بھارتی سیاست اور مسلمان

بیرسٹر حمید باشانی خان

بھارتی ریاست اتر پردیش میں جنتا پارٹی کی تاریخی اور بے مثال جیت نے کئی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ان میں ایک بڑاسوال یہ ہے کہ بھارت کی آئندہ سیاست میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب بہت سیدھا سادہ ہے۔ میں ان ہی کالموں میں کئی بار یہ جواب عرض کر چکا ہوں۔مکرر عرض یہ ہے کہ بھارتی سیاست میں مسلمانوں کی بقا اس بات میں ہے کہ مذہب کو سیاست سے دور رکھا جائے۔

جس دن سے بھارت میں مذہبی بنیادوں پر سیاست شروع ہو جائے گی اسی دن مسلمانوں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔اس لیے کہ بھارت ایک جمہوریہ ہے۔ یہاں لوگ گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے۔اور جب مذہب کے نام پر گنتی شروع ہو جائے گی تو جیتے گا وہی جس کے مذہب کی بھارت میں اکثریت ہے۔یہ کوئی راکٹ سانئس نہیں ایک سیدھی سادی بات ہے۔ اور اتر پردیش میں یہی ہوا۔

مسلمانوں نے اگر بھارت کی سیاسی اور سماجی زندگی میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو ان کو تاریخ سے رجوع کرنا ہو گا۔ترقی پسند دانشوروں، جید علمائے کرام،صوفیائے کرام کے عمل اور نظریات سے رہنمائی لینا ہو گی۔ان عظیم شخصیات کے علم اورتجربے سے استفادہ کرنا ہو گا۔ بھارت کی تاریخ میں ان شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے۔بھگت داس کبیر کا نام ان شخصیات میں سر فہرست ہے۔ یہ عظیم انسان آج بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

داس کبیر اپنی موت کے پانچ سوسال بعد بھی اگر اس قدر مقبول ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ ایک صوفی، سادہو یا بھگت تھا۔ بر صغیر کی تاریخ تو سادھوؤں، سنتو ں اور صوفیا کرام سے بھری پڑی ہے۔ مگر تاریخ میں صرف وہ ہی زندہ رہے جنہوں نے عوام میں اپنی مقولیت کو سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کیا۔ جنہوں نے پسے ہوئے اور مجبو ر طبقات کی لڑائی لڑی۔ اور جنہوں نے ظالم اور جابر حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی جرات کی۔ یا پھر وہ جنہوں نے اپنے وقت سے بہت آگے دیکھا تھا۔ بہت آگے کی بات کی تھی۔ اور داس کبیر کو آپ ان لوگوں کا سر غنہ قرار دے سکتے ہیں۔

پندرھویں صدی کے اس نابغہ روزگارشخص نے اس وقت ان خیالات کا پر چار کیا جو آج بھی کئی لوگوں کے لیے نئے ہیں۔شایدوہ ہماری تاریخ کا پہلا معروف آدمی تھا جس نے ہندوستان میں ذات پات کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اس نے براہمنوں پر سرے عام تنقید کی۔ براہمن ازم کے خلاف تقریریں کیں۔ اور عام لوگوں کو براہمن ازم کے خلاف بغاوت پر اکسایا۔ ذات پات اور براہمن ازم کے خلاف تلسی داس کی کتاب بہت بعد میں آئی۔ 

جب داس کبیر نے یہ کام کیا اس وقت کوئی ایسا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ صرف براہمن ازم کے خلاف ہی نہیں وہ ملائیت کے خلاف بھی سینہ تان کر کھڑا ہو گیا۔ یہ اسی کی ہمت تھی کہ اس نے اس وقت کے دو انتہائی طاقت ور مذاہب کے پیشواوں کو چیلنج کیا۔ ان کی اجارہ داریوں کا پردہ فاش کیا۔ ان کے استحصالی ہتھکنڈوں پر تنقید کی۔ ان کی جہالت اور توہم پرستی کا مذاق اڑایا۔بنیاد پرستی کے خلاف کھلی جنگ لڑی اور عوام میں اپنی مقبولیت جاری رکھی۔اپنے گریبان میں جھانکنے کی اس قدر پر اثر دعوت شائدہی کسی اور نے دی ہے۔

