برصغیر کی طبقاتی جدوجہد کا فراموش کردار

 پائند خان خروٹی

برصغیر پاک وہندکی سیاسی تاریخ بالخصوص تحریک آزادی کے صف اول کے رہنماؤں میں ایک اہم نام کاکا جی صنوبر حسین مومند(1897-1963)کاہے ۔ حکمرانوں کے ابن الوقت تاریخ نویسوں نے مظلوم طبقات اور محکوم اقوام کی محبوب شخصیات اور ان کے قابل تحسین کردار اورکارناموں کو صرفِ نظر کرنے کے باوجود بھی کاکا جی صنوبر حسین مومند جیسے آزادی پسند رہنما کوعوام اور خطے کی تاریخ آزادی سے نہ مٹا سکے۔ میرے لئے کاکا جی صنوبر کی باغ وبہار شخصیت اس لئے بھی کشش اور دلچسپی کا باعث ہے کہ قومی اور طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے ان کی تعلیمات آج بھی برمحل اور قابل عمل ہیں اور موجودہ معروضی حالات میں بھی ظلم ، جبر اور معاشی غلامی کے خلاف قومی اور طبقاتی تحریکوں کے کارکن کاکا جی کی زندگی، جدوجہد اور تحریروں سے حوصلہ پاتے ہیں ۔ وہ زیردست طبقے کے عوام کیلئے آج بھی رول ماڈل اور مینار نور کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

باچا خان یونیورسٹی چار سدہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر فضل رحیم مروت نے کاکا جی صنوبر کے عظمت ووقار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہماری ادبی اور سیاسی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ اس دھرتی پر انقلابی جدوجہد اور ترقی پسند تحریک اور ادبی وسیاسی حوالوں سے کاکا جی صنوبر حسین سے زیادہ قدآور ، معتبر اور ولولہ انگیز رہنما آج تک پیدا نہ ہوا۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کاکا جی نے پشتو شعر وادب میں پہلی دفعہ شعوری اور سائنسی طریقوں سے ترقی پسند نظر یے کو جگہ دی ۔‘‘(1)۔

جس کاسر کبھی خزان کے آگے نہیں جُھکا
تب ہی تو پیاری ماں نے اس کا نام صنوبر رکھا

کژہ ویالہ (بل کھاتی ہوئی ندی )کوہاٹ روڈ پشاور کے کاشتکار گلفراز خان کے غیور فرزند کاکا جی صنوبر حسین مومند نے اپنے صنوبریت اور حسینیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جدوجہد آزادی کے دوران ہر قسم کی مصلحت پسندی اور سمجھوتہ بازی کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ جدوجہد آزادی جو دو مربوط مراحل میں یکِ بعد دیگرے جاری رہنی چاہیے ،پہلا مرحلہ برطانوی سامراج کے خلاف جبکہ دوسرا انگریز کے پروردہ مقامی اشرافیہ کے خلاف طبقاتی جدوجہد ہے ۔ کاکا جی نے مارچ1930ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں منعقدہ جلسے کے موقع پر کہا کہ ’’ عبدالغفار خان کاموقف یہاں تک درست ہے کہ انگریز ظالم ہیں اور ان کو یہ وطن چھوڑنا چاہیے لیکن عبدالغفارخان نے یہ نہیں کہا کہ انگریز کے جانے کے بعد اُس سرمایہ دار طبقہ کا کیا علاج ہوگا جو ظالم کی پشت پناہی کرتا ہے اور مظلوم و مفلس عوام کاخون چوستے ہیں ۔ اس موقع پر کاکا جی صنوبر نے واضح الفاظ میں کہا کہ ہمیں ہر ظالم کے خلاف مسلح ہوکر لڑنا ہے خواہ وہ انگریز ہو یا انگریزوں کے پروردہ سرمایہ دار طبقہ ‘‘(2)۔

