بد قسمت شام 

آصف جیلانی

عراق کے مغرب میں، ترکی کے جنوب میں، لبنان کے مشرق میں اور اردن اور اسرائیل کے شمال میں واقع، شام جس کے ساحل پر بحیرہ روم ٹھاٹیں مارتا ہے ، اپنے جغرافیہ کے لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل ہے اور یہی اہمیت اس کے لئے عذاب بن گئی ہے۔سب سے بدنصیبی شام کی اس وقت یہ ہے کہ گذشتہ ۶ سال سے عرب بہار کے نام سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف، امریکا اور اس کے عرب اتحادیوں کی شہہ پر جو شورش برپا ہوئی تھی اس میں اب تک4 لاکھ70ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں ، جن میں11 ہزار4 سو بچے شامل ہیں اور 48 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جنہوں نے ترکی، لبنان، اردن، مصر اور عراق میں پناہ لی ہے۔ ۶۶ لاکھ بے گھر شامی خود اپنے ملک کی سر زمین پر بے آسرا پڑے ہوئے ہیں اور دس لاکھ کے قریب بے گھر شامی ، یورپ میں پناہ کے لئے در بدر پھر رہے ہیں۔

دسمبر72 میں میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ ، دمشق میں تھا۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد، مشرق وسطی کے ممالک کا طوفانی دورہ ، ایران سے شروع کیا تھا اور ترکی، مراکش ، الجزائر، تیونس ، لیبیا اور مصر ہوتے ہوئے ، یہ دورہ دمشق میں ختم ہوا تھا۔ اس زمانے میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد، صدر تھے، جنہوں نے پاکستان کے مصائب بھرے دور میں ، شام اور شام کے عرب ساتھی ممالک کی طرف سے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کا یقین دلایا تھا اور خاص طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام کے لئے بھر پور مالی امداد فراہم کرنے کا پیمان کیا تھا۔ یہی وجہ تھی اس زمانے میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو اسلامی بم کا پروگرام کہا جا رہا تھا۔

اس وقت دمشق ، عرب سیاسی قوت کا مرکز تھا اور مشرق وسطی کا ایک حسین درخشاں نگینہ دکھائی دیتا تھا۔ خوبصورت تاریخی امیہ مسجد کے سامنے سوق ، دنیا بھر کی اشیاء اورخریدارون سے بھرا رہتا تھا۔ اس کے برابر میں دمشق کے مرکزی چوک میں ہر جمعہ کی شام کو مشہور گلو کارہ ام کلثوم کے نغمے نشر ہوتے تھے جو قاہرہ کے تحریر اسکوائر سے ریلے ہوتے تھے۔ چوک میں عوام کا اژدھام ایسی عقیدت سے یہ نغمے سنتا تھا کہ جیسے یہ الہامی نغمے ہوں۔ 

اب پچھلے6 برسوں کے دوران شام کے شہر کے کھنڈرات کی تصویریں جب ٹیلی وژن پرنظر آتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔پورا ملک کھنڈر بن کر رہ گیا ہے۔ صدر بشار الاسدکی حکومت کے خلاف شورش کا آغاز2011میں عرب بہار سے ہواتھا جب کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کی پشت پناہی میں سنی عرب باغی تنظیمیں عرب انقلاب کی آڑ میں بشار الااسد کے خلاف بغاوت میں کود پڑی تھیں۔ان تنظیموں میں آزاد شام فوج، کردوں کی ڈیموکریٹک فورس ، القاعدہ سے منسلک النصرہ اور اسلامی جہادیوں نے سیرین آرمی کے پرچم تلے ، حلب اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

