فوجی عدالتوں سے ملک کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا

پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قانون سے پاکستان کو محفوظ بنانے کی باتیں محض بہلاوا ہے۔

پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ اگر فوجی عدالتیں بھی ناکام ہوگئیں تو پھر لوگ کہاں جائیں گے۔

اُنھوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے اس عرصے کے دوران کوئی جامع پالیسی نہیں بنائیں جس سے موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا۔

سید نوید قمر کا کہنا تھاکہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنائیں گئیں لیکن حکومت نے نہ تو ان عدالتوں کے ججز کو تحفظ فراہم کیا اور نہ ہی گواہوں کو جس کی وجہ سے یہ عدالتیں اس طرح مقدمات کو نہیں نمٹا سکیں جس طرح کی اُمید کی جارہی تھی۔

سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع تو ہو جائے گی لیکن اُنھیں نہیں لگتا کہ اس عرصے کے دوران حکومت عدالتی اصلاحات لاسکے گی۔

وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی طرف سے فوجی عدلتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق ترمیمی بل پیش ایوان میں پیش کیا گیا اس بل میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے چار تجاویز کو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں گرفتاری کے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کو اُن الزامات کے بارے میں بھی بتانا ہے جن الزامات کی وجہ سے اُسے گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملزم کو پسند کا وکیل کرنے اور فوجی عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی کے دوران قانون شہادت پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔

پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل کی حمایت کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر عدم اعتماد ہوگا اور وہ ایسا نہیں کرسکتے۔

اُنھوں نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد سپریم کورٹ کے ججز نے ذمہ داروں کا تعین کیا تھا لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ جن ججز نے مارشل لا کی مخالفت کی اُنھیں ہیرو قرار دیا جائے جنہوں نے فوجی آمروں کے عبوری حکمنامے کے تحت حلف اُٹھائے ہیں اُن ججز کی مذمت کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ فوج نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اُٹھا رکھا ہے اور اگر آئین کی خلاف ورزی صدر مملکت بھی کرے تو اُن کا بھی مواخذہ کیا جاسکتا ہے۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان کا کوئی ذمہ دار ماضی کی غلطیوں کو معذرت کرے اور یقین دلائے کہ آئندہ ایسی غلطی سرزد نہیں ہوگی۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر اُنھوں نے اس عرصے میں عدالتی نظام کو بہتر نہیں بنایا جس کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کرنا پڑ رہی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ پوری قوم کی نظریں فوج پر ہیں اور ہر مشکل وقت میں فوج پر ہی انحصار کیا گیا ہے۔

کیا فوجی عدالتوں سے ملک کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟ ماضی میں فوجی عدالتوں نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے؟ تجزیہ کاروں کے کاروں کے مطابق فوجی عدالتوں کے ذریعے ملک سے نہ جرائم کا خاتمہ ہو سکا ہے اور نہ ہی دہشت گردوں کا۔ فوجی عدالتیں دراصل پاکستان ملٹری کی سیاست میں دخل اندازی کا ایک طریقہ ہے۔

 فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے معاملے پر رائے شماری منگل کوہوگی۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ بھجوادیا جائے گا۔

BBC

Comments are closed.