براجودیکھن میں چلا              برا نہ ملیا کوئے
جو دل کھوجا اپنا              مجھ سے برا نہ کوئے

داس کے بارے میں کہانی ہے کہ وہ بنارس شہر میں ایک براہمن کے ہاں پیدا ہوا۔ اسکی ماں بیوہ ہوگئی اور غربت کی وجہ سے اسے کئی چھوڑگئی۔ اس نے ایک مسلمان خاندان میں پرورش پائی۔جب اس نے اپنی جہدو جہدکا آغاز کیا تو بنارس کو براہمنوں کا شہر تصور کیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی والی بات تھی۔براہمن اس کے خلاف متحد ہو گئے۔ مگر وہ اسے روک نہ سکے۔ وہ اپنا پیغام لیکر سیدھا عوام میں چلا گیا۔ اس نے پسے ہوئے مظلوم طبقات اور نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ ڈیرے ڈال دئیے۔ اور اس کا کلام اور پیغام تیزی سے مقبول ہونا شروع ہو گیا۔

یہ بے چارے لوگ آج بھی بڑے پیمانے پر ان پڑھ ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پندرھویں صدی میں ان کی خواندگی کی شرح کیا ہوگی۔ چنانچہ داس کبیر نے ایک مشکل پیغام کو انتہائی آسان زبان میں ان تک پہنچایا۔ ان کے معیار کے مطابق شعر کہے۔ ان کی سطح پر اتر کر بات کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا کلام زبان زد عام ہو گیا۔ اسکی اس عوامی مقبولیت کو دیکھ کر براہمنوں اور ملاؤں کا پراپیگنڈا تیز ہو گیا۔انہوں اسے اچھوتوں، غریبوں اور عصمت فروش عورتوں کا رہنما کہنا شروع کر دیا۔

داس کے پیغام کا سب سے جاندار عنصر انسانیت تھی۔ اس نے مذہب کے نام پر انسانیت کی تقسیم کے خلاف مضبوط آوازاٹھائی۔عوام میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے کے رحجانات کی نفی کی۔ یہ وہ نقطہ تھا جس پر وہ اس وقت کی بنیاد پرست قوتوں کے ساتھ براہ راست تصادم پر آگیا۔ چنانچہ داس کبیر کے پیغام کے خلاف ملائیت اور براہمن متحد نظر آتے ہیں۔ تیمور لنگ کے زمانے میں داس کو بڑے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ 

مگر اس کے پیغام کی سچائی اور عوام سے اس کی محبت نے اسے سرخروکیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا پیغام عام ہوتا گیا۔ اسی پیغام کے بطن سے بھگتی تحریک نے بھی جنم لیا۔ اس کے کلام کے ایک بڑے حصے کو سکھوں کی مذہبی کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی شامل کیاگیا۔۔ گرونانک کے خیالات پر داس کے خیالات کا بڑا واضح اثر دکھائی دیتا ہے ۔ا س وقت کے سخت مذہبی ماحول کی وجہ سے داس کبیر کے پیغام کی کئی مذہبی شکلیں سامنے آئیں۔

مگراس کا پیغام بنیادی طور پر سیکولر تھا۔ محبت اور انسانیت کا پیغام تھا۔ جس پر صوفیانہ رنگ غالب تھا کہ اس زمانے میں ہر خیال اور ہر پیغام کو کسی نہ کسی مذہبی یا روحانی طریقے سے ہی عوام تک لے جایا جا تھا۔کبیر ان صوفیوں سنتوں میں سر فہرست ہے جو ہندواں، مسلمانوں، اور سکھوں میں یکساں مقبولیت رکھتے ہیں۔ اور یہ مقبولیت اس کی عوام سے بے پناہ محبت اور جڑت کے سبب ہے۔ آج بھارتی مسلمانوں نے بنیاد پرستی اور کٹھ ملائیت کے زیر اثر اکر اپنے اپ کو جس تباہی اور بربادی کے راستے پر ڈال دیا ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ کبیر جیسے لوگوں کے کردار اور عمل سے سیکھنا ہے۔ورنہ گجرات اور اتر پردیش کے انتخابی نتائج تو محض ابتدا ہے۔

سکھیا سب سنسار ہے                کھائے اور سوئے
دکھیاداس کبیر ہے               جاگے اور روئے

Comments are closed.