صدر اوباما کی طرف سے شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شورش کا یہ جواز پیش کیا گیا تھا کہ یہ شام میں جمہوریت کے قیام کی جنگ ہے ، لیکن ستم ظریفی یہ کہ بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لئے ، ان کے باغیوں کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرنے میں پیش پیش وہ عرب ممالک رہے ہیں جہاں خود جمہوریت مفقود ہے اور مطلق العنان حکومتیں بر سر اقتدار ہیں، ایک اور ستم ظریفی یہ کہ1990سے2003کے دوران سی آئی اے نے شام میں بشارالاسد کے تعاون سے ، ایذارسانی کے مرکز قا ئم کئے تھے، جہاں یورپ میں گرفتار شدہ شدت پسندوں کو شام بھیجا جاتا تھا اور وہاں عقوبت خانوں میں قیدکر کے ، ایذا رسانی کے ذریعہ شدت پسندوں کے ساتھیوں اور ان کے منصوبوں کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ یہ عقوبت خانے اس قدر ہولناک تھے کہ ان کا نام سنتے ہی امریکا کے مخالفین کانپ اٹھتے تھے۔ اب یہی CIAہے جو بشار الاسد کی حکومت پر ایذا رسانی کا الزام لگا رہی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے عرب اتحادی شام میں حکومت کا تختہ الٹنے کے در پے ہیں۔ پہلی عالم گیر جنگ کے بعد مشرق وسطی میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان جو حصے بخرے ہوئے تھے اس کے بعد 1944 تک شام پر فرانس کا تسلط تھا ، جس کے بعد شام کو ایک آزاد مملکت تسلیم کیا گیا تھا ، لیکن اس کے فورا بعد امریکا نے شام کے راستہ مشرق وسطی پر اپنا سیاسی اور فوجی اثر جمانے کے لئے شام کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کی شروعات 1949سے ہوئی، جب سی آئی اے کی شہہ پر کرنل حسنی الزعیم نے صدر شکری القواتلی کا تختہ الٹا تھا۔

دمشق میں سی آئی اے کے اسٹیشن چیف ، مایلز کوپ لینڈ نے اس سازش کا منصوبہ بنایا تھا۔ امریکیوں کو خطرہ تھا کہ کمیو نسٹ پارٹی اقتدار پر قبضہ نہ کر لے۔ کرنل زعیم کے اقتدار کا دور مختصر تھا لیکن اس دوران، سی آئی اے نے سعودی عرب سے لبنان کے ساحل تک آرام کو کی تیل کی ٹیپ لائن کی تعمیر کے منصوبہ کی توثیق کرالی ۔ اب تک شام کی پارلیمنٹ میں اس پائپ لائین کی شدید مخالفت کی جارہی تھی۔ اسی کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کرنے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے سمجھوتہ پر دستخط کرائے گئے۔ 
پھر 1956میں کرنل کوبانی کی قیادت میں اقتدار پر فوج کے قبضہ کا منصوبہ بنایا گیا ، لیکن مصر پر اسرائیل کے حملہ کے پیش نظر منصوبہ ملتوی کردیا گیا۔ اس دوران یہ خبریں تھیں کہ شام کو کمیونزم کے غلبہ کا شدید خطرہ ہے جس کی روک تھام کے لئے ایک اور منصوبہ تیار کیا گیا لیکن یہ بھی ناکام رہا کیونکہ شام کی انٹیلی جنس کو اس کی خبر مل گئی تھی ۔ 

ستمبر 1957میں امریکیوں نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکسکی مدد سے شام کی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ عبد الحمید سراج، فوج کے چیف آف اسٹاف عفیف البزری اور شام کی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر خالد بخداش کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی ، لیکن اس کا بھی راز فاش ہوگیا۔

وکی لیکس نے 2006میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت ، شام کی حزب مخالف کو بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے مالی امداد فراہم کر رہی ہے ۔ 2013نے اعتراف کیا کہ سی آئی اے کے تربیت یافتہ حزب مخالف کے 50اراکین کے گروپ کو شام بھیجا گیا ہے ۔ اس کے بعد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے شورش کے پیچھے امریکا کے ہاتھ کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ امریکا کے ساتھ عرب ممالک کے اتحاد کی سرگرمیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امریکا اور عرب اتحاد کے ساتھ ، شام کی اس تباہ کن خانہ جنگی کی ذمہ داری سے بشار الاسد کی حکومت اور فوج بری نہیں ہو سکتی ، لیکن شام اپنی بد قسمتی کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔

Comments are closed.