قومی اور طبقاتی جدوجہد کی اس سائنسی جڑت کو بعد کے قوم پرست عناصر نے یا تو سمجھا نہیں یا جان بوجھ کر نظراندا کردیا جس کالازمی نتیجہ برطانیہ کے چلے جانے کے بعد نوآزاد ملکوں میں روایتی قوم پرستی کی زوال پذیر ی کی صورت میں نکلا۔ برصغیر کے تمام ملکوں میںآزادی کے بعد جدوجہد کے طبقاتی عنصر کو نظر انداز کرنے کے یکساں نتائج نظرآتے ہیں ۔ بھارت ہو یا سری لنکا ، پاکستان ہویا بنگلہ دیش ، بھوٹان ہو یاکشمیر ہر جگہ قومی تحریکیں طبقاتی عنصر کے فقدان کی وجہ سے زوال پذیری، محدودیت اور داخلی خلفشار کاشکار ہیں اور ان کی سیاسی تنظیموں پر مذہبی تصورات ،زردار ا ور زوردار غالب آگئے ہیں ۔ اب بھی کاکا جی کے فارمولے کے مطابق قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ منسلک کرکے نہ صرف زندہ رکھا جاسکتا ہے بلکہ اپنی قومی تحریک کو دیگر محکوم اقوام کے حکمران طبقے کے بجائے ان کے مظلوم طبقات کے ساتھ مربوط کرکے کامیابی اور سرخروئی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے ۔

کاکا جی صنوبر حسین فکری طور پر برصغیر پاک و ہند کے اس جدوجہد کا نام ہے جنہوں نے 1857 ء کی جنگ آزادی سے لیکر آزادی کے حصول تک سامراجی اور استحصالی قوتوں کے خلاف مفاہمتوں ، مصلحتوں اور سمجھوتوں کو مسترد کرکے کھلی جدوجہد کی راہ اختیار کی اور سیاست میں خاموش رہنے اور غلامی کو قبول کرنے کی روش کو قومی جرم قرار دیا۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ کاجائزہ لیا جائے تو ہماری سیاسی قیادت مصلحت پسندی اور راست جدوجہد کے دو مختلف خانوں میں بٹی ہوئی نظرآتی ہیں ۔ ایک طرف کانگریس اور مسلم لیگ کے مصلحت پسند عناصر ہیں تو دوسری جانب بھگت سنگھ ، سھباش چندر بوس ، علامہ عنایت اللہ مشرقی اور فقیراف ایپی جیسے نڈر لیڈرز نظرآتے ہیں ۔ کاکا جی صنوبر حسین مومند کا شماردوسری قسم کی مسلح اور غیر مسلح دونوں جدوجہد پر یقین رکھنے والے قائدین میں ہوتا ہے ۔ ان کے حریت پسند رہنما سھباش چند بوس، بھگت سنگھ،کامریڈ دلیپ سنگھ،1930ء میں پنجاب کے گورنر سر جیفری پر گولی چلانے والے ہر ی کشن اور اس کے بھائی بھگت رام تلواڑ کے ساتھ نہ صرف سیاسی ر ابطے تھے بلکہ ایک ہی سیاسی تنطیم’’نوجوان بھارت سبھا‘‘ کے پلیٹ فارم سے تاج برطانیہ کے خلاف صف آراء تھے ۔

