تمام خرافات کی جڑفیس بک ہی ہے

علی احمد جان

پانی سے گاڑی چلانے جیسے چمتکار کے بعد اب اہل دانش و خرد کا اس بات پر متفق علیہ اجماع ہے کہ زمین پرتمام خرافات اور فساد کی ماں یعنی ام الفساد دراصل فیس بک ہی ہے۔ یہ فیس بک ہی ہے جو بنی آدم کے دلوں میں وسوسے ڈال دیتا ہے اور وہ فساد و فجور پر اتر آتا ہے۔ اس شیطانی فیس بک سے پہلے زمین پر امن و آشتی کا بیکران سمندر تھا جس میں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ اب مملکت خدا داد کے اہل دانش چکری کے یکتا نابغہ روزگار، عقل کل اور فرزند خاندان سپہ سالاران چوہدری نثار کی بے باک قیادت میں ام الفساد کی سرکوبی کے لئے کمر بستہ ہیں تاکہ رد الفساد کے جہاد میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

ہماری سمندر سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی دوستی کے حامل پڑوسی ملک چین سے صدا آئی ہے کہ امن و آشتی اور ترقی کی بنیاد ماؤ اور چو این لائی کا انقلاب سے نہیں پڑی بلکہ اس کی وجہ وہاں فیس بک جیسی خرافات کی وبا کا نہ ہونا ہے اس لئے اتفاق ہوا کہ چین کا ہم پلہ ہونے کے لئے پاکستان کو بھی اس برائی سے جان چھڑانا ہوگی۔ چینیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر فیس اور دیگر سماجی رابطے کی برائیوں کو نہ روکتے تو وہ کب کے سوویت یونین کی مانند ماضی بن چکے ہوتے اور دنیا میں ان کا بھی کوئی نام لیوا نہ ہوتا۔

ویسے تو ابلاغ کے اس شیطانی کتاب فیس بک کی کئی ایک برائیاں ہیں لیکن سر دست میں صرف اتنی ہی یاد کر سکا ہوں ۔

۱۔ فیس بک نے لوگوں کو قریب لانے کی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے بیس تیس پہلے بچھڑے دوست اور دشمن پھر سے مل گئے ہیں۔ ہم نے اپنے ماضی کے یاروں دوستوں کے بارے میں جوسچی جھوٹی باتیں کہہ رکھی تھیں ان کے سامنے آنے سے اپنی اولاد کے سامنے ہماری بطور بزرگ تکریم میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ دوسری طرف سکول اور کالج کے زمانے کے یار جب پھر ملے تو اپنی اپنی کہانیوں کے ساتھ اپنے تجربات ،فکر ،سوچ اور نظریات سے بھی آگاہ کیا جس کی وجہ سے ہمارے دہایئوں سے پختہ ہوئے نظریات اور اعتقادات متزلزل ہوگئے اور ہم نے محسوس کیا کہ جس کو ہم کائنات سمجھ رہے تھے وہ دراصل ایک کنواں تھا۔ ہماری علم و فراست، عقل و شعور کو زمین بوس کرتے ہمارے نئے رابطے خطرناک ثابت ہورہے ہیں جس سے ہمارے ایمان اور اعتقادات کو سخت نقصان پہنچا ہے ۔ اہل دانش اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں کو ان کے ایمان میں کامل رکھنے کے لئے فیس بک نام کی اس برائی کا قلع قمع کیا جائے۔

۲۔ اس کم بخت فیس بک کی وجہ سے ہمیں ایرے غیرے نتھو خیرے طرح طرح کے پیغامات ، تصاویر اور فلمیں وغیرہ بھیجتے ہیں جو ہماری زندگی بھر کی سنبھال کر رکھی ایمان کے لئے خطرہ ہیں۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ ابلیس روز اول سے ہی اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے درپے ہے اور وہ روپ بدل بدل کر ایسے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے کہ ہم ان کی چال میں آجائیں ۔ جو علما ءستر کی دھائی میں قومی شناختی کارڈ میں تصویر لگانے کے سرکاری کفریہ حکم کے خلاف میدان عمل میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے تھے وہ بھی آج اس کم بخت فیس بک کی تشہیر کی لذت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور وہ نہ صرف اپنی تصاویر لگاررہے ہیں بلکہ بے پردہ خواتین کو بھی اپنے احباب میں شامل کئے جارہے ہیں اس لئے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ فیس بک دراصل ایک شیطانی ایجاد ہے جو ہمارے ایمان کو خراب کرنے کا باعث ہے۔

۳۔ فیس بک نے بے حیائی کو فروغ دیا ہے کیونکہ یہاں مرد وزن بلا تخصیص جنس ایک دوسرے سے محو گفتگو ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے پے پردہ چہروں کو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ اہل ایمان نے اپنے جنس اور چہرے بدل کر اس شیطانی چال کو الٹنے کی تدبیریں بھی خوب کر رکھی ہیں لیکن پھر بھی کبھی کبھار اپنے اصلی چہرہ دکھانے پر شیطان مجبور کردیتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی فروغ پا رہی ہے۔ ایل ایمان کا کہنا ہے کہ جب تک یہ شیطانی کتاب کھلی رہیگی مومنین کے ایمان کو خطرہ موجود رہیگا اس لئے اس کا بند ہونا ضروری ہے۔

