گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ پاکستانی ریاست کی زیادتیاں

بیرسٹر حمید باشانی

ارباب اختیار اج کل گلگت بلتستان کے بارے میں فکر مند ہیں۔وہ اس علاقے کے مستقبل پر غور کر رہے ہیں۔وہ اس کی آئینی حیثیت کے از سر نو تعین کے بارے میں صلاح و مشورہ کر رہے ہیں۔اس مشق کی ایک وجہ تو چین ہے۔چینی حکام چاہتے ہیں کہ وہ پاک چائنا معاشی راہدری پر لگائے جانے والے کھربوں روپے کے تحفظ کے لیے گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت واضح کی جائے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ راہداری کے منصوبے پر بھارت نے شدید اعتراض کیا ہے۔اس نے گلگت بلتستان کو ایک متنازعہ علاقہ اور بھارت کا حصہ قرار دیا ہے ہے۔

تیسری وجہ خود پاکستان ہے۔راہداری کا یہ عظیم منصوبہ جسے پاکستان میں خدا کا ایک عظیم تحفہ یا گیم چینجر کا نام دیا جاتا ہے، اس میں گوادر کے بعد سب سے اہم ترین کڑی گلگت بلتستان ہی ہے۔یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جو راتوں رات مٹی سے سونا بن گیا۔اس کے ساتھ دولت سمیٹنے کے کئی امکانات جڑ گئے۔چنانچہ پاکستان کے کچھ دور اندیش اور دوربین لوگ اس خطے کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند ہو گئے۔چنانچہ انہوں نے اس سبک رفتاری سے اس خطے کی آئینی حیثیت کا تعین کرنے کی ٹھان لی جو اس خطے کو ستر سال تک نظر انداز کرنے کا ازالہ بن سکے۔

ستر سال تک جس علاقے کو سب سے زیادہ نظر اندازکیا گیا وہ گلگت بلتستان ہی تھا۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ گزشتہ ایک سو ستر سال کی تاریخ گلگت بلتستان کے عوام کے لیے ظلم، جبر،نا انصافی کی تاریخ تھی۔1846 میں سخت خون خرابے کے بعد ان علاقوں کو فتح کر کہ ریاست جموں و کشمیر میں شامل کیا گیا۔ پھر1947 کی اتھل پتھل کے دوران ان علاقوں کو ازاد کشمیر کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔1949 میں معاہدہ کراچی کے تحت آزاد کشمیر حکومت نے ان علاقوں کا انتظام اور انصرام حکومت پاکستان کے حوالے کر دیا ۔

تب سے لیکر تقریبا پچاس سال کا طویل عرصہ ان لوگوں پر ایسے گزرا جیسے ان لوگوں کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔نادرن ایریاز کے نام سے ان لوگوں کے ساتھ علاقہ غیر جیسا سلوک روا رکھا گیا۔پچاس سال تک یہ لوگ بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق سے محروم رہے۔نہ یہاں کوئی الیکشن ہوئے، نہ ہی کوئی مناسب جوڈیشل سسٹم قائم کیا گیا۔ نصف صدی کا یہ عرصہ ان لوگوں نے پولیٹیکل ایجنٹ، مقامی سرداروں یا مذہبی فرقوں کے سربراہوں کے سائے تلے گزارا۔

جب کبھی مقامی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کی بات ہوئی۔ یا تعمیر ترقی کا کوئی مظالبہ سامنے آیا ، یا مقامی لوگوں نے ملازمتوں میں اپنا جائز حصہ مانگا تو اسے اس بہانے نظر اندز کیا گیا کہ یہ متنازعہ علاقے ہیں اور مسئلہ کشمیر حل ہونے تک کچھ نہیں ہو سکتا۔یعنی نہ نو من گھی اور نہ رادھا ناچے۔ارباب اختیار کا تاریخی طور پر یہ متفقہ موقف رہا ہے کہ ان علاقوں کے بنیادی حقوق دینے یا یہاں تعمیر وترقی کے لیے ان علاقوں کا پاکستان کا صوبہ بنانا ضروری ہے۔لیکن صوبہ اس لیے نہیں بنا سکتے کہ یہ متنازعہ علاقے ہیں۔ اور صوبہ بنانے سے ناصرف اقوام متحدہ کی قرادادوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھارت کو بھی ایسا کرنے کا جواز مل جاتا ہے اور مسئلہ کشمیر ختم ہو جاتا ہے۔