کاکا جی صنوبر حسین مومند عدم تشدد کے فلسفہ کے نہ صرف مخالف رہے بلکہ انہوں نے عدم تشدد کو انگریزوں کو تسلط جمانے کاموقع دینے کے متراد ف قرار دیا ۔ باالفاظ دیگر عدم تشدد قوموں کی مزاحمت اور بغاوت کی جدوجہد کوکُند کرنے کی سازش سمجھتے تھے ۔ انہوں نے برہمن راج کاراستہ بنانے کیلئے اسے گاندھی جی کی سیاسی چال بھی قرار دیا ۔ کا کاجی نے عدم تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ نامرد فلسفہ یعنی عدم تشدد نے انگریزوں کیلئے لوگوں کو زود کوب کرنے ، سیاسی لوگوں کے گھر وں میں گھسنے ، چادر وچاردیواری کی پامالی کرنے کی راہ ہموارکی ۔ یہ ایسا ظلم تھا جو کوئی غیور اور ملی پشتون برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔ گاندھی جی کے اس نامزد فلسفہ کے مریدوں کے ہاتھ پاؤں پھر بھی حرکت میں نہیں آئے اور انگریز آزاد نہ ہر قسم کے زور وظلم کرتے تھے ‘‘۔(3)۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد 1885 ء میں ایک انگریز ایلن ہیوم نے خود رکھی اور گاندھی جی کی تعلیم وتربیت بھی انگلستان کے دارالحکومت لندن میں ہوئی ۔ اس سے بھی کاکا جی صنوبر کے خدشات کو تقویت ملتی ہے ۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد گاندھی جی اور پنڈت نہرو کی قیادت میں کانگریس کی حکومت نے برہمن راج کو مستحکم کیا ۔ گویا اقتدار اور اختیارات ملنے کے بعد ہندوستان میں ذات پات کے نظام کاخاتمہ نہ کرنا ، دلت اور شودر اکثریتی عوام کو معاشی آزادی اور سیاسی اقتدار کی فراہمی کویکسر فراموش کرنے سے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ عدم تشدد کافلسفہ واقعتاً گاندھی جی کی سیاسی چال تھی ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ کو آزادی ملنے کے بعد بھی ان ملکوں میں مظلوم عوام اور محکوم اقوام بالا دست طبقے کے سیاسی تسلط اور معاشی استحصال کے شکار کیوں ہیں ؟ فرسودہ قبائلی وجاگیرداری نظام کاخاتمہ کیوں ممکن نہیں ہوا؟ کہیں آزادی سے پہلے سیاسی ومعاشی مسائل کاحل مذہبی اور علاقائی تناظر میں ڈھونڈنے کے تجربے غلط تو ثابت نہیں ہو رہے ہیں؟ اس ضمن میں فکری رہنمائی کیلئے جین پال سارتر نے اپنے منفرد انداز میں تشخیص یوں کی ہے :۔’’ تیسری دنیا نے خود کو پالیا ہے اور وہ فرانز فینن کی آواز میں اپنے لوگوں سے مخاطب ہے ۔ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا ابھی یکساں نہیں ہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں ابھی غلامی باقی ہے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں جھوٹی آزادی کاایک چربہ نصیب ہوگیا ہے ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو آزاد ی کیلئے جنگ کررہے ہیں اور ایسے بھی جنہوں نے مکمل آزادی تو حاصل کرلی ہے مگر ہمہ وقت سامراجی تشدد کے خدشے میں مبتلا رہتے ہیں ۔ یہ غیر یکسانیت ، استعماری تاریخ یاباالفاظ دیگر ظلم کا شاخسانہ ہے ‘‘۔ (4)۔

سنہ 1917 ء میں دنیا کے پہلے سوشلسٹ انقلاب کے دنیا بھر کی قومی تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ سامراجی ا ور استحصالی قوتوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے حوالے سے سوشلسٹ انقلاب کے براعظم ایشیا ، افریقہ ، لاطینی امریکہ اور بالخصوص عرب ممالک پر توخصوصی احسانات ہیں ۔ مذکورہ بر اعظموں اور دنیا کے دیگر مقبوضہ خطوں میں نئے جذبے سے پیوستہ جدوجہد آزدی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور محکوم اقوام نے ایک نئے جذبے ولولے کے ساتھ عَلم بغاوت بلند کیا ۔ اسی تسلسل میں برصغیر پاک وہند میں مختلف اقوام، ہند و ، بنگالی ، سری لنکن، پشتون ، سندھی ، سکھ، پنجابی اور بلوچ وغیرہ نے آزادی کی جدوجہد تیز کی۔ برطانوی سامراج کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جنگ کے عین درمیان خطے میں عدم تشدد کاپرچار شروع کرکے آزادی کی اصل جنگ کوکمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 

