افغانستان تہذیبوں کا پینگوڑا مگر سامراجیوں کا قبرستان ۔ آخری حصہ

عبدا لحئی ارین

افغانوں (پشتونوں) کی تاریخ میں کوشانی جن کو تاریخ دان کوشی یا یوچی لکھتے ہیں۔ یہ لفظ در اصل پشتو زبان کے کوچی سے نکلا ہوا ہے جو بعد میں کوشی یا یوچی بن گیا ہے۔ اس پشتون سلطنت کی بنیاد پشتون کوچی قبائل نے (70-225ام ز) میں رکھی تھی۔ مشہور بادشاہ کنیشکہ جس کی سلطنت کاپیسہ ،پوروشاپورہ (پشاور) سے ہند کے بنارس اور چین کے کاشغرتک پھیلی ہوئی تھی۔ جس نے بدھ مت مذہب کو ہند اور چین تک پہنچا یا تھا۔ ہم سباخبار کے معاون ایڈیٹر صاحب کو ایران کی ان تخریبی کتابوں میں پشتونوں کی یہ عظیم سلطنت اور پشتون شہنشاہ کینشکہ بھی کہیں نظر نہیں آئے ۔

اور تو اور اس خطے میں جتنے بھی بیرونی استعماری آئے تھے، ان میں سکندر ، عرب و دیگر یا تو ایران کی طرف سے آئے تھے اور یا پھر انگریز کی شکل میں ہند کے راستے سے یہاں آئے تو ضرور تھے لیکن اگر خطے میں ان کو کہیں سخت مزاحمت اور نقصانات اٹھانے پڑے تھے تو صرف انہی افغانوں کی سرزمیں پر اُنھیں منہ کی کھانی پڑی تھی۔

اگرچہ وہ یہاں پر قبضہ کرنے کیلئے آئے تھے، لیکن آخر دن تک اُنھیں مزاحمت کا ہی سامنا رہا تھا۔ دوسری اہم بات، چنگیز نے خوارزم شاہ سے اقتدار چھیناتھا نہ کہ پشتونوں سے مگر جناب کو اس خطے میں چنگیز خان کی صرف چھ سالہ اور اُ ن کے بیٹوں کا غیر پشتون علاقوں میں 25 سالہ حکمرانی تو ازبر یاد ہے لیکن چنگیز کے بعد غوریوں، سوریوں، خلجیوں اور لودیوں، سدوزیوں کی افغانستان سے لیکر ہند تک پھیلی ہوئی چار سو سالہ دور اقتدار کہیں نظر نہیں آیا تھا۔

جناب نے ایرانی نادر شاہ افشار کا ذکر تو کیا تھا لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ افشار نے ہوتک اور ابدالیوں سے حکمرانی چھنی تھی، جس کے نتیجے میں اُسے اس خطے میں مسلسل مزاحمت کا سامنا رہا تھا، اور آخر میں میر وائس ہوتک کی سربراہی میں ایرانی گورنر گورگین قتل ہوکئے گئے تھے۔ اور کندھار میں میر وائس نیکہ کی سربراہی میں پشتونوں کی دوبارہ حکومت قائم کی گئی تھی۔ جو بعد میں اُس کے بیٹے نے اپنے باپ کی وصیت کے مطابق ایران کے شہر اصفہان تک پھیلائی تھی۔

جناب نے تو اس کا ذکر اپنے کالم میں کہیں نہیں کیا۔ موصوف کی پشتون قوم پرستوں سے نفرت کی حد یہ تھی کہ انھوں نے احمد شاہ ابدالی کو اپنی تحریر میں ایک مدبر سیاستدان اور بہترین جنرل کی بجائے نادر شاہ کا ایک سردار ظاہر کیا تھا، لیکن وہ یہ بات اپنی تحریر میں کیوں کر لکھنا بھول گئے تھے کہ اسی احمد شاہ نے موجودہ افغانستان کی نا صرف بنیاد رکھی تھی بلکہ اس میں تاجک ، ازبک، ہزارہ و دیگر قومیتوں کو بھی افغان کا نام دیکر اُنھیں ہمیشہ کیلئے باہر سے انے والے حملہ آوروں سے محفوظ کر کے انھیں افغانستان جیسی تاریخی ازاد مملکت دلوائی تھی۔ اور ہند کے بنگال تک اپنی سلطنت پھیلائی تھی۔

