پاکستان گیریژن اسٹیٹ، ماضی حال و مستقبل۔ پہلا حصہ

آصف جاوید

ارشد محمود کا شمار پاکستان کے ان نامور ترقّی پسند دانشوروں میں ہوتا ہے، جو عریانیت کی حد تک سچ بولنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں قیام پذیر ہیں، پنجاب سے تعلّق ہے۔ ارشد محمود ایک ایسے دردمند پاکستانی اہلِ دانش ہیں جو کہ سماجی ذمّہ داریوں کا شدید ادراک اور احساس رکھتے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر تحریر و تقریر اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی پوری ایمان داری سے پاکستانی قوم کو فکری اور شعوری رہنمائی مہیّا فرما تے ہیں۔

انہوں نے اپنی تمام تر فکری توانائی اور دانش ایک بیمار معاشرے کی اصلاح کے لئے وقف کررکھی ہے۔ اپنی ذاتی آمدنی تک کو بلا کسی تعصّب اور امتیاز کے تعلیمی اداروں کی زبوں حالی درست کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ پچھلے سال کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سمعی و بصری علوم کی زبوں حالی کا احساس کرتے ہوئے اپنی ذاتی آمدنی میں سے ایک خطیر رقم کراچی یونیورسٹی کو عطیہ فرما چکے ہیں۔

میں ایک ترقّی پسند، لبرل، سیکولر سوچ کا حامل شخص ہوںاور سوشل اور ہیومن رائٹس ایکٹیوِسٹ ہونے کے ناطے ، ارشد محمود کا بڑا قدر دان ہوں، حالانکہ میرا ارشد محمود صاحب سے مہاجروں کی سندھ میں مساوی شہری حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد پر ارشد محمود صاحب کی اختلافی رائے سے ہمیشہ کھلا اختلاف رہا ہے۔ مگر میں ایک حقیقت پسند انسان ہوں، نظریاتی اختلافات کو ذاتی اختلاف نہیں بناتا۔

سندھ کے شہری علاقوں کے باشندوں یعنی مہاجروں پر کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی وجہ سے مہاجروں کی تعلیمی، سماجی و معاشی حق تلفی اور برابری کی بنیاد پر حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں مہاجروں کی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے کردار پر ارشد محمود کی بدگمانی سے مجھے ہمیشہ فکری اختلاف رہا ہے ۔ ایک موقعہ پر تو ارشد محمود سے بہت زیادہ تلخی بھی ہوچکی ہے۔ مگر میں نے صرف ایک مخصوص رویّے پر فکری اختلاف کو کبھی ذاتی اختلاف نہیں بنایا۔

میں ایک محبّ وطن پاکستانی ہوں ، سماجی انصاف ، انسانی برابری ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور مجموعی قومی مفاد کا قائل ہوں۔ بطور قلم کار میری پیشہ ورانہ ذمّہ داری اور ایمانداری کا تقاضہ یہ ہے کہ میں ارشد محمود کی تمام تر فکری کاوشوں کا کھلے دل سے احترام کروں۔ ارشد محمود کی سوچ و فکر میری ذاتی سوچ و فکر سے کافی حد تک ہم آہنگ ہے۔ میری تحریروں میں بھی آپ کو ارشد محمود کا رنگ نمایاں طور پر نظر آئے گا۔

میں ملّاملٹری الائِنس مائنڈ سیٹ کے خلاف روشن خیال اور ترقّی پسندوں کی نظریاتی جنگ میں کاؤنٹر مائنڈ سیٹ کے قیام کی جدوجہد کے سلسلے میں ارشد محمود صاحب سمیت تمام لبرل، سیکیولر، روشن خیال، ترقّی پسند عمل پرستوں کی کاوشوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتا ہوں۔

میرے آج کے کالم کا موضوع پاکستان گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست)، ماضی حال و مستقبل کے عنوان سے ایک فکری لیکچر کی تفصیلات ہیں، اِس لیکچر کا انعقاد ارشد محمود نے بروز ہفتہ 19 مارچ ، سنہ 2016 کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری اینڈ کلچرل ریسرچ، اسلام آباد یونیورسٹی میں کرایا تھا ۔ پاکستان گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست)، ماضی حال و مستقبل کے عنوان سےیہ فکری لیکچر پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے دیا تھا، ڈاکٹر صاحب ایک ممتاز ریسرچ اسکالراور سوشل سائنٹسٹ ہیں جو مغربی جامعات میں درس، تدریس و تحقیق میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔

اس لیکچر کو ممتاز اسکالرز اور نوجوان تحقیقی طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے نہ صرف سراہا بلکہ امید ظاہر کی کہ کہ پاکستان کے لوگ سچ سننا چاہتے ہیں۔ اور وہ پاکستانی اسٹیبلشِمنٹ کے 70 سالہ بوسیدہ اور جھوٹے نظریات سے تنگ آ چکے ہیں۔ اس لیکچر نے نوجوان تحقیقی طلباء و طالبات اور اہلِ علم و دانش میں امید کی ایک کرن پیدا کی تھی کہ

ملائیت، قدامت پرستی، مذہبی انتہا پسندی، اور ملائوں اور جنرلوں کی تخلیق کردہ سیکورٹی ڈاکٹرائِن 20 کروڑ عوام کو لا حاصل جنگ کے مہیب غار میں تو دھکیل سکتی ہے ۔ پاکستان کو برباد تو کرسکتی ہے۔ لیکن پاکستان کو امن، خوشحالی اور ترقّی نہیں دے سکتی ۔

