میری زندگی کا ایک ورق

سی آر اسلم

ترتیب: لیاقت علی ایڈووکیٹ

نہر لوئیر چناب 1892 میں بنی تو انگریز سرکار نے پنجاب کے مختلف علاقوں کے رہنے والوں کو اس نہر سے سیراب ہونے علاقوں میں کاشت کاری کے لئے یہاں زمینیں الا ٹ کیں۔ میرے والد بھی ان افراد میں شامل تھے جنھیں ضلع شیخوپورہ کے قصبہ شاہ کوٹ کے نواح میں زمین الاٹ ہوئی تھی اور وہ1901 کے آس پاس جالندھر کے ایک گاؤں سے نقل مکانی کرکے کوٹ نظام دین آبسے تھے۔ میرے والد کے ہمراہ آنے والوں میں منشی نور محمد اور پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حامد یاسین کے والد نظام دین بھی شامل تھے۔ ہمارے گاؤں کا نام انہی میاں نظام دین کی مناسبت سے کوٹ نظام دین رکھا گیا تھا۔

یہ تینوں دوست اور ہم جماعت تھے اور انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جالندھر ہی میں حاصل کی تھی ۔کوٹ نظام دین میں میرے والد کو 25 ایکڑ زمین الاٹ ہوئی تھی۔ہم سات بہن بھائی تھے۔ چار بھائی اور تین بہنیں۔اس دور کے اعتبار سے یہ کوئی بڑی فیملی نہیں تھی۔ ان دنوں کسانوں کے ہاں آٹھ دس بچوں کا پیدا ہونا معمول کی بات تھی۔اس دور میں مشینی کاشت کا تو چلن تھا نہیں ۔کسانوں کو کاشت کاری اور اس سے جڑے دیگر کام اپنے ہاتھ سے کرنا پڑتے تھے ۔ کھیتی کے کاموں میں گھر کے تمام افراد۔۔ مرد اور عورتیں یکساں طور حصہ لیتے تھے۔

 بچوں کی تاریخ پیدائش کا ریکار د رکھنے کا کوئی رواج نہ تھا خا ص طور پر دیہی زندگی میں تو اس کوکوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ والدین اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش کسی خاص واقعہ یا موسم کے حوالے سے یاد رکھتے تھے۔ مائیں عام طور پر یہ کہتی تھیں کہ جب میرا فلاں بیٹا یا بیٹی پیدا ہوئی تو اس سال بڑی شدید گرمی یا سردی پڑی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ سکول میں داخل ہوتے وقت میری جو تاریخ پیدایش لکھوائی گئی تھی اس کے بارے میں حتمی طور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ میری درست تاریخ پیدا ئش ہے۔ یہ محض اندازے سے لکھوائی گئی تھی۔ بہر حال سکول ریکارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش 15 جنوری 1915ہے۔ہو سکتا ہے کہ پیدائش اس تاریخ سے پہلے ہوئی ہو یا بعد میں کیونکہ کوئی مصدقہ ریکارڈ موجود نہ ہے اس لئے اسی تاریخ کو میں مستند خیال کرتا ہوں۔

 ان دنوں خال خال دیہاتوں ہی میں سکول ہوا کرتے تھے ۔ہمارے گاوں کوٹ نظام دین میں بھی سکول نہیں تھا ۔ ہمارے گاؤں سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر واقع گاؤں امام پور میں سکول موجود تھا ۔میں ہرروز پیدل امام پورہ جاتا تھا ۔ امام پورہ کو وہاں کے رہنے والے نکودر کہتے تھے کیونکہ اس گاؤں کے رہنے والوں کی اکثریت کا تعلق مشرقی پنجاب کے قصبے نکودر سے تھا اور اس مناسبت سے اپنے گاؤں کو وہ نکودر ہی کہتے تھے۔میں نے 1931میں گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔سکول میں’ نوائے وقت ‘کے ایڈیٹر اور معروف صحافی حمید نظامی (1915-1962)میرے ہم جماعت تھے ۔ حمید نظامی سانگلہ ہل کے رہنے والے تھے ۔جب میں نے میٹرک کیا تو ان دنوں میرے دو بڑے بھائی گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے ۔ اُس وقت ایک چھوٹے مالک کسان کے لئے اپنے بیٹوں کو لاہور جیسے بڑے شہر میں اعلی تعلیم دلانا انتہائی مشکل تھا ۔

