پاکستان کی افغان پالیسی کا مخمصہ

ایمل خٹک 

دہشت گردی کے خلاف پے درپے آپریشنوں کے باوجود پاکستان کی انسداد دہشت گرد پالیسیوں کو بین الاقوامی سطع پر قبولیت اور پذیرائی نہیں مل رہی ہے۔ الٹا اس سلسلے میں پاکستان پر بیرونی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس صورتحال پر سوچنے اور سنجیدہ غوروحوض کی ضرورت ہے ۔ ان سطور میں بار بار اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی یا علاقائی اور عالمی قوتوں کی ناراضگی کا باعث بنے والی ریاستی پالیسیوں کی نشاندہی کی جائے ۔ اس کے معاشرے پر پڑنے والے سیاسی، معاشی اور سماجی مضر اثرات پر بحث کی جائے اور پالیسیوں کا کعبہ درست کرنے کیلئے پالیسی سفارشات پیش کی جائیں ۔ 

غیر ملکی ماہرین کے ساتھ ساتھ ملکی آزاد تجزیہ نگار اور مبصرین بھی ناقص اور ناعاقبت اندیش سیکورٹی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔اس کے مضر اثرات سامنے لا رہے ہیں اور پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے ہیں مگر خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کی دنیا میں رہنے والے پالیسی ساز ٹھس سے مس نہیں ہو رئے ہیں بلکہ اپنی غلط پالیسیوں کو جاھیز اور صیع ثابت کرنے کیلئے بے تُکے اور بھونڈے قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں۔

 مسائل کے حل کیلئے اس کی سنگینی اور شدت کا احساس مسئلے کے حل کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے مگر مسئلے کی دیرپا حل کیلئے مسئلے کی بنیادی اسباب کو دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔  ہمارے پالیسی سازوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ نہ تو دہشت گردوں سے مکمل قطع تعلق کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ دہشت گردی کے بنیادی اسباب کو چھیڑتے ہیں۔ مرض کی وجوہات کا علاج کرنے کی بجائے علامات کا علاج کرتے۔ پاکستانی ریاست عسکریت پسندوں میں اچھے اور برے کی تمیز کی پالیسی کے ذریعے ان سے اپنے تعلق کو برقرار رکھنے کیلئے جواز فراہم کرتےہیں۔  

پاکستان کی دہشت گردی کے حوالے سے بیرون ملک حالیہ تین اہم ڈویلپمنٹس کا ذکر ضروری ہے۔ ایک تو امریکی ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس میں امریکی حکومت پر زور دیاگیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی میں معاونت والا ملک قرار دیا جائے۔ یہ بل جو ایوان نمائندگان میں دہشت گردی سے متعلق ذیلی کمیٹی کے صدر ٹیڈ پو نے پیش کی ہے اور ٹیڈ پو پاکستان کی سیکورٹی پالیسیوں کے سخت مخالف ہیں۔

 ٹیڈ پو نے لکھا ہے کہ پاکستان نہ صرف ایک دوست ملک ہے مگر جس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس نے برسوں سے امریکہ کے دشمنوں کا ساتھ دیا ہے اس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے دشمنوں اسامہ بن لادن یا حقانی نیٹ ورک کے ساتھ اس کے گٹھ جوڑ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ نہیں۔ 

دوسرا اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغان مندوب نے مسئلہ افغانستان پر بحث کے دوران پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگایا اور مزید کہا کہ افغانستان میں شورش اندرونی عوامل کی وجہ سے نہیں بلکہ با ہر سے اس پر تھوپا گیا ہے ۔ افغانستان میں جاری شورش منشیات کی اسمگلنگ ، انتہاپسندی اور ریاستی دہشت گردی کی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے ۔ افغانستان کو پڑوسی ملک کی جانب سے ایک غیر اعلانیہ جنگ کا سامنا ہے اور پڑوسی ملک 20 سے زائد دہشت گرد گروپوں کے ذریعے یہ جنگ لڑ رہا ہے ۔ انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کو پالیسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے  سے گریز کریں اور خلوص نیت سے دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بنے۔تیسرا بھارتی پارلیمان میں پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی قرارداد بھی پیش کی گئی ہے ۔

پاکستانی پالیسی سازوں کی سفارتی بھاگ دوڑ کو سمجھنے کیلئے ان کی کئی خوش فہمیوں یا غلط فہمیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ پہلی خوش فہمی کہ پاکستان امریکہ کی ضرورت ہے اور پالیسی ساز ابھی تک اس مغالطے کے شکار ہیں ۔ اس لیے نت نئے فارمولے سوچے جارہے ہیں اور امریکہ کو نیا چورن بیچنے کی تیاریاں ہیں۔ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے قسماقسم پاپڑ بیلے جا رہے۔ امریکہ پر دباؤ ڈالنے کیلئے ایک طرف روس چین اور ایران کی قربت حاصل کی جارہی ہے تو دوسری طرف امریکہ کو ڈرانے کیلئے افغانستان میں داعش اور طالبان کی طاقت پکڑنے کے خطرے سے ڈرانے کے ساتھ ساتھ افغان تنازعے میں شام کی طرح روسی مداخلت کی ہوا کھڑی کی جا رہی ہے۔

