پاکستان : مسلمانوں کا ملک یا ’نفاذ اسلام کی تجربہ گاہ

ترتیب: لیاقت علی

کراچی لٹریری فیسٹول کے ایک سیشن کی روئداد

کراچی لٹریری فیسٹول میں جہاں علم وادب اور آرٹ کے مختلف شعبوں کے بارے میں متعدد سیشن منعقد ہوئے وہاں ایک سیشن پاکستان کی تاریخ کی حوالے سے بھی منعقد ہوا۔ معروف شاعر اور کالم نگار حارث خلیق نے اس سیشن کو ماڈریٹ کیا جب کہ ماہرین کے پینل میں نامور مورخ محترمہ عائشہ جلال، راجر لانگ اور مصنف و صحافی سعید حسن خان شامل تھے۔ اس سیشن میں پاکستان کے ماضی ، حال اور مستقبل کے امکانات کے حوالے مختلف سوالات زیر بحث آئے۔

ماڈریٹر حارث خلیق نے ماہرین سے پوچھا کہ کیا تقسیم ہند کے نتیجے میں دو ریاستیں وجود میں آئیں یا دو قومیں؟محترمہ عائشہ جلال کا کہنا تھا کہ ریاست اور قوم میں فرق ہے۔وہ حضرات جو یہ سمجھتے ہیں کہ قوم اور ریاست باہم لاز م و ملزوم ہیں درست نہیں ہیں۔ قوم پرستی کا لازمی نتیجہ ریاست کا قیام نہیں ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک ریاست میں ایک ہی قوم رہتی ہو ، ایک ریاست میں ایک سے زائد اقوام بھی ہوسکتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم ایک سے زائد ریاستوں کی شہری ہو ۔

اگر اس اصول کو پیش نظر رکھ کر قیام پاکستان کے تمام عمل پر نگاہ ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم قوم پرستی کا تصور ہندوستان میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا لیکن جب پاکستان بنا تو اس میں ہندوستان کے تمام مسلمان نہیں آئے تھے ۔ صرف انہی صوبوں سے مسلمان پاکستان آنے کے حقدار تھے جو قیام پاکستان کے نتیجے میں تقسیم ہوئے تھے اور جہاں سے تبادلہ آبادی کا معاہد ہ ہوا تھا ۔

اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو تقسیم ہند کے سیاق سباق میں دو قومی نظریہ ۔۔ جس کی بنیاد ہندو وں اور مسلمانوں کی مذہبی تفریق پر رکھی گئی تھی ، بلا جواز نظر آتا ہے کیونکہ اگست 1947 میں جو ریاستیں وجود میں آئیں وہ قومی ریاستیں تھیں نہ کہ مذہبی ریاستیں۔آج ہم جن دو قوموں کی بات کرتے ہیں وہ پاکستانی اور بھارتی ہیں نہ کہ مسلمان اور ہندو۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ آج بھی کچھ افراد موجود ہیں جو اس تقسیم کو مذہب کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کو شش کرتے رہتے ہیں۔

عائشہ جلال نے اس نکتہ نظر کی بھرپور الفاظ میں تردید کی کہ پاکستان کا قیام’ اسلام کے نفاذ ‘کے لیے تھا ۔ یہ حقیقت لازمی طور پر پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان مسلمانوں کے وطن طور پر وجود میں آیا تھا نہ کہ کسی مذہبی نظریئے کی تجربہ گاہ کے طور پر ۔مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین لڑائی کی نوعیت سیاسی اور آئینی تھی نہ کہ مذہبی ۔ یہ مسئلہ درپیش نہیں تھا کہ شریعت یا خدا کی کونسی تعریف قابل قبول ہے ،مسئلہ تو یہ تھا کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں خاص طور پر ان علاقوں کے مسلمانوں کو جہاں و ہ اکثریت میں ہیں کس قسم کے آئینی حقوق حاصل ہوں گے ۔

عائشہ جلال کا موقف تھا کہ تقسیم سے قبل مسلم لیگ اور کانگریس کی قیادت مذہبی عقیدے کے بجائے آزاد ہند وستان میں شراکت اقتدار کے فارمولے پر باہم برسر پیکار تھی۔ مسلم لیگ مذہبی عقیدے کو مسلم عوام کو متوجہ کرنے اور حمایت حاصل کرنے کے لئے بطور نعرہ تو ضرور استعمال کرتی رہی لیکن ایک مذہبی ریاست کا قیام اس کا مطمع نظر کبھی بھی نہیں تھا ۔

ماڈریٹر حارث خلیق نے راجر لانگ سے استفسار کیا کہ اگر کیبنٹ مشن پلان کو کانگریس بھی تسلیم کر لیتی تو کیا اس کے نتیجے میں دو اقوام وجود میں آتیں یا دو ریاستیں؟مسٹر راجر لانگ کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ آپ 1946 میں ہونے والے واقعات کی توجیح کس زاویے سے کرتے ہیں ۔ مختلف نظریاتی اور سیاسی وابستگیوں کے حامل افراد ان واقعات کا مطالعہ اپنے نکتہ ہائے نظر کرتے ہیں اس لیے اس حوالے کوئی ایسی توجیح ممکن نہیں جس پر ہر کوئی اتفاق کرے۔

کیبنٹ مشن پلان ہو یا عبوری حکومت مسلم لیگ کا موقف تھا جو انتظام و انصرا م برطانوی حکومت ہندوستان کے فرقہ ورانہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے کر رہی ہے ان کی تہہ میں قیام پاکستان کے بیج موجود ہیں۔ان کے نزدیک بالآخر ان سب آئینی اقدامات کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا اور وہ ہے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ریاست پاکستان کا قیام۔

جناح اور لیاقت علی خاں کی تقاریر اور بیانات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلم لیگ مستقبل کے حکومتی سیٹ اپ میں کانگریس کے مقابلے میں مساوی حصہ چاہتی تھی۔ راجر لونگ کے نزدیک جناح نے ستمبر 1946میں تشکیل پانے والی عبوری حکومت میں شامل نہ ہوکر غلطی کی تھی ۔ پورا ایک مہینہ جواہر لال نہر ونے ایک موثر وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کئے تھے ۔ مسلم لیگ حکومتی امور سے الگ تھلگ تھی اور اس کا کوئی عمل دخل عبوری حکومت میں نہ تھا ۔کانگریس رہنما خوش تھے کہ مسلم لیگ کے بغیر ان کے ہاتھ پورے ہندوستان کے اقتدار کی باگ ڈور آگئی ہے اور یہی کچھ وہ چاہتے تھے۔

Comments are closed.