پاکستان : ایک دن میں چار خودکش حملے

پاکستان میں ایک ہی دن میں چار خود کش حملہ آوروں نے بم دھماکے کرتے ہوئے کم از کم چھ افراد کو ہلاک اور متعدد دیگر کو زخمی کر دیا۔ تشدد کی اس نئی لہر سے سکیورٹی کا وہ احساس ریزہ ریزہ ہو گیا ہے، جو عوام میں پیدا ہو چکا تھا۔

بدھ کو تازہ ترین دہشت گردانہ کارروائی پشاور میں کی گئی، جس میں ایک خودکش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل پر رکھے دھماکا خیز مواد کے ذریعے اس وین کو نشانہ بنایا، جس میں متعدد جج بھی سوار تھے۔ پولیس افسر سجاد خان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک خودکش حملہ تھا‘‘۔

سجاد خان کے مطابق اس حملے میں وین کا ڈرائیور ہلاک ہو گیا جبکہ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کر لی ہے۔ اس حملے میں پانچ افراد زخمی بھی ہوئے۔ چار زخمی ججوں میں تین خواتین جج بھی شامل ہیں۔

اس سے پہلے بدھ ہی کے روز دو خودکش حملہ آوروں نے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں واقع ایک حکومتی کمپاؤنڈ کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور سات زخمی ہو گئے۔ حکام کے مطابق ایک حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ دوسرے حملہ آور نے خود کو سرکاری عمارت کے گیٹ کے سامنے دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا۔

پولیس کے مطابق اس کے بعد ایک اور خودکش حملہ آور نے خود کو اس وقت دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا، جب علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے اس کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

بدھ کے روز ہونے والے یہ دھماکے ایک ایسے وقت پر ہوئے، جب دو روز پہلے لاہور میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم از کم تیرہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔ آج پاکستانی طالبان اور جماعت الاحرار کے ترجمانوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح کے حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

ان خونریز حملوں کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستانی فوج کے سربراہ اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی تاکہ سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، ’’اجلاس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مکمل عملی اور نظریاتی خاتمے کے قومی عزم کا اعادہ کیا گیا‘‘۔

حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں سلامتی کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہوئی تھی لیکن نئے حملوں کی اس لہر سے عوام ایک بار پھر خوف کا شکار ہونے لگے ہیں۔

DW

Comments are closed.