مادری زبان کا عالمی دن، کھُرے کے نشان پاکستان تک جاتے ہیں

آصف جاوید

سنہ 2000 سے لے کر آج تک ہر سال 21 فروری کا دن ، مادری زبان کےعالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ مادری زبان کو عالمی دن کے طور پر منانے کی توجّہ وینکوور، کینیڈا میں مقیم ایک بنگالی صاحِب فکر جناب رفیق الاسلام نے اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب کوفی عنّان کو اپنے 9 جنوری 1998 کو لکھے گئے ایک خط میں دلائی تھی، جس میں رفیق الاسلام نے مادری زبانوں کے عالمی دن منانے کےلئے ہر سال 21 فروری کا دن تجویز کیا تھا۔

پھر سنہ1999، میں میں بنگلہ دیش کی سربراہی میں 28دیگر ممالک نے یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں ایک قرارداد پیش کی تھی ، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 21فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا جائے۔ مادری زبانوں کو انحطاط و استبداد سے بچانے، اور ان کے تحفّظ اور ترقّی کی اہمیت کے پیشِ نظر یونیسکو نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی تھی ۔ جنرل اسمبلی نے سال 2008 کو پوری دنیا میں زبانوں کے بین الاقوامی سالکے طور منانے کا اعلان بھی کیا تھا ، تاکہ رواداری، تنوّع، اور قبولیت جیسی اقدار کے تحفّظ کے لئے بین الاقوامی طور پر کثیرالّسانیت، اور کثیر الثقافت، اور کثیر القومیت جیسے عظیم عمرانی اصولوں کے فلسفے کو فروغ حاصل ہو۔

پاکستان کی تاریخ میں 21 فروری 1952 وہ منحوس ترین دن تھا ، جب مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں بنگالی نوجوانوں کو اپنی مادری زبان کو قومی زبان بنانے کی جدوجہد میں خاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا، 21 فروری 1952 کے دن مادری زبان کے تحفّظ کی پاداش میں 8 بنگالی نوجوان شہید ہوئے، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ مگر بنگالیوں کے خون سے تاریخ میں یہ دن امر ہوگیا۔

آج پوری دنیا میں 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن نہایت ہی جوش و خروش سے اور اس جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ مادری زبانوں کو انحطاط سے بچایا جاسکے،اور اقوامِ عالم میں رواداری، تنوّع، اور قبولیت جیسی اقدار کو تحفّظ مل سکے۔ اور دنیا میں کثیرالّسانیت، اور کثیر الثقافت، اور کثیر القومیت جیسے عظیم عمرانی اصولوں کو پذیرائی مل سکے۔

واضح رہے کہ اس واقعہ کے وقت، مغربی اور مشرقی پاکستان کی کل آبادی کے چھپّن فیصد سے زائد عوام کی زبان بنگالی تھی ۔بنگالیوں کا محض یہ مطالبہ تھا کہ اردو کو اگر رابطے کی زبان ہونے کے ناطے قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے تو بنگالی کو بھی قومی زبان سمجھنے میں کیا قباحت ہے ؟۔ جبکہ بنگالی زبان کسی بھی طرح کم تر زبان نہ تھی۔ بنگالی زبان و ادب کا شمار فنی استعداد اور علمی ذخیرے کے اعتبار سے ہندوستان کی ترقی یافتہ ترین زبانوں میں ہوتا تھا۔

ادب کے میدان میں ہندوستان کے حصے میں آنے والا واحد نوبیل انعام بنگالی ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کو ملا تھا۔ بنگالی عوام عددی اکثریت میں تھے، قیامِ پاکستان کے وقت ریاست کی کل آبادی 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم نے بنگالیوں پر زبردستی اردو مسلّط کی تھی ۔ قائدِ اعظم کا یہ اعلان کہ صرف کراچی ہی ملک کا دارالحکومت ہوگا اور اُردو اس ملک کی واحد قومی زبان ہوگی، مشرقی پاکستان کے عوام کی احساسِ محرومی کی طرف پہلا قدم تھا۔

پاکستان کی آزاد تاریخ شاہد ہے کہ وسائل اور اقتدار میں بنگالیوں کو کبھی بھی مناسب طور پر حصّہ نہیں دیا گیا۔ ہر سطح پر ان کے ساتھ امتیاز برتا گیا، حق تلفی کی گئی، سرکاری ملازمتوں اور اقتدار میں اُن کو اُن کی آبادی کے اعتبار سے کبھی کوئی حصّہ نہیں دیا گیا، پنجابی اور اردو اسپیکنگ اشرافیہ نے کھل کر بنگالیوں کا استحصال کیا۔ مغربی پاکستان کی مقتدرہ کو مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے زیادہ مشرقی پاکستان کی زمین کی ضرورت تھی،مشرقی پاکستان کی پٹ سن ، چاول، اور چائے کے باغات سے ہونے والی پیداوار کو ایکسپورٹ کرکے تجارت اور آمدنی کی ضرورت تھی ۔