جب پورے خطے میںآباد تمام اقوام ’’برطانوی استعمار کی شکست ‘‘یا قومی آزادی کے حصول کے ون پوائنٹ ایجنڈا پر متفق تھیں تو عدم تشدد کو متعارف کرانے کے فوراً بعد آزادی کی تحریکوں میں مذہب ، قوم ، فرقہ اور طبقہ کے نام پر نئے اختلاف سراٹھا نے لگے ۔ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے مسلمان اور ہندو کے مابین تفریق وتعصب کی آگ بھڑکائی گئی ، پہلی مرتبہ وطن کی بجائے مذہبی عقیدے کے نام پر قومیں بننے کاتصور اُبھارا گیا ۔حتی کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی مذہبی نفرت اور انتہاپسندی سے نہیں بچ سکی۔ امن وآشتی کی آڑ میں عوام کے ذہنوں میں عدم تشدد ٹھونسنے سے خوف ، لالچ اور ذاتی مفادات برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی کے اہم قائدین مسلح جدوجہد کے پیکر بھگت سنگھ ،سبھاش چندر بوس، حاجی صاحب ترنگزئی ، پشتونخوا وطن کے چی گویرا فقیر اف ایپی اور طبقاتی جدوجہد کے سرخیل کاکا جی صنوبر حسین مومند کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے مختلف قسم کے حربے وہتھکنڈے استعمال کیے ۔

قومی آزادی کی جنگ جب عروج پر تھی تو گاندھی جی کاعدم تشدد غیرمناسب وقت پرپیش کیا جس کامقصد منطقی طور پر مذکورہ بالا شخصیات کی تعلیمات کو بے اثر کرنا تھا ۔ عدم تشدد کے پرچار سے انگریز کی بالا دستی مزید مستحکم ہوگئی ۔ کانگریس کی جانب سے عدم تشدد کو روکنا نہیں تھا بلکہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے مخالف اس کی ضد میں پیدا ہونے والے مزاحمت اوربغاوت کو بے اثر کرنا تھا ۔ویسے بھی قومی آزادی کی جنگ کے دوران باغیوں اور مزاحمت کاروں سے ہتھیار چھیننے میں جب دشمن کامیاب ہوجاتا ہے تو باغی اور بغاوت دونوں کو کچل دیئے جاتے ہیں ۔ حالت جنگ میں باغی کے ہتھیار ہی اس کی زندگی اور کامیابی کی ضمانت ہے ۔ قومی فریضہ ادا کرنے اوراصل مقصد کے حصول کو سارتر نے مندرجہ ذیل الفاظ میں یوں بیان کیا ہے :۔
“When the peasant takes a gun in his hands, the old myths grow dim and the prohibitions are one by one forgotten. The rebel’s weapon is the proof of his huminity.”(5)

عدم تشددیا گاندھی جی کی سوچ سے اختلاف کرنے کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ تشدد کی ترویج کی جارہی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تشدد کرنے والے کا ہاتھ نہ روکنا ،خاموشی اختیار کرنااورجبرو تشدد کو برداشت کرنے کی تلقین کرنا بذات خود تشدد ہے، عدم تشدد سے اختلاف رکھنے والے کو تشدد پسند قراردینا گمراہی ہے ۔عظیم انقلابی رہنما جوزف اسٹالن نے کہا کہ عدم تشدد کا پرچار کرنا ہندوستان میں برطانوی راج کو طول دینے اورتقسیم ہند کے بعد انگریزوں کے ساتھ مدد و تعاون جاری رکھنا مقامی عوامی تحریکوں کو دبانے اور سوویت یونین کے اثرات کو محدود کرنے کو رپورٹ میں یوں بیان کیا گیا:۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ایڈولف ہٹلر نے برطانیہ کے کئی شہروں کو نشانہ بنا یا تو انگریز کواپنے وطن انگلستان کادفاع کرنے کی خاطر برصغیر چھوڑنے پر مجبور ہوا ۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے برطانیہ نے قانون کے ذریعے اپنی بالا دستی قائم کرناچاہتا تھا۔ گویا برطانیہ کو برصغیر چھوڑنے کے پیچھے ایک موٹی وجہ ایڈولف ہٹلر کابرطانیہ پر حملہ بھی ہے ۔ بہرحال 1947ء میں کانگریس ، مسلم لیگ اور انگریز نے مل بیٹھ کر اپنی مرضی سے برصغیر کوتقسیم کیا تو اس عمل میں کشمیر کومتنازعہ چھوڑدیا اورتقسیم کے اس تاریخی فیصلے میں پشتون قوم کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ کاکا جی صنوبر حسین مومند نے تقسیم ہندوستان سے بہت پہلے پیش گوئی کرچکے تھے کہ فلسفہ عدم تشدد گاندھی جی کی سیاسی چال ہے جس سے ان کی سیاسی بصیرت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