چین اور روس بھی اپنے اپنے مسائل اور مفادات کی وجہ سے اچھے اور برے طالبان یا ان کی اصطلاح کے مطابق انتہا پسند اور میانہ رو طالبان کی پالیسی اپنا چکے ہیں ۔ انتہاپسندوں کو کمزور کرنے اور مارنے کیلئے میانہ رو طالبان کی امداد ضروری ہے۔ اس طرح ایک تو چین اور روس طالبان کو نیوٹرائیلز کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چین کے مخالفین اور وسطی اشیا اور روس کی مسلم آبادی والے علاقوں میں برسرپیکار شدت پسندوں کا ساتھ نہ دیں ۔ اور طالبان علاقے میں ان کے جاری یا شروع ہونے والے معاشی اور تجارتی منصوبوں میں حائل نہ ہو ۔ 

روس اپنی اندرونی مشکلات اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے علاوہ امریکہ کے ساتھ اپنا حساب بیباق کرنا چاہتا ہے جبکہ چین بھی نئی امریکی انتظامیہ کو ممکنہ چین مخالف اقدامات سے باز رکھنے کیلئے افغانستان میں امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتی ہے۔  اگرچہ طالبان کے ساتھ ایران کے تعلقات بھی اچھے ہیں مگر اب چین اور روس کی کوشش یہ ہے کہ ایران کو بھی ہمنوا بنا جائے اور ایران بھی نئی امریکی انتظامیہ کی ایران مخالف بیانات سے پریشان ہے اور علاقے میں فعال کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ 

علاقے میں امریکہ کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور نئی صف بندی کے پیش نظر پاکستان کی اہمیت کم ہوئی ہے اور امریکہ کی پالیسی ساز اداروں میں پاکستان کے حوالے سے پہلے سے موجود شکوک وشبہات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ یہ شکوک و شبہات اور عسکریت پسندی کے خلاف کاروائی میں ڈو مور کی رٹ کوئی نہیں بات نہیں مگر پہلے بعض مصلحتوں کی وجہ سے یا تو یہ باتیں دبے دبے الفاظ میں بیان ہوتی رہی اور یا اس کی کھلے عام اظہار سے اجتناب کیا جاتا رہا۔   

پاکستانی پالیسی سازوں کی ایک خوش فہمی یا غلط فہمی یہ بھی ہے کہ امریکہ شاید افغانستان سے نکلنے کی موڈ میں ہے اورنئی امریکہ انتظامیہ افغان بحران سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے ۔ اسلئے علاقائی سطح پر چین اور روس وغیرہ سے صف بندی کرکے امریکہ پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہیں اور اسے اپنی اہمیت کا احساس دلانا چاہتی ہے۔ ماضی کی طرح امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور افغان مسئلے میں سہولت کاری کے ذریعے معاشی اور فوجی فوائد حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔

ایک اور خوش فہمی یہ ہے کہ عسکریت پسندی کی بطور پالیسی استعمال ابھی تک فائدہ مند ہے۔ اور علاقے میں قومی مفادات کی فروغ کیلئے یہ ایک کارگر پالیسی ہے۔ اسلئے افغان طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی حمایت جاری رکھی جائے۔ دنیا کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغان بحران کا دیرپا حل یہ ہے کہ طالبان سے بات کی جائے۔ اور انہیں افغان حکومت کا حصہ بنایا جائے ۔ علاقائی قوتوں کی حساسیت دور کرنے کیلئے افغان طالبان اور علاقائی قوتوں کو قریب لانے کیلئے سہولت کاری کی جارہی ہے۔ افغان طالبان بھی اپنے سرپرستوں کی ہدایات کی روشنی میں ان ممالک کے مفادات اور حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کارڈ کھیل رہی ہے ۔ 

ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ افغان عوام پر چونکہ پاکستان کے احسانات ہے اسلئے وہ دوست اور دشمن کے انتخاب میں آزاد نہیں ۔ اس طرح احسان کا بدلہ چکانے کیلئے افغانستان کی اقتدار اعلی ان کے پاس گروی رکھے بلکہ احسانات کے بدلے پاکستانی پالیسی سازوں کی ڈکٹیشن سنے اور اس پر عمل کرے۔ اور جب افغان حکومت کوئی آزادانہ فیصلہ کرتی ہے تو پھر اس کو سبق چکانے کی بات ہوتی ہے اور ھر طرح کا انتقامی اقدام اور پالیسی حق بجانب اور اس کو اخلاقی جواز فراھم کرنے کیلئے قسماقسم پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ 

مفادات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جینوئین اور دوسرے خیالی ۔ جینوئین مفادات اکثر حقیقی اور خیالی غیر حقیقی ہوتے ہیں ۔  اب وقت آگیا ہے کہ جینوئین مفادات پر بات ہو نہ کہ خیالی۔  افغانستان ایک اچھا دوست ہونا چاہیے یہ ایک حقیقی مفاد ہے مگر افغانستان کو ایک کٹھ پتلی کی طرح یا ایک پاکستانی صوبے کی طرح بنانا یہ اس جیسا سلوک کرنا ایک غیر حقیقی مفاد ہے۔ جو دنیا کی کسی بھی قانون اور اصول کے مطابق روا نہیں ۔ 

پاکستانی پالیسی ساز اس حقیقت کا کہ جتنا افغان مسئلہ الجھے گا لٹکے گا اتنا ہی اس کا پاکستان کی داخلی صورتحال اور بیرونی تعلقات پر منفی اثر پڑے گا کا یا تو ادراک کرنے سے قاصر ہے اور یا اپنے تنگ نظر مفادات کے حصول میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کے قابل نہیں ۔ الٹا پالیسی یہ ہے کہ افغان مسئلہ اس وقت تک الجھائے رکھا جائے کہ جب تک سٹریٹیجک ڈیپتھ کے مقاصد حاصل نہ ہوجائے۔  اس مقصد کیلئے افغان حکومت پر بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریقوں سے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ جس سے معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید الجھ رہا ہے۔ 

Comments are closed.