مسئلہِ کشمیر: پاکستان کی قومی بیماری

آصف جاوید

قارئین اکرام ، آج پانچ فروری ہے۔ یہ دِن پاکستان میں ہرسال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کےلئے کشمیرڈے کے نام سے منایاجاتاہے، جسے ہم یوم یکجہتی کشمیر بھی کہتے ہیں۔یہ دن عسکری مقتدرہ کی مذہبی پارٹنر ،جماعت اسلامی کے سابقہ امیرجناب قاضی حسین احمد مرحوم کی تجویز پر 1990میں منانا شروع ہوا تھا۔

تب سےلےکرآج تک یہ دن ہرسال منایاجاتا ہے۔ پانچ فروری کوملک بھرمیں عام تعطیل ہوتی ہے۔ جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں۔ پراکسی وار لڑنے والے، جماعت اسلامی، لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمّد، حرکت المجاہدین، اور دیگر تنظیموں کے جنگجو مجاہدین اور حریت پسندوں کو سلام عقیدت پیش کیاجاتاہے، اور یہ عہد بھی کیاجاتا ہےکہ جب بھی کشمیریوں کو حمایت اور مدد اور تعاون کی ضرورت ہوگی، انہیں تمام تر مددبلا کسی شرط فراہم کی جائے گی۔

قارئینِ اکرام ، عظیم تر ہندوستان کا بٹوارا ہوئے آج ستّر برس گزرگئے، مگر مسئلہ کشمیر آج تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ برِّ صغیر کے بٹوارے سے قبل ریاست جمّوں و کشمیر ایک آزاد و خود مختار ریاست تھی۔ جس پر ڈوگرہ مہاراجہ کا راج تھا۔ ریاست جمّوں و کشمیر پاکستان کو بٹوارے میں کبھی ملی ہی نہیں تھی۔ پاکستان کو تو بٹوارے میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان (آج کا بچا کچھا پاکستان) ملا تھا۔ جب کہ تما م آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ زمینی حقائق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے انڈیا یا پاکستان ، جس ملک کے ساتھ چاہیں، الحاق کرلیں۔

ریاست جمّوں و کشمیر کو بھی یہی اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جس ملک کے ساتھ چاہے، الحاق کرلے۔ زمینی حقائق کےمطابق، جمّوں و کشمیر کی سرحدیں انڈیا و پاکستان ، دونوں سے ملتی تھیں۔ ڈوگرہ مہاراجہ کی مرضی تھی کہ چاہے تو انڈیا کے ساتھ الحاق کرے یا پاکستان کے، سب کچھ اس کی مرضی پر منحصر تھا۔ الحاق کے لئے مہاراجہ کو سوچنے اور سمجھنے کا وقت درکار تھا۔ مگر پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو کشمیر کے حصول اور الحاق کی بہت جلدی تھی۔

تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ بائیس اکتوبر، 1947 کو پاکستان سے ڈھائی سو سے زائد ٹرکوں پر مسلّح قبائلی جنگجو راولپنڈی کی جانب سے سے وادی جہلم کے راستے جموں وکشمیر میں قبضہ کرنے کے لئے داخل ہوئے۔ اِ ن ٹرکوں پر تقریبا پانچ ہزار آفریدی اورمحسودقبائل کے مسلّح جنگجو سوارتھے۔ اوران کے پیچھے پاکستانی فوج کے سپاہی، میجرجنرل اکبرخان کی قیادت میں بطور کوَر شامل تھے۔ منصوبہ سازوں کو امید تھی، کہ تین چار روز میں کشمیر فتح کرلیا جائے گا۔ کیونکہ ان سے مزاحمت کرنے والی کوئی فوج سامنے موجود نہیں تھی۔

حملے کی خبر ملتے ہی مہاراجہ کشمیر بھاگ کرجموں چلاگیا، اور قبائلی جنگجو جمّوں و کشمیر کو فتح کرنے کی بجائے کشمیریوں کی مال و املاک کی لوٹ مار میں مصروف ہوگئے۔ وہ مال غنیمت اکھٹا کر کے ٹرکوں میں بھرنے لگے۔ ۔ ادھرمہا راجہ نے ہندوستانی قیادت کوارجنٹ پیغامات بھیجنے شروع کردیئے، کہ اس کی مدد کی جائے، پاکستان نے کشمیرپر قبائلی جنگجوئوں کی مدد سے حملہ کردیا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن انڈین کمانڈ کا سربراہ اور گورنر جنرل تھا۔ ماؤنٹ بیٹن نے انڈین قیادت کو جوابی کارروائی کی بجائے ، قانونی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ اور کہا کہ پہلے مہاراجہ کو انڈیا سے الحاق پر آمادہ کرو، الحاق کی دستاویز پر دستخط کرواؤ، پھر کشمیر میں فوجیں اتارو۔

