طلاق ، حلالہ اور ہماری فوج

واجد ثانی


گذشتہ چند مہینوں سے میں عدت کے ایام گزار رہا ہوں ۔ جب تیسری طلاق ہوئی تو امام صاحب نے فیصلہ سنادیا کہ بیٹا حلالہ کروانا پڑیگا۔ مجھے حلالہ کروانے پر اعتراض نہیں تھا ۔ میری شرط تھی کہ عورت مجھ سے عمر میں بڑی نہ ہو۔ لیکن جب امام صاحب نے کہا کہ بیٹا حلالہ صرف مرد کے ذریعے ہوگا اور خدا جھوٹ نہ بلوائے ( انھوں نے مونچھوں کو ہاتھ لگاکر کہا ) اگر تم کسی خطیب سے یہ شرف لینا چاہو تو جنت کا مقام مزید بلند ہوسکتا ہے ۔ اب چونکہ غیرت کے حوالے سے میں ذرا سنجیدہ قسم کا انسان ہوں تو میں نے طلاق یافتہ مرد ہونے پر ترجیح دینا زیادہ مناسب سمجھا ۔ لیکن تکلیف کم نہ ہوئی ۔ ایک عرصے تک طبیعت گراں رہی ۔ مختلف نفسیاتی ڈاکٹرز کے درگاہ پر ماتھا ٹیکا۔کچھ ذہنی سکون کی دوائیں لیں لیکن کوئی استفادہ نہ ہوا۔ 

کسی دوست نے ایک حیدرآباد کے حکیم کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’ کوئی بھی بیماری ہو حکیم صاحب صرف نس پر ہاتھ رکھ کر بتادینگے کہ مسئلہ کیا ہے اور ساتھ ساتھ علاج بھی سو ٹکہ درست تجویز کرینگے‘‘ ۔ میں نے سوچا یہ بھی آزما کر دیکھ لیں ۔ بس جمعرات کی رات کو ہم حکیم صاحب کے پاس حاضر ہو گئے اور پانچ منٹ کے اندر اندر پھولتی سانس کے ساتھ باہر نکل گئے ۔ اصل میں مسئلہ یہ تھا کہ مجھے میرے دوست نے یہ نہ بتایا تھا کہ وہ جسم کے کس حصے کی نس پر ہاتھ رکھ کے بیماریاں بتاتے ہیں ۔

اب معاملہ گھمبیر ہوچکا تھا ۔ دل اچاٹ سا گیا تھا ۔زندگی اندھیروں میں ڈھل رہی تھی ۔ درد کی انتہا اتنی تھی کہ ہمدردی سے بھی سراپا درد محسوس ہوتا ۔ پیشے سے میں صحافی ہوں اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ تحریریں لکھ کر اپنے اندر کے غصے کا ایندھن کم کروں ۔ بس پھر اسی شام ہی کوئٹہ کے کسی کیڈٹ کالج پر دہشتگردوں نے حملہ کردیا جس پر میں نے قلم سیائی میں ڈبو کر ٹوٹی کمر اور فوجی سیمنٹ کے عنوان پر تحریر لکھ ڈالی ۔ اس تحریر کا مدعا یہ تھا کہ جب تک فوجی سیمنٹ مارکیٹ میں دستیاب ہے تب تک آپ دہشت گردوں کی کمر کو توڑ نہیں سکتے ۔ بس جب تحریر شائع ہو ئی تو سمجھو قیامت برپا ہوگئی ۔ جو جانتے نہیں تھے وہ لعن طعن کرنے لگے ۔اور جو جان پہچان کے تھے وہ انجان بن گئے ۔ محب وطن دوستوں نے مشورہ دیا کہ فوج پر تنقید نہیں کرنی چاہیے ۔وہ ہمارے محافظ ہیں ۔ جب ہم سوتے ہیں تو وہ ہماری رکشا کے لیے رات بھر جاگتے ہیں ۔ اپنے سینوں پر دشمن کی گولیاں کھا کر ہمیں چین کی نیند فراہم کرتے ہیں ۔

اور تم جانتے ہو بلوچستان میں جو حملہ ہوا ہے وہ دشمن ایجنسیز نے کروایا ہے ۔ہندوستان کبھی نہیں چاہتا کہ چائینہ پاکستان اقتصادی کاریڈور کامیاب ہو ۔ اس لیے وہ اپنے ایجنٹوں کے زریعے پاکستان میں ایسی بزدلانہ کاروائی کروارہا ہے تاکہ ہمیں نقصان پہنچا سکے ۔ربِ کعبہ کی قسم اس جلالا نہ تقریر کے بعد میں نے کافی شرمندگی محسوس کی اور دل دل ہی میں سوچتا رہا کہ اتنا بڑا دشمن اپنے ملک کی ساری سرگرمیا ں چھوڑ کر ہمارے پیچھے پڑا ہے اور ایک میں ہوں جو اپنی فوج پے تنقید کئے جارہا ہوں ۔ لعنت ہو مجھ پر!