خان عبدالولی خان نے اپنی کتاب میں تقسیم کے وقت پشتون قوم کی حق تلفی اور تاریخی فیصلوں میں نظرانداز کرنے کے حوالے سے انگریزکی پشتون دشمنی ،مسلم لیگ اور کانگریس کی کشمکش اورافغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ کی چپ ساد اختیار کرنے پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ زار روس کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خوف ، 1917ء سوشلسٹ انقلاب کاسرزمین ہندوستان تک پہنچنے کے خوف اور پشتون افغان کے سامراج دشمن مزاج کے خوف میں مسلسل مبتلا رہے جس کے نتیجے میں انگریز نے پشتون افغان کو مختلف جنگوں میں دھکیلا ، ا ن کے سیاسی ومعاشی نظام کو ملیا میٹ کیا ۔اندرونی اختلافات کی آگ بھڑکائی گئی اوربالآخر پشتون افغان سرزمین کو دو لخت کیا۔

حتیٰ کہ باچاخان اورخان عبدالصمد خان اچکزئی اور ان کی سیاسی رفقاء پر زمین تنگ کرکے کئی مسائل ومشکلات سے دوچار کردیااور ان کو ناکردہ گناہوں کی سزائیں دی گئیں ۔ کاکا جی جنگ وجدل اور تخریب کے سخت مخالف تھے ۔ جنگ بنیادی طور پربُری چیز ہے لیکن واضح رہے کہ قومی آزادی اور مظلوم طبقات کیلئے کی جانے والی مزاحمت عبادت کادرجہ رکھتی ہے ۔ چونکہ انگریز پورے برصغیراور پشتونخوا پر حملہ آورتھاتوبرصغیر کی تمام اقوام بشمول پشتون قوم اپنے وطن کے دفاع کاحق رکھتے تھے ۔ جب معاشی غنڈے سامراجی عزائم کے ساتھ وطن اور ناموس پر حملہ آور ہوجاتے ہیں تو ان کے ہاتھ نہیں چُومے جاتے اورمنت سماجت کی بجائے ان کی گردنیں اڑانا فرض بن جاتا ہے ۔

تاریخ میں فتح مند کاکا جی صنوبر حسین مومند کو مختلف مورخوں اور دانشوروں کی مدد سے گوشہ گمنامی میں دھکیلنے کی ناکام کوششیں ہورہی ہیں ۔ کاکا جی کے سیاسی قدوقامت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہ اپنے دور کے انتہائی اہم عالمی رہنماؤں کے ساتھ ان کے گہرے مراسم وتعلقات تھے ۔ کاکا صنوبر کے دہلی ،بنگال، کابل ، ماسکو اور برلن وغیرہ سے بھی روابط موجود تھے ۔ بنگال کے شیخ الہند محمود الحسن ، مفتی عبدالرحیم پوپلزئی، افغانستان کے استقلال کے رہبر امیر امیر امان اللہ خان کے دور سے لیکر افغان ثور انقلاب کے خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قائدین رہبر کبیر استاد نور محمد ترکئی اورحفیظ اللہ امین تک کے جمہوری ، ترقی پسند ا ور انقلابی کارکنوں سے کاکا جی صنوبر حسین مومند اور ان کے نظریاتی پیرو کار افضل خان بنگش اور شیر علی باچا وغیرہ سے روابط برقرار رہے ۔