سنہ1930 کے عالمی معاشی بحران کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتب ہورہے تھے۔ ضروریات زندگی انتہائی مہنگی ہوگئی تھیں ۔ کسانوں کی زندگیوں کو اس معاشی بحران نے بری طرح متاثر کیا تھا ۔ عوام کی قوت خرید کم ہونے کی بنا پر زرعی اجناس کی قیمتیں بہت گر گئی تھیں جس کی وجہ سے کسانوں کی معاشی بدحالی میں اضافہ ہوگیا تھا۔پہلے دو بچوں کی تعلیمی اخراجات برداشت کرنے والے والدین نے مجھے مزید تعلیم دلانے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔ میری والدہ نے کہا کہ بیٹا ہم تمہیں مزید تعلیم کے لئے کالج میں داخل نہیں کر اسکتے۔ تمہارے باپ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ تمہاری تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکے ۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ تم گاؤں میں رہ کر اپنے والد کی کھیتی باڑی میں مدد کرو۔

میں نے اپنے والدین کی خواہش جو یقیناًمعاشی مجبوری کا نتیجہ تھی کے پیش نظر کھیتی باڑی کے کاموں میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا نا شروع کردیا ۔انہی دنوں ہمارے گاؤں میں’ درس‘ قائم ہوا ۔ میں نے ’درس‘ میں شیخ سعدی کی دو کتابیں ۔۔ ’گلستان‘ اور ’بوستان‘ پڑھیں۔اسے آپ میری نا سمجھی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان دوکتابوں کو پڑھنے کے بعد میں خود کو فارسی زبان و ادب کا ’عالم سمجھنے لگا تھا۔فارسی زبان کی ابتدائی شد بد نے مجھے منشی فاضل کا امتحان دینے پر اکسایا ۔ میں نے لاہور سے منشی فاضل کے کورس کی کچھ کتابیں منگوائیں اور انھیں پڑھ کر میں نے1932میں منشی فاضل کا امتحا ن دے دیا۔ یہ امتحان دینے والوں میں ہی وہ واحد امیدوار تھا جس کے داڑھی مونچھ نہیں تھی۔

میرے ساتھ امتحان دینے والوں میں غازی عبد الرحمن خاکسار بھی شامل تھے۔’خاکسار‘ ان کا نام تھا ان کی سیاسی وابستگی ’احرار ‘سے تھی ۔ مطلب یہ کہ منشی فاضل کا امتحان دینے والوں میں عام طور پر بڑی عمر کے افراد ہوتے تھے ۔ یہ امتحان دینے والوں میں،میں ہی ’بچہ ‘ تھا۔ منشی فاضل کا امتحان میں نے پہلی ہی دفعہ پاس کر لیا ۔ منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے والے ان دنوں صرف انگریزی کا امتحان دے کر ایف ۔اے پاس کر لیا کرتے تھے اور بعد ازاں بی۔اے کے لئے بھی انھیں صرف انگریزی ہی کا امتحان دینا ہوتا تھا اور انھیں بی۔اے کی ڈگری مل جاتی تھی۔چنانچہ میں نے اس طرح 1933میں ایف۔اے اور 1934میں صرف انگریزی کا امتحان دے کر بی۔اے کر لیا ۔

