کو بہت بری طرح متاثر کرے گی، جس سے لاکھوں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جس طرح کی سہولیات چینی سرمایہ کاروں کو دی جارہی ہیں، اگر ایسی ہی سہولیا ت مقامی صنعت کاروں اور تاجروں کو دی جائیں تو ملکی معیشت بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آرصنعت کاروں کے اربوں روپے ری بیٹ کی مدد میں روکے ہوئے ہیں۔ ایک سرمایہ کار اگر دس کروڑ کماتا ہے تو چار کروڑ ایف بی آر روک لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران و افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ سے بھی مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکومت اسے کیوں نہیں روکتی تاکہ مقامی صنعت ترقی کر سکے۔‘‘۔

فیصل آباد چیمبر کے سابق صدر اشرف رضوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ٹیکسٹائل ملکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے لیکن حکومت کو خود پتہ نہیں کہ چینی سرمایہ کاری کس طرح اس صنعت کو متاثر کرے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہ نہ صرف مقامی صنعتوں کو خریدیں گے، جیسا کہ انہوں نے ڈاؤلینس فریج کے ساتھ کیا، بلکہ یہ ان صنعتوں میں بھی پیسہ لگائیں گے، جو مقامی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ٹیکسٹائل، الیکٹریکل اپلائنسس اور کئی دوسرے شعبے چینی سرمایہ کاری سے متاثر ہوسکتے ہیں‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’حکومت چینی سرمایہ کاروں کو نوازنے کے لیے تو تیار ہے لیکن جب ہم نے بیمار صنعتوں کو پھر سے چلانے کی بات کی تو ہمیں کوئی بیل آؤٹ پیکج نہیں دیا گیا۔ صرف سو بلین روپے سے ان صنعتوں کو دوبارہ سے فعال کیا جا سکتا ہے اور اگر ہمیں سہولیات دی جائیں تو ہم تیرہ بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو چھتیس بلین ڈالرز تک لے کر جا سکتے ہیں، جس سے تیئس لاکھ افراد کو روزگار مل سکتا ہے۔ ویت نام ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی ٹیکسٹائل کی برآمدت ایک سو پچیس بلین ڈالرز ہے۔ بنگلہ دیش کی اٹھائیس بلین ڈالرز ہے۔ تو ہماری برآمدت بھی اوپر جا سکتی ہیں‘‘۔

DW

One Comment