گویا مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کے لیے گلگت بلتستان کے لوگوں کو پچاس سال تک نا حق سولی پر لٹکاکر رکھا گیا۔جب مسئلہ کشمیر کھڑا ہوا تو ریاست جموں کشمیر کے تین حصے تھے۔ بھارتی جموں و کشمیر میں اس عرصے میں اس علاقے کی آئینی اور قانونی حیثیت میں کئی گہری ، بنیادی اور اہم تبدیلیاں کی گئیں۔یہاں کے لوگوں کی منتخب شدہ پاپولر حکومت ختم کی گئی۔صدر اور وزیر اعظم کا عہدہ ختم ہوا۔ دھونس اور دھندلی کی پیداوار ایک جعلی اسمبلی کے ذریعے ریاست کا آئینی ڈھانچہ بدلا گیا، اس کی خصوصی حیثیت تک ختم کی گئی۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود نہ تومسئلہ کشمیر ختم ہوا اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراد ادوں کی خلاف ورزی کا شور پڑا۔

اس سے ملتی جلتی کاروائیاں آزاد کشمیر میں بھی ہوئیں۔یہاں سے ریاست کا ابتدائی ڈھانچہ بدلا گیا۔ اسکی آزاد فوج ختم کی گئی۔آئین میں پے درپے تبدیلیوں کے بعد ریاست کی بنیادی شکل اور اختیارت یکسر بدل کر رکھ دئے گئے۔ اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مسئلہ کشمیر کو کچھ نہیں ہوا۔لیکن گلگت بلتستان کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا رہا کہ آپ کو ووٹ کا حق نہیں مل سکتا۔ پانی اور بجلی نہیں مل سکتی۔سڑک نہیں مل سکتی کیونکہ اپ ہمارا آئینی حصہ نہیں ہیں۔اور اپ کی آئینی حثیت کا تعین اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہو گی۔

حالانکہ یہ خلاف ورزی1949 کے معاہدہ کراچی کے تحت پہلے ہی ہو چکی تھی۔اب ایک سڑک کی وجہ سے سب کو گلگت بلتستان کے نام پر دورے پڑنے لگے۔ بھارت کے لیے وہ ایک بار پھر اٹوٹ انگ بن گیا۔کشمیری لیڈروں کے لیے یہ ریاست جموں کشمیر کا جزو لا ینفک ہے اور مسئلہ کشمیر کو اسی شکل میں آگے گھسیٹنے کے لیے نا گزیر ہے۔پاکستان کے لیے یہ ایک ونڈ فال اور زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا۔

اب گلگت کے بارے میں ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔دھمکیاں ہیں۔ مطالبے ہیں۔ مشورے ہیں۔تجاویز ہیں۔بھانت بھانت کی بولی ہے۔مگر اس میں جو چیز غائب ہے وہ یہ ہے کہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو اس ٹکٹکی اور سولی سے اتارو۔اور ان سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔گلگت بلتستان کا مستقبل کیا ہو گا ؟اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف یہاں کے لوگوں کو حاصل ہے۔

یہ حق ہم ان سے محض اس لیے نہیں چھین سکتے کہ ایک سو ستر سال پہلے کسی مہاراجہ نے ان پر جبراً قبضہ کر لیا تھا۔ یا اقوام متحدہ کی کسی بوسیدہ فائل میں ان کے بارے میں کوئی فرسودہ قرارداد پڑی ہے۔جس دھرتی پر جو لوگ آباد ہوتے ہیں وہی اس کے مالک ہوتے ہیں،گلگت بلتستان کا حق ملکیت صرف وہاں کے عوام کو حا صل ہے۔اور انکی دھرتی پر حکمرانی کا حق بھی صرف ان ہی کو ہے۔
آج کے اس جمہوری دور میں یہ حق نہ تو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ازاد کشمیر یا بھارتی کشمیر کے لوگوں کی خواہشات سے۔یا حق ملکیت اور حق حکمرانی مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کو متا ثر کیے یا صوبہ بنائے بغیر بھی منتقل ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.