۴۔ فیس بک نے مقدس جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو پامال کر رکھا ہے۔ آج مغرب جتنا ہمارے قریب آیا ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا جس کی وجہ سے مغرب کی لادینیت اور سائنس کے نام پر دھریت بھی ہمارے ذہنوں میں پیوست کی جارہی ہے۔ گو کہ ہم نے اپنے تعلیمی نصاب میں اپنے بچوں کو سائنس کے ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کر رکھی ہے جس میں سائنس کو صرف بطور مضمون امتحان پاس کرنے اور حصول روزگار کے لئے پڑھنا اور اس پر صریحاً عمل نہ کرنا شامل ہیں لیکن فیس بک پر اٹھنے والے الٹے سیدھے سوالات نے ہماری تمام کاوشوں پر پانی پھیر دیا ہے اور سائنس پر ہماری نئی نسل کا یقین پختہ ہو تا جارہا ہے جو ہماری آئندہ نسل کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ تمام علمائے حق اس پات پر متفق ہیں کہ اپنی مقدس نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لئے فیس بک کو بند کردینا چاہیے ۔

۵۔ فیس بک سیاست کو فروغ دے رہا ہے حالانکہ ہم نے ملک عزیز میں امیر المومنین فاتح افغانستان کے سنہری دور سے ہی سیاسی گفتگو کو منع کررکھا تھا تاکہ الٹی سیدھی بحثوں میں پڑے بغیر مومنین اپنے دلوں میں خوف خدا اور خوف ضیا ء کے ساتھ شرافت سے رہ سکیں ۔ لیکن جب سے فیس بک کی وبا ءعام ہوئی ہوئی ہے لوگوں نے سیاست پر بحث کرنا شروع کی ہے۔ اس بحث سے ایک طرف حکومت وقت کے شیر شاہی اقدامات پس پشت چلے گئے ہیں تو دوسری طرف معصوم لوگ پاناما جیسی مغربی سازش کا شکار ہوگئے ہیں ۔ حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک کے نوجوان بالخصوص طلبہ اپنی تعلیم پر توجہ دئیے رکھیں۔ اس لئے وزیر اعظم نے ہونہا نوجوانوں میں لیپ ٹاپ بھی تقسیم کئے مگر اب پتہ یہ چلا ہے کہ نوجوان لیپ ٹاپ ملنے کے بعد سیاست میں اور زیادہ متحرک ہوگئے ہیں جس کی بنیادی وجہ فیس بک ہی ٹھہری ہے۔ اس لئے حکومت نے لیپ ٹاپ کی تقسیم کو جاری رکھنے اور فیس بک کی برائی کو روکنے کا باتدبیر فیصلہ کیا ہے۔

۶۔ فیس بک ملک میں بے روزگاری کا باعث ہے ۔ فیس بک کا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن اور اشتہارات کے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ فیس بک پر ہر وقت رابطے میں رہنے کی وجہ سے اب ٹیلی فون کا استعمال بتدریج کم ہو رہا ہے۔ بغیر کسی معاوضے اشتہارات لگا لگا کر اشتہارات کی صنعت کو بھی فیس بک نے مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ قوم کو معلوم ہی ہے کہ ٹیلی کمیو نیکیشن اور اشتہارات سے ہمارے ہزاروں لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ صرف یہی نہیں اب تو فیس بک پر ٹیکسی گاڑیوں اور ڈاکٹروں کی خدمات بھی دستیاب ہیں جس کی وجہ سے ہمارے وزیر اعظم کی اپنے وفاداروں کو دی ہوئی ٹیکسیاں بے کار ہونے اور لوگوں کے باروزگار ہونے کا خطرہ ہے ۔ ماہرین معیشت اس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لئے کہ فیس بک پر پابندی لگائی جائے۔

یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ لکھنا لکھانا خصوصاً کتاب جیسی خرافات لکھنا امت مسلمہ کی روایت نہیں رہی ۔ ابن رشد، ابن عربی اور بو علی سینا جیسے لوگوں کو بھی تعویز کے بجائے کتابیں لکھنے جیسے جرائم کی پاداش میں مسجدوں کے ستونوں سے باندھ کر نمازیوں نے ان پر تھوک تھوک کر ان کو اوقات یاد دلادی تھی یا ان کو کافر قرار دے کراس دور کے جید علما ء نےاپنے دل کی بھڑاس نکال دی تھی۔ آج بھی فیس بک پر لوگ ایسی کفریہ غلطیوں کا ارتکاب کر ہے ہیں جس کی سرکوبی لازمی ہے۔ ورنہ یہاں ہر آدمی ایک کتاب لکھنے کی نہیں تو کم از کم ایک صفحہ لکھنے کی ناپاک جسارت ضرور کرے گا جس کی اجازت کم از کم مملکت خداداد میں نہیں دی جاسکتی۔

Comments are closed.