پاک افغان تعلقات  اور نفرت کی جڑ پکڑتی رسُولی

ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ

گذشتہ سال جب آزادی کی 69ویں سالگرہ منائی جارہی تھی، واہگہ بارڈر پر  خوشگوار موڈ میں پھولوں اور مٹھائیوں کا تبادلہ ہورہا تھا، جبکہ پاک افغان بارڈر پر شدید کشیدگی دیکھنے کو ملی۔دھرنے اور جلوس نکلے،   اشتعال انگیز  طرفین نے ایک دوسرے کے قومی جھنڈے نذرآتش کئے، لڑنے مرنے کے لئے گلے پھاڑے اور  پھر بارڈر کو طویل عرصے کیلئے کاروباری مقاصد کیلئے بند کردیا گیا۔

اس طرف افغان پناہ گزینوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، وہاں جنوبی پنجاب کے محکوم محنت کش دھر لئے گئے۔ یہاں پولیس کی چاندنی ہو گئی اور وہاں اربکیوں کی خدا نے سُن لی۔فکر کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف میں ایک ہی زبان، کلچر اور قبیلے کے لوگ تھے جو اپنے اپنے قومی ریاستوں کے ساتھ مصنوعی اور شرانگیز وابستگی دکھا رہے تھے۔ کوئٹہ میں پولیس  اتنی چوکنی ہوگئی تھی کہ کسی پگڑی والے کا شہر میں نظر آنا ناپید ہو گیا۔

حالیہ دہشت گردی کی لہر نے  جہاں چاروں صوبوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہاں افغانوں اور پشتونوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پنجاب حکومت کی وزارت داخلہ نے پشتونوں اور پٹھانوں پر نظر رکھنے کا جو  رسمی تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے اس سے پاکستانی ریاست میں قومیتیوں کے درمیان عدم اطمینان اور تعصب کے جذبات بھڑکے ہیں۔ مشرف  کے آمرانہ دور میں جہاں ایم کیو ایم اور ریاستی اداروں نے  پشتون اور طالب کو ایک ہی سمجھ لیا، اور اس فکری مغالطے کو عام کرنے کیلئے کھلے بندوں  تمام پشتونوں اور افغانوں کو دہشت قرار دیا گیا۔

جب سے پنجاب میں پشتونوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی ہے، پرامن اور قانونی طور طریقے سے کاروبار کرنے والے پشتونوں کو بلا امتیاز پکڑا جارہا ہے اور انہیں کھلے عام روڈوں پر زود و کوب کیا جارہاہے۔انہیں گھسیٹتے ہوئے گاڑیوں اور باربرداری کے ٹرکوں میں لادھا جارہاہے،   انکا حُلیہ مضحکہ خیز بناکر پیش کیا جاتا ہے اور بغیر کسی تفتیش اور قانونی چارہ جوئی کے، دہشت گردی کے تمام اگلے پچھلے واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا جارہاہے۔

پاکستانی اردو میڈیا کے پنڈت اس حقیقت کو پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ افغان حکومت کی رٹ شہر کابل کے مضافات تک محدود ہے۔ جس دہشت گرد نے کابل یونیورسٹی کے پھول جیسے نوجوان شہید  کئے، انھی لوگوں نے لا ہور، سہون اور چارسدہ میں کارروائی کی ہے۔پاکستان نے افغان سفیر کو جن مطلوبہ افراد کی فہرست دی ہے اس سے لمبی فہرست انہیں افغانستان کی جانب سے بھی ملی ہے۔

دہشت گردی کی جنگ کو نسلی اور لسانی امتیاز سے ہر گز نہیں جیتا جاسکتا۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس جنگ کے حق میں داخلی سطح پر منظم تنظیمی اور فکری ڈھانچے وجود رکھتے ہیں۔ جہاد اور تشدد پر پختہ یقین رکھنے والے منظم ادارہ جاتی نیٹ ورک اگرچہ پورے ملک میں پھیلا ہواہے، لیکن اس کا گڑھ بہر حال پنجاب کے محکوم اور نظر انداز علاقے ہیں۔

لال مسجد اسلام آباد کے خطیب برملا جمہوریت کو کفریہ نظام بتاکر  آئین شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں ،  ریاست کے قانونی اور عدالتی نظام کو کفریہ کہہ کر اس کے ادارہ جاتی فریم ورک کو تباہی سے دوچار کرنے کا پختہ یقین اور جذبہ  رکھتے ہیں لیکن اس  کے باوجود بھی امن و آشتی سے زندگی گذار رہا ہے۔ جبکہ مجموعی قومی ترقی، سول اور عسکری اداروں میں کروڑوں محنت کش پشتونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے۔

دہشت گردی کی اس نئی لہر کی جڑیں اگرچہ بھارت سے ہوکر افغانستان جا پہنچتی ہیں، اصولاً اگر ہمیں احتجاج کرنا ہے تو ہم ہندوستان کے سفارت کار کو لسٹ پکڑوا دیتے، واہگہ بارڈر بند کردیتے، امن کی آشا کا ڈرامہ بند کرتے اور دو ٹوک انداز میں اس مسئلے سے نبٹتے۔  لیکن ایسا نہیں ہوا،  گذشتہ چار دنوں سے افغان بارڈر ایک دفعہ پھر بند کردیا گیا ہے۔ سرد جنگ کے دوران ایک دوسرے کے ہاں پراکسیز پیدا کرنے والی ریاستیں اب سرحدوں پر ایک دوسرے سے بھاری اسلحے کی زبان میں بات کر رہی ہیں۔

جیسے سعودی عرب اور انکے لواحقین نے اسرائیل سے صرف نظر کرتے ہوئے ایران کو اپنا ازلی دشمن ٹھہرا یا ہے، لگتا ہے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی اسی طرح کی  لکیر کھینچی جائے گی۔سوشل میڈیا پر ایک جوشیلے پاکستانی نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ کابل کو ڈھانے کیلئے کیا ہمیں غوری میزائل داغنا ہوگا ،ابدالی یا پھر غزنوی؟۔بیچارے کی تاریخ اور جغرافیے کاعلم ہی یہاں تک ہے، کہ وہ غوری، ابدالی اور غزنوی کو مریدکے، گوجرانوالہ اور منڈی بہاوالدین کے پیدائشی سمجھتا ہے۔

One Comment