دہشت گردی اور عربی زبان 

لیاقت علی

 دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اور استحکام کی جڑیں دہشت گردی کے خاتمے میں پیوست ہیں۔ جب تک دہشت گردی ختم نہیں ہوتی ترقی اور خوشحالی کا ہر ایجنڈا ناکام رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی ختم کیسے ہو ؟

حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گردی کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرکے ختم کیا جاسکتا ہے۔ حکومت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان ہے تو ٹھیک لیکن حکومت اس پلان پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو بنے تقریبا دو سال ہونے کو آئے ہیں لیکن دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ۔

دہشت گردی کے خاتمہ کی ایک نرالی تجویز قومی اسمبلی کی رکن پروین مسعود بھٹی نے پیش کی ہے۔ قومی اسمبلی میں ایک بل عربی زبان کی لازمی تعلیم کے بارے میں پیش ہوا تھا ۔ یہ بل محترمہ نعیمہ کشور خان نے پیش کیا تھا اور اس کا مقصد تعلیمی اداروں میں بچوں کو عربی کی لازمی تعلیم دینا ہے ۔

قواعد و ضوابط کے مطابق اس بل کو قائمہ کمیٹی کے سپر د کیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں محترمہ پروین مسعود بھٹی نے جن کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ (ن) سے ہے ،کہا کہ ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ بچوں کا عربی زبان نہ پڑھنا ہے۔ ان کے نزدیک اگر ہمارے بچے ابتدا ہی سے عربی زبان کی تعلیم حاصل کریں تو ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا ۔

عربی زبان کی تعلیم اور دہشت گردی کا باہمی تعلق کیا ہے یہ تو پروین مسعود بھٹی نے واضح نہیں کیا لیکن اغلب گمان یہ ہے ان کے نزدیک عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے سے ہمارے بچے اسلامی تعلیمات کو اوریجنل زبان میں پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوجائیں گے اور مولوی ان تعلیمات میں جو آمیزش اور ملاوٹ کرتا ہے اس سے بچے محفوظ ہو جائیں گے۔ محترمہ بالواسطہ طور پر یہ سمجھتی ہیں کہ مولوی حضرات اپنے مفادات کی خاطر اسلامی تعلیمات کو مسخ کرکے نوجوانوں کے اذہان کو مسموم کرتے اور انھیں دہشت گردی پر اکساتے ہیں۔

شائد محترمہ بھٹی کو معلوم نہیں کہ 9/11کے واقعہ میں ملوث سبھی افراد کی مادری زبان عربی تھی۔ گذشتہ ایک دہائی میں دنیامیں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث افراد کی اکثریت کا تعلق ان ممالک سے تھا جن کی زبان عربی ہے۔عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں ہونے والی دہشت گردی میں عربی زبان بولنے والے ہی ملوث ہیں۔ خود ہمارے ہاں ہزاروں دینی مدارس میں لاکھوں بچے عربی زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن انتہا پسندی اور عسکریت پسندی میں وہ پیش پیش ہیں۔

آج تک دہشت گردی میں ملوث افراد کی فہرست مرتب کی جائے تو چند ایک کو چھوڑ کر اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی دینی مدرسے سے نکلتا ہے۔ دینی مدارس کے بچوں نے عربی زبان پڑھی ہوتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں۔ہماری سبھی یونیورسٹیوں میں عربی زبان کے ڈیپارٹمنٹ موجود ہیں جہاں ایم۔اے، ایم،فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تقسیم کی جاتی ہیں ۔ ان ڈیپارٹمنٹس سے فارغ التحصیل کتنے طالب علم ایسے ہیں جو مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی مخالفت میں میدان میں نکلے ہوں ۔

زبان خواہ کوئی بھی ہو اصل بات یہ ہے کہ آپ طالب علموں کو پڑھا کیا رہے ہیں ۔ سبین محمود کے قتل میں ملوث افراد اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ ان میں سے ایک تو انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمسٹریشن کا گرایجوایٹ تھا ۔ زبان کوئی سی بھی ہو مسئلہ ان خیالات کا ہے جو پڑھنے والے کو پڑھائے جارہےہیں۔ عربی زبان ہو یا اردو یا پھر پنجابی اصل مسئلہ اس مواد کا ہے جو کسی بھی زبان میں پیش کیا جارہا ہے۔

Comments are closed.