میں بھی کتنا اناپ شناپ بک رہا تھا ۔ آخر دنیا میں کس ملک کی فوج ہے جو اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے علاوہ محنت مزدوری بھی کرتی ہو ؟ تانبہ ، سونا چاندی ، لوہا ، زمینیں ، سیمنٹ ، پیٹرول ، ڈیزل ، چاول! الغرض یہ کہ کاروبار کے حوالے سے کچھ بھی اٹھالیں ہماری فوج ہر جگہ چاک وچوبند موجود ہے ۔ اٹھانے سے یاد آیا کہ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے چند بلاگرز کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے اور ہمارے ملک کے کچھ دیسی لبرل فوج کو بدنام کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کی ایجنسیز پے تنقید کر رہے تھے ۔ خدا کی لعنت ہو ان پر ! اگر ہماری ایجنسیز نے ان بلاگرز کو اٹھانا ہوتا تو وہ انھیں وہ واپس بازیاب کیوں کرتی ؟اور اگر واقعی انھیں ہماری فوج نے اٹھایا تھا تو اب تو وہ رہا ہوچکے ہیں ۔ آخر کیوں کوئی بیان نہیں دیتے ؟ چپ کیوں ہیں وہ زبان دراز ، جن کو تھا زبان پے ناز ؟

اچھا ٹھیک ہے آپ کی بات درست ہے کہ اب وہ رہا ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا کہ کس نے اٹھایا اور کیوں اٹھایا ۔ بھائی وقت لگتا ہے ایسے کاموں میں ۔ دراصل جب سلمان حیدر کو اسلام آباد سے اغوا ء کیا گیا تھا تو بد قسمتی سے تمام سی سی ٹی وی کیمراز خراب ہوگئے تھے ۔ فل حال تو صرف یہی پتہ چل سکا ہے کہ ان بلاگرز کو اغواء کرنے کی حکمتِ عملی افغانستان میں کی گئی تھی اور ہندوستان کے ملوث ہونے کے امکانات ہیں ۔جبکہ بہت جلد ماسٹر مائنڈ کا پتہ بھی چل جائیگا ۔

ابھی کچھ تاخیر اس لیے ہورہی ہے کہ فوج کی مصروفیات عالمی معاملات پر ہیں۔ابھی ہمیں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر میں اٹھانا ہے۔اور اپنے ملک میں مرنے والوں کے لیے چند ویڈیوز کا پروجیکٹ تیار کرنا ہے تاکہ لوگوں کا مورال بلند رہے ۔ اس کے لیے آئی ایس پی آر کی محنت قابلِ ستائش ہے ۔ اتنی بہترین اسکرپٹ کے ساتھ مرنے والوں کی ویڈیوز بناکر ایموشنل سنگیت کا ٹچ دیتے ہیں کہ دیکھنے والا بھی رشک کرتا ہے کہ کاش ان کی جگہ میں مرجاتا۔ لیکن یہ سارا کمال صرف بہترین ذہانت کا نہیں بلکہ اس میں اچھی خاصی رقم بھی درکار ہوتی ہے ۔ تو فوج کے بجٹ پر اعتراض کرنے والے اپنی زبان بند رکھیں ۔ عالمی برادری کے لیے جو کچھ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کر رہی ہے وہ پورے عالم انسان پر ایک قر ض ہے ۔

