توہین مذہب کے جھوٹے الزام اور پاکستانی ذرائع ابلاغ کاافسوس ناک کردار

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ناقدین کو خاموش کرنے کا طاقتور آلہ توہین مذہب کا قانون ہے۔ اس قانون کے تحت گرفتار ہونے والے کو موت سزا کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

مذہبی مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندرویوں میں اضافہ ہوچکا ہے۔پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا رول بھی بہت افسوس ناک ہے ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام بھی کررہے ہیں۔یاد رہے کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل میں میڈیا نے اہم رول ادا کیا تھا۔

پاکستان میں توہین مذہب کا قانون مخالفین کے خلاف استعمال کیے جانے کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انتہاپسندانہ عقیدے کے حامل افراد توہین مذہب کے قانون کو استعمال کرنے میں بے باک ہیں کیونکہ وہ اس کے ذریعے اعتدال پسند اور لبرل حلقوں میں سرگرم افراد کو ’نکیل‘ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں۔

جب کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے تو پھرکسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ عدالت میں اس بات کو ثابت کرسکے کہ یہ الزام جھوٹا ہے۔ آسیہ بی بی اور جنید حفیظ اپنے مخالفین کی طرف سے لگائے گئے توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں کئی سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان کے حق میں آواز اٹھا سکے۔

 پاکستانی حکومتی حلقے ایک طرف تو  زور و شور سے  تشدد، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف آواز بلند کر کے مذہبی دہشت گردوں کی سرکوبی کے دعوے کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انتہا پسندوں کو تحفظ بھی دیتے ہیں۔جب ریاست انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو اپنا سٹریٹجک اثاثہ قرار دے گی تو اس کالازمی نتیجہ انتہاپسندوں کی من مانی ہوگا۔

توہین مذہب کے قانون کی پاسداری میں انتہا پسند حلقے اتنے حساس ہو چکے ہیں کہ اس میں معمولی سے تبدیلی پر وہ آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لبرل حلقوں کے جن افراد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں ملک سے فرار ہونے میں عافیت ملتی ہے جیسے کہ احمد وقاص گورایا اور اُن جیسے دوسرے اعتدال پسند افراد نے کیا ہے۔

حال ہی میں پاکستانی حکومت نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹویٹر پر دستیاب بعض مواد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان اداروں سے رابطہ کر لیا گیا ہے کہ وہ ایسے افراد کی نشاندہی میں تعاون کریں جو پاکستان کے اندر سے مذہبی اشتعال انگیز مواد اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ اسلام آباد حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں میں مقیم ایسے پاکستانیوں کی بے دخلی کی سفارتی کوششیں بھی شروع کر سکتی ہے۔

احمد وقاص گورایا نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کیا کہ اب پاکستان میں اُن کے خلاف ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ گئے تو مذہبی انتہا پسند اُن کی جان لے سکتے ہیں۔

یہ امر اہم ہے کہ بلاگرز کے مقدمے میں وکیل استغاثہ طارق اسد نے کھل کر عدالت سے اِن کے لیے موت کی سزا کی استدعا کی تھی۔ اسد کالعدم سنی انتہا پسند گروپوں کے حامی رہے ہیں اور شیعہ مسلک کو غیرمسلم قرار دینے والوں کے ساتھی بھی خیال کیے جاتے ہیں۔

احمد وقاص گورایا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ توہین مذہب کے قانون نے میڈیا ہاؤسز کو زیرِنگیں کر رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر سرگرم افراد یقینی طور پر خوف زدہ ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اعتدال پسند بلاگرز کے خلاف ایک اپیل سلمان شاہد نامی وکیل نے دائر کر رکھی ہے اور اس وکیل کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع انتہا پسندوں کے گڑھ  لال مسجد کے امام مولانا عبدالعزیز کے داماد ہیں۔

ممتاز تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق اس قانون کا سہارا لے کر  مذہبی انتہا پسند اپنی نظریاتی جنگ کے فروغ میں مصروف ہیں۔

DW/News desk


نیا زمانہ ،کچھ دوستوں کی رضاکارانہ پیش کش ہےجو نفع نہ نقصان کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں ۔گر آپ کو اس کی تحریریں پسند آتی تویہ آپ کی توجہ کا مستحق ہے۔ یہ توجہ ڈونیشن بٹن پر کلک کر کے دی جاسکتی ہے۔

One Comment