کوا چلا ہنس کی چال

آصف جیلانی 

ایسی ان ہونی باتیں ، صرف پاکستان ہی کے مقدر میں لکھی نظرآتی ہیں۔ پاکستان کے معزول صدر پرویز مشرف جو غداری کے سنگین مقدمہ کے ساتھ بے نظیر بھٹو اور سرداراکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات میں اشتہاری ملزم ہیں اور جو علاج کے بہانے ملک سے مفرور ہیں ، پاکستان کے ایک نجی ٹیلی وژن پر اینکر کی حیثیت سے جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ ان کے سیاسی تجزیہ کے پروگرام کا عنوان ہے، ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘۔یہی عنوان ان کی کتاب کا ہے جو 2006میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ کتاب اسی وقت مقبول ہوئی تھی جب وہ پاکستان کے مطلق العنان صدر تھے۔ 

بلاشبہ میری طرح بہت سے لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ خدا نخواستہ معزول صدر کے گھر میں فاقے تو نہیں ہو رہے ہیں گے کہ وہ پیسوں کی خاطر ٹی وی چینل پر اپنا کیریر شروع کررہے ہیں۔ ایسا قطعی نہیں کیونکہ، ابھی پچھلے دنوں سابق ڈکٹیٹر نے ایک ٹیلی وژن چینل پر ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ انہیں سعودی عرب کے سابق فرماں روا شاہ عبداللہ نے ایک ارب ڈالر کی رقم تحفہ میں دی تھی جس سے انہوں نے لندن اور دبئی میں فلیٹس خریدے تھے۔

اس انکشاف پر بہت سے لوگوں کو تعجب ہوا کیونکہ جب پرویز مشرف پارلیمنٹ میں مواخذہ سے بچنے کے لئے امریکی سفیر این پیٹرسن اور جنرل کیانی کی مصالحتی کوششوں کے نتیجہ میں صدارت سے استعفیٰ دے کر لندن منتقل ہوئے تھے تو یہ خبریں تھیں کہ ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ، امریکا اور برطانیہ میں لیکچرز ہیں۔ ایک لیکچرکے لئے وہ ایک لاکھ ڈالر وصول کرتے تھے۔ لیکن اس سے پہلے انہوں نے اپنی کتاب میں خود یہ اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں القاعدہ کے 689پکڑے جانے والے جنگجوؤں میں سے 369جنگجووں کو امریکا کے حوالے کیا تھا جن کے عوض سی آئی اے نے انہیں لاکھوں ڈالر ادا کئے تھے۔

اگر پاکستان کے اخبارات پر یقین کیا جائے تو پچھلے دنوں انہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ معزول صدر مشرف کے لندن اور دبئی میں کم سے کم سات سے دس تک آف شور بنک اکاونٹس ہیں جن میں دو ارب پندرہ کڑوڑ روپے کی مالیت کے ڈالر،پونڈ اور درہم جمع ہیں ۔ مارچ 2013میں مشرف نے الیکشن کمیشن میں جو گوشوارے داخل کئے تھے ان کے مطابق ان کے اثاثوں کی مالیت 62کروڑ 22لاکھ روپے تھی۔ غیر ممالک میں بنک اکاونٹس اور اثاثوں کے گوشوارے کے پیش نظر ، اگر کوئی یہ کہے تو اس پر یقین کرنا محال ہے کہ سابق ڈکٹیٹر ایسی مالی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ انہیں یہ نیا کیریر اختیار کرنا پڑا ہے، جس کا انہیں سرے سے کوئی تجربہ نہیں ۔ 

اگر کوئی یہ کہے کہ پرویز مشرف نے ٹیلی وژن پر تجزیاتی پروگرام شہر ت حاصل کرنے کے لئے شروع کیا ہے تو اس پر بھی یقین مشکل ہے ، کیونکہ انہیں شہرت کی کیا کمی؟ ساری دنیا میں وہ مشہور ہیں کہ انہوں نے 1999میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔اور وزیر اعظم نواز شریف کو ملک بدر کردیاتھا۔ 9/11کے بعد امریکی وزیر خارجہ ، کولن پاول کی ایک دھمکی پر انہوں نے ، افغانستان میں امریکا کی جنگ میں پاکستان کو دھکیل دیا تھا، جس کے نتیجہ میں 25ہزار سے زیادہ پاکستانی شہری اور فوجی ہلاک ہوئے اور ملک میں دہشت گردی کا ایساعذاب شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ یہی سابق ڈکٹیٹر مشرف ہی تھے جنہوں نے امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی کھلی اجازت دی اور بھر پور سہولت بھی فراہم کی۔ 