ننّاوے فیصد فوج مغربی پاکستانیوں پر مشتمل تھی اور سارے جرنیلوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ فوج میں بنگالیوں کو شامل ہونے سے روکنے کے لئے کا ایسا معیار مقرّر کیا گیا تھا کہ بنگالی اپنے پستہ قد اور چھریرے بدن کی بناء پر پہلے ہی مرحلے میں طبّی طور پر ٹیکنیکل ناک آؤٹ ہوجاتے تھے۔ مشرقی پاکستان تو مغربی پاکستان سے پہلے ہی تین ہزار کلو میٹر دور تھا ، ان پر مزید یہ ستم کیا گیا کہ دارالخلافہ کراچی سے اٹھا کر مزید ایک ہزار کلو میٹر دور اسلام آباد پہنچادیا گیا ۔ تاکہ بنگالی وسائل اور اقتدار دونوں ہی کی پہنچ سے ہی محروم ہو جائیں۔

سنہ 1970کے انتخاب میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 94 فیصدووٹ حاصل کیے تھے، پورے مشرقی اور مغربی پاکستان کی مجموعی 300 نشستوں میں سے 170 نشستیں عوامی لیگ نے حاصل کی تھیں ۔ بنگالیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ ملک توڑنا گوارہ کرلیا گیا ، مگر اقتدار بنگالیوں کو نہیں دیا گیا۔ ادھر ہم اور ادھر تم کا نعرہ بھٹّو نے لگایا تھا۔ یحییٰ اور بھٹّو دونوں نے مل کر ملک توڑا۔ انڈیا پر الزام ہے کہ پاکستان کو انڈیا نے توڑا، مگر یہ سفید جھوٹ ہے۔ پاکستان انڈیا نے نہیں توڑا، بلکہ پاکستان کے وسائل اور اختیارات پر قابض استحصالی ٹولے اور بنگالیوں کے ساتھ کی جانے والی نفرتوں نے پاکستان توڑا ہے۔

آج 45 سال گزرنے کے باوجود بھی استحصالی طبقے کی جانب سے یہی رویّہ جاری ہے، تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا ہے۔ کراچی اور بلوچستان پر مسلسل فوج کشی جارہی ہے، پچھلے 45 سالوں سے مہاجروں کو سندھ دیہی اور شہری کوٹہ سسٹم کی چکّی میں پیس کر، اقتدار، وسائل اور جائز شہری حقوق سے محروم کرکے ان کی تین نسلیں تباہ و برباد کردی گئی ہیں، بلوچوں کی محرومیوں کے سبب ، بلوچوں میں ریاست سے نفرت اور بغاوت کھل کر سامنے آگئی ہے۔

خیبر پختون خواہ دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، صرف پنجاب میں چین کی بنسی بج رہی ہے۔ طاقت کےسرچشمےیعنی افواجِ پاکستان پر پنجاب کا عملاً غلبہ (قبضہ) ہے، تمام وفاقی اور قومی ادارے عملاً پنجاب کی دسترس میں ہیں۔ قومی وسائل کا تمام تر رخ پنجاب کی جانب رواں دواں ہے، پنجاب کے علاوہ پورا پاکستان محرومیوں اور ناانصافیوں کی آگ میں جل رہا ہے۔ اگر مقتدرہ کے یہی لیل و نہار رہے تو سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سقوطِ کراچی و سقوطِ گوادر بعید از قیاس نہیں۔

تاریخ اپنا انتقام ضرور لیتی ہے۔ آج نہیں تو کل ایسا ہونا لازمی امر ہے۔ ہواؤں کا رخ ہوش مندوں کے لئے اشارہ ہے، ملک کے مفاد میں پنجابی اور فوجی اشرافیہ کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، حقدار وں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھ کر نہ ریاست چل سکتی ہے ، نہ ملک قائم رہ سکتا ہے، 1971 کا نتیجہ سامنے آچکا ہے، اگر یہی لیل و نہار رہے تو کراچی اور گوادر کا نتیجہ بھی آجائے گا۔ وما علینا الالبلاغ

Comments are closed.