چنانچہ انڈیا کا نمائندہ وی پی مینن 26،اکتوبر کو کوجموں،مہا راجہ کے پاس پہنچا۔ اور اس سے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کروا کر کشمیر کو انڈیا میں شامل کرلیا۔ پاکستانی قیادت کا خیال تھا کہ انڈیا اتنی جلدی موثرطریقے سے کشمیرمیں اپنی فوج اورکمک نہ بھیج سکے گا۔ مگر انڈیا نے الحاق کی دستاویزات ملنے کے بعد قانونی حق کے تحت ہنگامی حالات میں اپنی فوجیں اور دیگر جنگی سازوسامان کوہوائی جہازوں کی مدد سے سرینگر میں اتاردیا۔ انڈیا کے جوابی آپریشن اورعزم کودیکھتے ہوئے قائد اعظم نے پاک آرمی کے چیف جنرل گریسی کو حکم دیا، کہ پاک آرمی کے فریش ٹروپس کوجموں کشمیر میں پہنچنے کا آرڈردے۔ مگر جنرل گریسی نے اِس حکم کو ماننے سے انکارکردیا۔

یکم نومبرکوماؤنٹ بیٹن ، جناح صاحب سے ملنے کےلئے پاکستان آیا، یہ طے کرنے کے لئے کہ لڑائی کوکیسے روکا جائے۔ اس سے قبل نہروکے ساتھ میٹنگ میں ماونٹ بیٹن یہ بات منوا چکا تھا کہ جونا گڑھ اور جمّوں و کشمیر سمیت دیگر تمام آزاد ریاستوں کے انڈیا یا پاکستان سے الحاق کے لئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب رائے کرالیا جائے گا۔ جب ماؤنٹ بیٹن نے ریاستوں کے الحاق ، خصوصاً جمّوں و کشمیر کے الحاق کے لئے استصوابِ رائے کروانے کی تجویز کا ذکر جناح سے کیا، تو جناح نے اس تجویز کوماننے سے صاف انکارکردیا۔

نہرو نےآل انڈیا ریڈیو کے ذریعے دو نومبر کو اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، کہ ہم امن اورخون ریزی کو روکنا چاہتےہیں۔ اس لئے بین الاقوامی نگرانی میں ہم کشمیر پرریفرنڈم کرانے کے لئے تیار ہیں۔ اس کے بعد جب یہ دیکھا گیا، کہ فوجی لحاظ سےکشمیرپرپاکستان کی پوزیشن کمزورہوتی جارہی ہے،اورحملہ سے قبضہ کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیا ہے، تو جناح صاحب نے بھی ریفرنڈم کی تجویز کومان لیا۔

پندرہ نومبر کو نہرو کشمیروادی میں گیا تو اس نے اپنی آنکھوں سےہمارے قبائلیوں کے ہاتھوں کشمیر کی تباہ کاری دیکھی۔ ستائیس نومبر کودہلی میں لیاقت علی اور نہروکے درمیان مذاکرات ہوئے، جس کا ماحول خاصہ تلخ رہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے پھرریفرنڈم کی تجویز آگے رکھی۔ جب مذاکرات سے معاملات طے کرنے کی کوئی صورت نہ رہی تو آخرِ کار انڈیا یکم جنوری 1948 کو کو مسئلہ کشمیر کولے کرسلامتی کونسل میں چلاگیا۔ انڈیا کے نمائندے نے اپنا موقف پیش کیا، ادھرپاکستان کے وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے پاکستان کے موقف کا دفاع کیا۔

بہر حال 21 اپریل ، 1948 کو سلامتی کونسل کے کمیشن برائے انڈیاوپاکستان نے اپنی قراداد نمبر 47 کے ذریعے فیصلہ دیاکہ سیزفائرہوگا، اور کشمیرکا فیصلہ وہاں کے لوگوں کی مرضی سے ہوگا۔ پاکستان کشمیر خالی کرے گا، کشمیرکے علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا۔ جبکہ انڈیا سیز فائرکے وقت کی لائن کوبرقراررکھے گا۔ اور کم از کم اتنی فورسز رکھے گا، جس سے جمّوں و کشمیر میں لا اینڈ آرڈرقائم رہ سکے گا۔مگر ایسا کبھی نہیں ہوسکا، نہ تو پاکستان نے اپنے کنٹرول میں موجود کشمیر سے اپنی فوجیں نکالیں، نہ انڈیا نے استصوابِ رائے کروایا۔ دونوں اپنے اپنے علاقے اور موقف پر قائم رہے۔