ڈرون حملوں کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔جس میں دہشت گردوں سمیت ۴ ہزار سے زیادہ شہری جاں بحق ہوئے ہیں۔ ساری دنیا میں مشرف مشہور ہیں کہ انہوں نے 2007میں پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی ، آئین معطل کر دیا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کر کے انہیں گھر میں نظر بند کردیا۔ اور آخر کار نہایت بے عزتی کے ساتھ صدارت کے عہدہ سے مستعفی ہو کر لندن میں پناہ لینی پڑی۔ پھر اچانک لندن میں نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا خیال آیا اور اس جماعت کے بل پر وطن آکر 2013کے انتخابات کے میدان میں کودنے کی کوشش کی جس میں حصہ لینے میں ناکام رہے اور آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جو جماعت قائم کی اس میں شامل لوگ ایک ایک کر کے رسہ توڑ کر بھاگے اور انہوں نے مختلف جماعتوں میں پناہ اختیار کر لی ۔

اس دوران نہ صرف سیاسی ناکامیوں نے معزول صدر کو گھیر لیا بلکہ غداری اور قتل کے سنگین مقدمات میں محصور ہو کر رہ گئے، وہ توان کے لئے خیریت اس میں رہی کہ فوج نے ، ان مقدمات سے ان کی جان چھڑائی اور فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے انہیں ملک سے فرارہونے میں مدد دی ورنہ، ٹیلی وژن پر پروگرام تو کیا قید خانہ میں ٹیلی وژ ن بھی دیکھنا میسر نہ ہوتا۔

پرویز مشرف ،بجا طور پر پاکستان میں ٹیلی وژن کے انقلاب کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں، لیکن وہ یہ راز چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹیلی وژن کے بے شمار لائسنس انہوں نے اس میڈیا کے فروغ کے لئے نہیں بلکہ اخبار کے بیشتر مالکوں کو رشوت کے طور پر جاری کئے تھے۔ تاکہ ان کی بھر پور حمایت حاصل کی جائے۔ یک بیک جس ہڑ بونگے انداز سے ٹیلی وژن چینلز منظر عام پر آئے اور صحیح معنوں میں صحافیوں اور اینکرز کو تربیت نہ دی جاسکی اس کی وجہ سے آج ٹیلی وژن صحافت معتبری کے جس سنگین بحران سے دوچار ہے وہ مسئلہ ایک طویل بحث کامتقاضی ہے لیکن اس وقت تویہی کہا جا سکتا ہے کہ پرویز مشرف ٹیلی وژن کے جس انقلاب کا دعوی کرتے ہیں ، در حقیقت وہ اینکر کا روپ دھار کر ، اس انقلاب کے ثمرات کا فیض اٹھا رہے ہیں۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کا معاملہ امریکا کے نئے صدر ٹرمپ کے بالکل بر عکس ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ ، ایک زمانہ میں ، ٹیلی وژن کے رئیلیٹی شوکے پیشکار تھے۔ جس کے بعد انہوں نے ایسی انقلابی جست لی کہ وہ امریک کا صدر بن گئے۔ ٹرمپ کے برعکس پرویز مشرف ، صدارت کاعہدہ ہاتھ سے گنوانے کے بعد ٹیلی وژن کے اینکر بنے ہیں، اور وہ بھی ریموٹ کنٹرول کے بل پر۔ دبئی کے پر تعیش محل میں بیٹھ کر وہ کراچی سے بے حد آسان سوالات کا ، سیاسی بقراط بن کر جواب دیتے ہیں۔

مجھے حقیقت کا علم نہیں لیکن ، سنا یہ جا رہا ہے کہ بعض حلقے اس پروگرام کے ذریعہ معزول اور مفرور صدر کا امیج بحال کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور عوام میں مقبولیت کے بل پر ان سے کوئی اہم کام لینا چاہتے ہیں۔ بہر حال، میں یقینی طور پر ان لوگوں سے اتفاق کروں گا جو یہ کہتے ہیں کہ’’کوا چلا ہنس کی چال ، اپنی بھی بھول گیا‘‘۔

One Comment