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومت کے دور میں باچاخان کوتو سرکاری نصاب میں شامل کیا جوایک خوش آئند عمل ہے جبکہ باچاخان مرکز کے تعاون سے شائع ہونے والی قومی ہیروز کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں مسلم لیگی رہنماؤں تک کو شامل کیاگیا لیکن کاکا جی صنوبر حسین مومند کو اس قومی ہیروز کی فہرست سے خارج کیا گیا ۔ اس کے علاوہ پشاور ، کابل ، کوئٹہ اور قندھار وغیرہ کے اکیڈمیوں اور ادبی حلقوں نے آج تک کاکا جی کی شخصیت ، خدمات ،کا رناموں اور قربانیوں پر قومی سطح پر کسی سیمینار کاانعقاد بھی نہیں کیاگیا۔

دوسری جانب کاکا جی صنوبر کو ادب وشعر کی دنیا تک محدود کرنے کی مہم بھی جاری ہے ۔ اہل علم وادب کویہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کاکاجی کی لکھی اور ترجمہ کی گئی ایک درجن سے زائد مختلف کتابیں ،سولہ جلد اسلم نامہ،مجموعہ شاعری اور انکی گراں صحافتی خدمات(سیلاب ،شعلہ اورسروفروش وغیرہ) انکی سیاسی بصیرت کی پیداوار ہے ۔انہوں نے اپنے وقت کے معروف اہل علم دانش کی مدد وتعاون سے پشاور اور کابل کی اکیڈمیز کے قیام سے قبل ’’اولسی ادبی جرگہ پشاور‘‘ کے نام سے 1951 ء میں ترقی پسند ادبی تحریک کی بنیاد رکھی۔بقول کاکا جی پشتون پیدائشی سوشلسٹ ہیں اور ہر کام کو شراکت سے کرنے کے مزاج کو کاکا جی بہت پسند کرتے تھے ۔ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ اور ہندوستان کے دارالحکومت دہلی اور خاص کرانجمن ترقی پسند مصنفین نے بھی انگریز وں کے خلاف جدوجہد کرنے والے کاکا جی صنوبر اور فقیر آف ایپی جیسے قومی ہیروز کوآج تک نذرانہ عقیدت پیش نہیں کیا ۔ یہ ایک خو ش آئند عمل ہے کہ کاکا جی صنوبر کے غازی امان اللہ خان ، جوزف سٹالن اورایڈولف ہٹلر وغیرہ کے ساتھ خط وکتابت ،دعوت نامے اورانگریزوں کے خلاف صحافتی مبازرے میں استعمال ہونے والی پریس مشین اب بھی محفوظ ہیں ۔

چند برس قبل راقم الحروف اور نذر محمد بڑیچ نے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کوئٹہ کی سطح پر کاکا صنوبر کی گراں قدر خدمات اور قربانیوں کے اعتراف کرنے کی غرض سے ایک سیمینار منعقد کیا ۔ اُس وقت کے افغان قونصل جنرل داؤد محسنی ، پشتونخوا میپ کے سینئر ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم مندوخیل ،سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ محمد مری ، باچا خان یونیورسٹی چارسدہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فضل رحیم مروت ، بلوچستان یونیورسٹی انگلش ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر نسیم اچکزئی اور خاص کر لیکوال انٹرنیشنل کے مدیر اعلیٰ نور البشر نوید کی کاوشوں اور ذاتی دلچسپی سے ایک کامیاب سیمینار کاانعقاد ممکن ہوا۔