اب انڈیا کاکہنا ہے، کہ پاکستان نے قرارداد کی شرط کہ پاکستانی فوج کشمیر (آزاد کشمیر) کا علاقہ خالی کرے، اس پرکبھی عمل نہیں کیا۔ لہذا استصوابِ رائے بھی نہیں ہوسکتا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے بعد سے لیکر آج 69 سال گزرنے تک مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں ڈیڑھ سو سے زائد اجلاس، اور چار جنگیں ہوچکی ہیں۔ اور مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیر تو پاکستان کو نہیں مل سکا، مگر پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں، آدھا ملک بھی گنوا چکا ہے۔ پاکستانی فوج کبھی اپنے زیرِ کنٹرول کشمیر سے فوجیں نہیں نکالے گی۔ اور انڈیا کشمیر میں کبھی تاقیامت استصوابِ رائے نہیں کروائے گا۔

دونوں ملک اب نیوکلیر طاقت بن چکے ہیں، ایک دوسرے کے بڑے شہروں اور تنصیبات کو میزائلوں کی زد پر رکھا ہوا ہے۔ اب تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس پراکسی جنگ لڑنے کے لئے، جماعتِ اسلامی، لشکرِ طیبہ، جیشِ محمّد، اور دیگر مجاہد تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ جن کی کمانڈ جنرل حافظ سعید اور جنرل مولانا مسعود اظہر جیسے مجاہدینِ اسلام بطور تذویراتی اثاثہ جات موجود ہیں۔

ایٹمی طاقت بننے کا نشہ اور انڈین کشمیر حاصل کرنے کا بخار پوری پاکستانی قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر اب پاکستان کی مقدّس قومی بیماری بن گیا ہے۔ اس بیماری کا علاج اب ناممکن نظر آتا ہے ۔ نہرو نے کشمیر کو انڈیا کا اٹوٹ انگ، جبکہ جناح صاحب نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ لدّاخ سے اوپر چین کی جانب کشمیر کا 10 ہزار مربّع میل کا علاقہ چین کے قبضے میں جا چکا ہے۔کشمیر کا 42 ہزار مربّع میل کا علاقہ انڈیا کے قبضے میں جاچکا ہے۔ جبکہ پاکستان کے کنٹرول میں کشمیر کا صرف 32 ہزار مربّع میل کا علاقہ ہے۔

آزاد کشمیر تو صرف چار ہزار مربّع میل پر مشتمل ہے، جبکہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ شروع ہونے کے بعد وادیِ کشمیر کا انتہائی بلند شمالی حصّہ جسے گلگت، بلتستان کہتے ہیں، جس کا رقبہ اندازا“28 ہزار مربّع میل ہے، سٹرٹیجک اہمیت اختیار کر چکا ہے، اور اب چائنا کے بذریعہ روڈ پاکستان میں داخلے کا گیٹ وے بن چکا ہے۔ اب ستّر سالوں میں زمینی حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان میں سے کوئی بھی کشمیر کی ایک انچ زمین چھوڑنے کو تیّار نہیں ہے۔ کشمیر پر کسی بھی قسم کی مفاہمت کے امکانات موجود نہیں ہیں۔ عالمی برادری اس مسئلے پر اپنے ہاتھ پہلے ہی کھڑی کر چکی ہے۔

کشمیر نامی بخار اتارنے کی ایک ہی صورت ہے کہ پاکستان انڈیا کے زیرِ کنٹرول کشمیر کے حصول کی خواہش سے دستبردار ہوکر مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے اور دونوں ممالک لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیں۔ اور مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے، قوم کو حالت جنگ سے نکا ل کر ترقّی کی شاہراہ پر رواں دواں کیا جائے۔ کشمیر ، عسکری اشرافیہ کا چولہا بن چکا ہے، جس پر عسکری اشرافیہ اپنے مفادات کی ہانڈی گذشتہ ستّر سالوں سے پکا رہی ہے۔ پاکستان کے سارے قومی وسائل فوجی طاقت کو مضبوط سے مضبوط بنانے پر صرف ہورہے ہیں۔ کشمیر نہ کبھی ہمارا تھا، اور نہ کبھی ہوگا۔ وما علینا الالبلاغ

حوالہ جات:۔

،وکی پیڈیا،روزنامہ دی ٹیلی گراف ،روزنامہ ڈان

ارشد محمود سوشل میڈیا، اور تاریخ کی دیگر کتابیں

Comments are closed.