آنران ماسکڈ

اوشو ناصر

سندھ میں آج بھی عورتیں اور لڑکیاں پردے کی نہایت پابند ہیں شادی جیسے اہم معاملے میں ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ رشتے صرف خاندان میں ہی کئے جاتے ہیں اور اگر کوئی لڑکی خاندان سے باہر شادی کرنے کا فیصلہ کر لے تو اس کا نجام کاروکاری ہے۔ اگر خاندان کے اندر کوئی لڑکا موجود نہ ہوتو پھر اس کی شادی یا تو قرآن سے کر دی جاتی ہے یا پھر بھانجے بھتیجیوں کو پالنے کی ذمہ داری سونپ کر ہمیشہ کے لئے اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان خاص کر سندھ میں عورت کی حالت زار کا پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے اپنی کتاب آنران ماسکڈ میں تفصیل سے ذکر کیا ہیجسے آکسفورڈ یونیورسٹی نے شائع کیا ہے ۔نفیسہ شاہ کا تعلق بھی سندھ کی سر زمین سے ہے وہ ان خوش نصیب لڑکیوں میں سے ہیں جسے نہ صرف پڑھنے لکھنے کا موقع ملا بلکہ اپنی رائے کے اظہار کی بھی آزادی ہے ۔ نفیسہ شاہ سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ لکھاری اور صحافی بھی ہیں انہوں نے اپنے تحریری سفر کا آغاز نیوز لائن میگزین سے کیا تھا۔

نفیسہ شاہ نے غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں پہلی رپورٹ 1993میں انگریزی رسالے نیوز لائن کے لئے لکھی تھی ۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ بالائی سندھ میں قبائلی رواج کے تحت جس مرد اور عورت پر اپنے خاندان یا اپنے قبیلے کی عزت مجروح کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس میں جس مرد پر الزام لگایا جاتا ہے اسے جرمانے کی رقم اس شخص کو دینی پڑتی ہے جس کی عزت مجروح ہوئی ہو۔ یہ لوگ اپنی بیویوں کو اپنے گھروں سے نکال دیتے ہیں یا انہیں قتل کر دیا جاتا ہے اور مجرم مرد کو جرمانے کے طور پر اپنے گھر کی ایک عورت بھی دینی پڑتی ہے ۔

نفیسہ کا کہنا ہے اس روایت کی وجہ سے کارو کاری کے الزامات لگانے کا رجحان بڑھ گیا ہے بلکہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔اس سلسلے میں نفیسہ شاہ نے اندرورن سندھ کا تحقیقاتی دورہ بھی کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو عورتیں قتل ہونے سے بچ جاتی ہیں ان کی زندگی بھی قابل رشک نہیں ہے وہ ساری زندگی اپنے خاندان میں نہیں جا سکتیں جو کہ ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ وہ پوری زندگی اسی انتظار میں گزار دیتی ہیں کہ انہیں کب خاندان سے بلاوا آئے اور پھر اسی خاندان کا فرد بن سکیں ۔

نفیسہ شاہ نے اس کتاب میں ایک انتہائی دلچسپ واقعہ لکھا ہے جس کا کردار نور خاتون ہے۔ نور خاتون کی مرضی کے بغیر شادی ،پھر اس شادی سے فرار باپ کی بزدلی اور نور خاتون کے قبیلے کے ایک نوجوان کا کردار۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد ہمارے سماج میں عورت کے ساتھ غیرت کے نام پر کیا ہو رہا ہے کی کہانی کھل کر سامنے آتی ہے ۔نفیسہ شاہ کی یہ کوشش قابل تحسین ہے مگر یہ صرف سندھ کی کہانی نہیں ہے پورے پاکستان میں غیرت کے نام پر یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ کافی قدیم ہے ۔

عزت کے نام پر عورت کے قتل کا تعلق نہ تو مذہب سے ہے اور نہ ہی کسی عورت کے شادی جیسے جو کہ خالصتاً اس کاذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ اس سے کسی خاندان یا قبیلے کی عزت مجروح ہوتی ہے محض ایک ڈھکوسلہ ہے اور ایک قبائلی روایت ہے جس کا تعلق صرف اور صرف جہالت سے ہے ۔اس میں ایک اہم عنصر یہ بھی ہے کہ جس گھر کی لڑکی پسند کی شادی یا اس پر کوئی ایسا الزام عائد کر دیا جائے کہ وہ کسی مرد میں دلچسپی رکھتی ہے اس کے بارے میں دیگر خاندان اہل علاقہ یا احباب اس کے گھر کے مردوں کو اشتعال دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور پھر وہ مرد حضرات اپنی خود ساختہ غیرت کا مظاہرہ کرنے کے لئے قتل جیسا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہیں۔

پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ صوبہ غیرت کے نام پر قتل میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔یہ اور بات ہے کہ جتنے واقعات رونما ہو رہے ہیں اتنے واقعات رپورٹ نہیں ہورہے۔ یہ معاملہ اب صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس وبا ء نے شہری علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔غیرت کے نام پر قتل کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے مگر ریاست کے نرم رویہ کی وجہ سے قاتل بچ نکلتے ہیں۔ قتل کے بعد خاند ان کا کو ئی فردمدعی بنتا ہے اور کچھ عرصہ میں قاتل کو معاف کر دیا جاتا ہے جو ریاست کے کمزور کردار کی چغلی کھاتاہے۔

جب تک ریاست اپنی اصلاح نہیں کرتی قوانین کا صحیح نفاذ نہیں ہوتا ، عورتوں کی قتل گاہیں بند نہیں ہونگی۔ پنجاب میں بہت سے کیسز میں مشاہدے کے مطابق پڑھی لکھی اور خودکفیل خواتین بھی شادی جیسے اہم فیصلے میں اپنی مرضی سے نہیں کر سکتیں۔ جو بغاوت کر کے ایسا فیصلہ کرتی ہے موت اس کا انجام ٹھہرتی ہے ۔بعض جگہوں پر سیدھے طریقے سے قتل کردیا جاتا ہے تو کہیں دیگر حربے استعمال کرنے کے بعد موت کا فیصلہ ہو تا ہے جس میں خاندانی جائیداد یا وراثت سے محروم کرنا ۔خاندان سے لاتعلقی اور پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعے مختلف مقدمات قائم کرنا ۔

حال ہی میں ’راحیلہ ‘نامی ایک لڑکی جس کا تعلق بدنصیبی سے میری فیملی سے تھا کو پسند کی شادی کی پاداش میں 7جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا گیا ۔راحیلہ (ایم بی بی ایس) ڈاکٹر تھی ڈیڑھ سال اپنے نا کردہ گناہوں کی سزا مختلف تھانوں اور جیلوں میں کاٹتی رہی جس دن رہا ہوئی مار دی گئی۔ یہ ایک راحیلہ نہیں اس جیسی کئی راحیلہ موجود ہیں ۔اس کی ذمہ داری ریاست پر آتی ہے جو آج تک ان کالے قوانین کو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں۔

اگر کوئی قانون سازی کی بھی گئی تو اس کے نفاذ کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ ضیا ء الحق کے سیاہ دور میں بننے والے سیاہ قوانین آج بھی موجود ہیں۔ ان قوانین کی بھینٹ کتنی جانیں چڑھ چکی ہیں ریاست کو کوئی پرواہ نہیں ۔رہی بات سماج کی تو اس نے ہر موڑ پر عورت کی ذات کی نفی کی ہے، غیرت کا تعلق عورت سے جوڑ دیا گیا۔ مرد کا کام صرف نام نہاد غیرت پر عمل درآمد کرنا رہ گیا ہے۔ عورت سے وہ اعتماد چھین لیا گیا ہے جو اسے معاشرے میں کارآمد بننے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔

اسے صرف یہ سکھا دیا گیا تم باپ،بھائی اور شوہر کی غیرت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہو جو فریم تمہیں دیا گیا ہے اس سے باہر جھانکنا تمہاری موت ہے اور عورت نے اس رول کو قبول کرلیا تو آخر تبدیلی کیسے آئے گی۔ جب عورت اپنے کردار کا فیصلہ خود کرے گی عزت کسے کہتے ہیں غیر ت کیا ہوتی ہے یہ جب وہ خود مرد کو سمجھائے گی نہ کہ اس سے سیکھے گی ۔ عورت ریاست کو بتائے گی کہ ایک شہری کے طور پر مجھے تحفظ دینا تمہاری ذمہ داری ہے وہ ذمہ داری پوری کرو۔ وہ خود ساختہ غیرت کو للکار ے گی ۔اس للکار میں شاید وہ خود ماری جائے مگر آنے والی بیٹی بچ جائے گی ورنہ یہ سلسلہ نہیں تھمے گا ۔

Comments are closed.