آزادی کے حصول کے بعد کاکا جی صنوبر تقریباً اٹھارہ برس مسلسل برطانوی سامراج کے خلاف مبارزہ کرنے کے بعد جب پشاور پہنچے تو علالت وغربت کاشکار رہے لیکن پاکستان بننے کے بعد بھی نظریاتی سیاست سے گہری وابستگی رہی۔ پہلی بار کاکا جی کو ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ کے صوبائی صدر کے جرم کے پاداش میں گرفتار کرکے ڈیرہ اسماعیل خان بھیج دیا گیا جہاں ایک قیدی نے کاکا جی پر حملہ کرکے شدید زخمی کردیا ۔دوسری مرتبہ ایوبی مارشل لاء میں کاکا جی کوگرفتار کیاگیاراولپنڈی جیل میں پابند سلاسل رکھا پھرکچھ عرصے کیلئے لاہور شاہی قلعے میں نظربند رکھا اوراس کے بعد لاہور ڈسٹرکٹ جیل منتقل کردیاجہاں پراحمد ندیم قاسمی سے متعارف ہوئے۔واضح رہے کہ احمد ندیم قاسمی نے صنوبر کاکا کے عنوان سے ایک تاثراتی مضمون بھی لکھا تھا۔

برصغیر پاک وہند آزادی کے حقیقی ہیروز کے ساتھ جو برتاؤ کیا گیا ہے اور جس طرح تاریخ نویسی میں ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے اس سے ایک جانب لکھی گئی تاریخ سے اعتبار اٹھ چکاہے دوسری جانب خلق خدا سے جڑی ہوئی حقیقی خلقی قائدین اور ان کے افکار وخیالات سے نئی نسل کو مستفید ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل آزادی کی قدر وقیمت سے ناآشنا ، لاتعلق اور یہاں تک کے بیگانگی کاشکار ہوتی جارہی ہے ۔ مضمون کااختتام کاکاصنوبر کی پشتو سے اردو میں ترجمہ کی گئی نظم پر کرنا چاہتا ہوں :۔

وطن کو برباد کیا ہے اُجلے چہروں نے یا اُجلی پگڑی والوں نے؟
یادونوں نے؟
اس گھر کوآگ لگا دی ہے اپنوں نے یاپرائیوں نے؟
یا دونوں نے ؟
میرے بھائی!تم شیر تھے لیکن اب کیوں نہیں دھاڑ سکتے ؟
وطن تباہ وبرباد ہوگیااور تم کم ہمتی کی غار میں پڑے ہو ۔تمہاری ہمت جواب کیوں دے گئی
اب کیوں نہیں اٹھ سکتے؟
زہر بھر ے سبز چائے نے یا دودھ ملے چائے نے
یا پھر دونوں نے تمہارا کام تمام کردیا
پشتون کے آگے سفید فام ڈاکو کو کس نے بے نقاب کردیا
مجلس اقوام میں اسے کس نے شرمندہ کیا ۔ بولو تو سہی
دشمنوں کے مکرو فریب کاجال کس نے جلا کے بھسم کردیا
مظلوموں کی آہ وفریاد نے یا ہمارے شعلوں نے یادونوں نے ؟

حوالہ جات :

۔1۔ ڈاکٹر فضل رحیم مروت ، مقالہ خصوصی ، 2010ء
۔2۔ پروفیسر حنیف خلیل ، کاکا جی صنوبر شخصیت اور فن ، اکادمی ادبیات پاکستان ، 2006ء ، ص18۔
۔3۔ ہمیش خلیل ، کاکا جی صنوبر حسین مومند ، پشتو ادبی مرکز سراۂ نورنگ ، بنوں 1991ء ص،10
۔4۔ فرانز فینن ، اُفتادگانِ خاک، قلات پبلشر ز اینڈ پرنٹرز کوئٹہ ،2009ء ص،10
۔5-The Wretched of the earth by Frantz Fanon, Liberary of Congress New York USA ,1961,P-21
۔6- Russia & India Report, May 03, 2012

11 Comments