میں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں پر ارشد محمود کی وساطت اور شکرئیے سے ڈاکٹر اشتیاق احمد کے لیکچر کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کرونگا، مضمون کی طوالت کے پیشِ نظر شاید اس لیکچر کی تفصیلات ایک سے زیادہ کالموں میں پیش کرنا پڑیں ، جس کے لئے میں پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ اپنی بات کی شروعات میں لیکچر میں اٹھائے گئے اس سوال سے کروں گا کہ

گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) کس کو کہتے ہیں؟ اور پاکستان ایک گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست)کیوں ہے؟

ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اس سوال کا جو جواب دیا میں نیچے درج کررہا ہوں، جس کے بعد لیکچر کی تفصیلات ہیں۔

گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) وہ ریاست ہوتی ہے، جو خود کو مستقل طور پر خطرے میں محسوس کرتی ہے۔چنانچہ ایسی ریاست کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ریاست کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہو، جو جنگ و جدل اور تشدّد کے ماہرہوں ۔ پاکستانی ریاست اس لئے گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) ہے، کہ وہ سمجھتی ہے، کہ اسے انڈیا سے مستقل خطرہ ہے۔ اِس ہی لئے پاکستان کی قیادت مستقل طور پر فنونِ حرب کے ماہرین کے ہاتھوں میں ہے۔

کا لونیل دور یعنی برٹِش راج کے خاتمے کے بعد پاکستان وہ ، مابعد کالونیل ریاست ہے۔ جس میں ریاستطاقتور ترین اور عوام کمزور ترین ہیں۔ پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ کو اپنے وطن برِّ صغیر (ہندوستان) کی آزادی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کا مسئلہ تو مذہب کی بنیاد پر برِّ صغیر کی تقسیم تھا۔ اکابِرینِ پاکستان کو آزاد ہندوستان کے جمہوری سیٹ اپ میں ہندووں کی اکثریت قبول نہیں تھی۔ ادھر برطانیہ تصوّرِ پاکستان کوکمیونسٹ روس کے حوالے سے دیکھتا تھا۔اور امریکہ پاکستان بننے کے خلاف تھا۔ مگر چرچل کو امریکہ کی نسبت، اسٹالن کے زیادہ نفرت تھی۔ امریکہ متحدہ ہندوستان کواپنے سٹرٹیجک مفادات کے لئے بہترخیال کرتا تھا۔

امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر ابو الحسن اِصفہانی کو جناح صاحِب نے خصوصی ہدایات دے کر امریکہ بھیجا تھا کہ وہ امریکہ کوقائل کر سکیں کہ پاکستان روس کے خلاف امریکہ کے مفاد میں ہوگا۔ آزادی کے فوری بعد جب پاکستان نے امریکہ سے جب 2 ارب ڈالر کا اسلحہ مانگا، تو امریکہ نے اِس مطالبے کا مذاق اڑایا تھا۔ 4 سال کے بعد سنہ 1951 میں پاکستان کے مسلسل مطالبے پر صرف 10 کروڑ ڈالر کا اسلحہ دیا گیا جو کہ پاکستان کے مطالبے کا صرف پانچ فیصد تھا۔

پاکستان امریکہ کے فوجی بلاکس سیِٹو اور سینٹو میں بھی شامل رہا ۔ امریکہ نواز پالیسی میں پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت دونوں کا گٹھ جوڑ اور اتفاقِ رائے تھا۔ لیکن پھر بھی امریکہ کو یہ احساس غالِب رہا کہ جنوبی ایشیا میں اصل پاور پاکستان نہیں بلکہ انڈیا ہی ہے۔ ادھر پاکستان بنانے والی قیادت کی خوش فہمی تھی کہ سرحد دہلی سے شروع ہوگی۔ مگر ہوا یہ کہ دونوں ملکوں کی سرحد لاہور قرار پائی۔

فیصلہ سازوں نے اکتوبر 1947 میں ہزار وں کی تعداد میں آفریدی اورمحسودقبائل کے مسلّح جنگجو پختون قبائلیوں کو کشمیری کپڑےپہنا کرکشمیر میں داخل کردیا۔ جو کچھ ہی دیر بعد بھول گے، کہ وہ کشمیر کو فتحکرنے آئے ہیں۔ انہوں نے مال و متاع کی لوٹ مار اور کشمیری عورتوں کی عزتیں لوٹنی شروع کردیں۔ کچھ قبائلی جو سرینگرکے قریب پہنچ گئے تھے ، جب کشمیر کے بازاروں میں کھانے پینے کی اشیا کے حصول کے لئے ان کا کشمیریوں سے واسطہ پڑا، تو پتا چلا کہ ان میں سے کوئی بھی کشمیری زبان نہیں جانتا تھا۔ ان قبائلیوں کو تو یہ بھی پتا نہ تھا، کہ کشمیر میں اشیائے خوردنی کی ناپ تول کا نظام کیا ہے؟ چنانچہ جلد ہی وہ ایکسپوز ہوگئے کہ وہ کشمیری نہیں بلکہ حملہ آور ہ قبائلی پٹھان ہیں۔

جاری ہے