یہی احمد شاہ ابدالی تھے جنھوں نے پانی پت کی مشہور جنگ اپنے نام کی تھی اور اُس مرہٹہ کو شکست دی تھی جن کے سامنے انگریز اور مغل حکمران پانی پت کی پہلی و دوسری جنگوں میں بے بس ہوگئے تھے۔ اسی احمد شاہ نے رنجیت سنگھ کو پنجاب کا حکمران بنایا تھا۔ جو احمد شاہ کے بیٹے شاہ زمان کے اسلحے، گھوڑے و دیگر سامان لاہور سے کندھار منتقل کیا کرتا تھا۔ لیکن بعد میں غداری کرتے ہوئے انھوں نے انگریزوں کی مخفی مدد سے اٹک و پشتونخوا کے کچھ علاقے افغانستان سے چھین لئے۔

لوگ کیوں بھول رہے ہیں۔ کہ اسی احمد شاہ ابدالی کو ہند کے لوگ اپنا نجات دہندہ کہتے تھے اور روس کا زار اسی احمد شاہ کے پاس اپنا سفیر بھیج کر اُسے چین پر حملے کیلئے درخواست کیا کرتے تھے۔ اسی احمد شاہ کے بیٹے شاہ زمان کیساتھ انقلاب فرانس کے بعد یورپ کے نپولین اور ہندوستان کے ٹیپو سلطان خطے میں انگریزوں کو شکست دینے کیلئے خط و کتابت کیا کرتے تھے۔

رہی بات ڈیورنڈ اور ڈیورنڈ لائن، تو جناب نے ذرا اُس تاریخ میں بھی ڈوبکی کیوں نہیں ماری تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ ڈیورنڈ اور بعد میں بننے والا باونڈری کمیشن ڈیورانڈ کا لائن کیوں ڈرا نہیں کر سکے۔؟ڈیورنڈ کو موجودہ فاٹا سے کن لوگوں نے مار بھگایا تھا؟ ٹانک میں ڈیورنڈ پر حملہ کر کے کن لوگوں نے اُسے شدید زخمی کیا تھا۔جو بعد میں اُس کی موت کا سبب بنا تھا۔

اب اگر اپ جناب سے کوئی یہ پوچھے تو اُنھیں ضرور بتانا کہ مختلف ادوار میں پشتونوں کی سنٹرل ایشیا، ایران ، بنگال ،ہندوستان اور چین کے کچھ علاقوں تک پُر امن اور تہذہب سے آراستہ سلطنتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جناب ! پشتونوں کی سرزمین کی سٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے اگر کوئی بیرونی حملہ آور یہاں آ بھی جاتا تو، اُسے منہ کی کھانی پڑی تھی۔ یہ وہ قوم ہے جو ماضی میں اس خطے میں حکومتیں بناتی اور گراتی رہی ہے۔

مگر افسوس صد افسوس، ہماری غلامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ لوگ اپنی جھوٹی تاریخ کو ایرانی تہذیب و مطالعہ پاکستان کے ذریعے زندہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ ہم اپنے شاندار و جاندار سچی تاریخ کو جھوٹا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

مگر یہ تاریخ ہے، اور سورج کی طرح تاریخ کو بھی اُنگلی سے نہیں چھپایا جاسکتا۔ تاریخ کو پڑھے بغیر اس میںڈبکیمارنے سے تاریخ تو ہرگز نہیں ڈوب سکتی البتہ ایسے ڈبکی خوروں کے ڈوبنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

One Comment