 انگریزی ادب پڑھنے کا مجھے خبط تھا ۔یہ انگریزی ادب کا شوق ہی تھا جس کی بنا پر میں انگلش لڑیچر میں ماسٹر ز کرنے کا خواہاں تھا ۔یہاں لاہور میں میرے بڑے بھا ئی کا ایک دوست تھا جس سے میر ی بھی شناسائی تھی ۔وہ روزنامہ’ پرتاپ‘میں اسسٹنٹ ایڈیٹر تھا پھر کچھ عرصہ کے لئے وہ مولانا ظفر علی خان(1873-1956)کے اخبار ’زمیندار ‘ میں کام کرتا رہا تھا ۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں ایم ۔اے انگریزی کرنا چاہتا ہوں تو اس نے کہا ’تیری مت ماری گئی ہے۔یہاں کونسی نوکریاں مل رہی ہیں ، ایم اے انگریزی کرکے تجھے کونسی پروفیسری مل جانی ہے؟۔جا ؤ اور جاکر لا (قانون )کرو ‘۔ چنانچہ اس کے مشورے پر میں نے لا کالج میں داخلہ لے لیا ۔ ان دنوں ایک ہی لا کالج ہوا کرتا تھا ، یونیورسٹی لا کالج ۔

لاہور میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ جو انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام تھا مسلمان نوجوانوں کو تعلیم دینے کا داعی تھا۔باقی دو کالج ہندووں کے تھے جن میں دیا نند اینگلو ویدک کالج ( حال اسلامیہ کالج سول لائنز ) اور سناتن دھرم کالج ۔ ان کے علاوہ گورنمنٹ کالج اور فاریمن کرسچین کالج ( ایف۔ سی کالج ) تھے جن میں ہر مذہب کے مڈل اور اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے طلبا تعلیم حاصل کرتے تھے ۔لا کالج میں ایک ہی مسلمان پروفیسر تھے۔ان کا نام تھا سلیم صاحب جو بعد ازاں پاکستان کے وزیر قانون ، وزیر خارجہ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقرر ہونے والے معروف قانون دان منظور قادر (1913-1974)کے چچا تھے۔

لاہور میں ان دنوں مسلمان وکلا کی تعداد انتہائی قلیل تھی۔ زیادہ سے زیادہ پانچ دس ۔لا کالج میں بھی ہم مسلمان طلبا کی تعداد تین چار سے زیادہ نہ تھی ۔ان میں سے اب کوئی بھی حیات نہیں ہے۔لا کالج میں میرے ہم جماعت مسلمان طلبا میں یعقو ب علی خان(1912-1994 )پاکستان کے چیف جسٹس بنے۔ میں اور یعقو ب علی خان ایک ہی سیٹ پر بیٹھا کرتے تھے۔ زمانہ طالب علمی کے میرے دوستوں میں اردو اور ہندی کے معروف افسانہ نگار اوپندر ناتھ اشک(1910-1996 )بھی شامل تھے جن کا تعلق جالندھر سے تھا ۔ دوران طالب علمی جب وہ ہمیں اپنے افسانے سناتا تو ہم اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ 1936میں ،میں نے ایل۔ایل۔بی کا امتحان پاس کر لیا ۔

 لا کالج میں زیادہ تر ہم جماعت ہندو تھے جو تقسیم کے وقت نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے ۔اس وقت کے لوگوں میں ایک نمایاں شخصیت مولانا عبد الستار نیازی (1915-2001)کی ہے جو اس دور میں بھی کٹھ ملا تھا اور آج بھی وہ ویسا ہی ہے۔ اس میں سر مو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔عبد السلام خورشید جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ رہے وہ روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر عبد الحمید سالک کے بیٹے تھے وہ اب فوت ہوچکے ہیں۔باری علیگ (1906-1949)جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی پر کلاسیک کتاب لکھی ، وہ بھی عرصہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے ہیں۔

 ایل ایل بی کرنے کے بعد ہمیں شوق ہوا کہ ایم ۔اے اکنامکس کیا جائے ۔ ایم اے اکنامکس ہی کیوں؟ اس کے پس پشت میرا نظریاتی رحجان تھا ۔ دراصل لا کالج میں پڑھتے ہوئے میں کمیونسٹوں اور کمیونسٹ نظریات کے قریب ہوگیا تھا ۔ کمیونزم سے وابستگی ہی وہ محرک تھا جس نے مجھے ایم اے اکنامکس کرنے پر اکسایا کیونکہ کارل مارکس کے معاشی نظریات کو سمجھنے کے لئے میرے خیال میں ایم اے اکنامکس کرنا ضرور ی تھا ۔

Comments are closed.