آپ دنیا میں کوئی اسلامی ملک دکھائیں ، جو شام اور کشمیر کے مسئلے کے لیے جلسے جلوس کا اہتمام کرتا ہو ۔ جماعت الدعوۃ اور سپاہِ صحابہ جیسی تنظیموں کو اپنے ملک کے دارلخلافہ میں جگہ دیتی ہو ؟ بھائی ٹھیک ہے کہ یہ دونوں تنظیمیں فرقہ وارانہ فسادات اور انتہاپسندا سوچ کو بڑھاوا دیتی ہیں ۔مان لیا کہ کچھ شیعہ اور احمدیوں کے قتل کی حمایت کرتی ہیں ۔ لیکن شیعہ اور احمدیوں کی کل ملاکر پاکستان میں تعداد کتنی ہے ؟ اگر کچھ سالوں میں کچھ ہزار شیعہ اور احمدی ان تنظیموں کی سرپرستی میں مارے گئے تو کونسی قیامت آگئی ؟ ہمیں ’’گریٹر گول‘‘ کی طرف فوکس کرنا چاہیے اور اس گریٹر گول کو حاصل کرنے کے لیے کچھ قربانیاں تو دینی پڑیں گی۔ اب یہ اعتراض مت کیجئے گا کہ گریٹر گول کے چکر میں ملک کے اندر ہونے والی دہشت گردی کو نظر انداز کیوں کیا جارہا ہے ۔

اس حوالے سے آپ جماعتِ اسلامی سے ہی کچھ سیکھ لیں ۔ پورے ملک میں جتنی بھی قتل و غارت ہو ۔ آپ صرف مذمت سنیں گے لیکن جلسے جلوس کبھی نہیں ہونگے ۔سیمنینارز کا انعقا د نہیں ہوگا۔ظلموں ستم پے لب کشائی نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں صرف عالمی بھائی چارے کے لیے مخصوص ہیں ۔اور عالمی بھائی چارے کے لیے آپ کو اندرونی معاملات سے مبرا ہوکر سوچنا پڑے گا۔

اس وقت ہمارا ازلی دشمن انڈیا ہے ۔ ہاں ٹھیک ہے ہمارے نوجوانوں کی اکثریت انھی کے گیتوں پر رقص کرتی ہے ۔ لیکن آرٹ اور ریاستی معاملات دو جدا جدا چیزیں ہیں ۔ اور انڈیا وہی ریاست ہے جس نے ہم سے مشرقی پاکستان چھینا۔ہماری فوج تو صرف چند بنگالیوں کو ڈرا دھمکا کر امتِ مسلمہ کی یکجہتی کی کوششوں میں مصروف تھی ۔لیکن چند غدار بنگالیوں کو خرید کر انڈیا نے اپنے مذموم مقاصد پورے کر لیے ۔ اب وہ پاکستان کو مزید نقصان پہنچانا چاہتا ہے ۔

غیرت کے نام پراگر کوئی بھائی اپنی بہن کو قتل کرتا ہے ، اسکول سے بچے اٖغواء ہوتے ہیں ، ہسپتالوں میں ناقص آلات کی وجہ سے ایڈز اور ہیپاٹائیٹس کی بیماریاں پھیلتی ہیں ، مسجدوں اور مندروں میں دھماکے ہوتے ہیں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سنگیت سننے پر لوگوں کو مارا جاتا ہو ،سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار پر لوگ غائب ہوجاتے ہوںیا بسوں میں آپکا شناختی کارڈ دیکھ کر آپ کو قتل کیا جاتا ہے ۔ایسے تمام واقعات میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح ہندوستانی ایجنسی را ملوث ہوتی ہے ۔ اور ابھی یہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر جو دھماکہ ہوا ہے ۔ اس پر اطمینان رکھیں ۔یہ ہندوستان نے ہماری پی ایس ایل کو ناکام کرنے کے لیے داعش کے ساتھ مل کر پلاننگ کی ہے ۔ باجوہ صاحب ضرور بدلہ لینگے ۔ اور آپ ریاستی اسٹریجی ملاحظہ فرمائیں !جتنے بھی لوگ مرے ہیں ان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیے جائینگے ۔

کسی بھی ملک میں ایسی اقتصادی پالیسی دکھادیں جہاںآپ کے عزیز کے مرنے پر آپ کو پیسے دیے جاتے ہوں ؟۔ یہ وطیرہ صرف ہمارا ہے ۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ آبادی کو بھی کم کریں اور ساتھ ساتھ روزگار بھی ملتا رہے ۔ خیر یہ بحث چھوڑیں ! میری طبیعت میں ابھی تک تھوڑی بہت گرانی ہے ۔ کیا مجھے واقعی حلالہ کروالینا چاہیے تھا ؟ 

Comments are closed.