کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟-2

سبط حسن


انفرادی ارادے اور جاری بیانیے کے درمیان تعلق کا مطالعہ 

قسط دوم ۔ کہانی اور سائنسی تحقیق پر مبنی تحریر میں فرق 

کہانی میں ٹھوس حالات و واقعات اور واقعاتی تسلسل ہوتا ہے۔ زمانی ترتیب ہی کہانی کو بیانیے کی ساخت دیتی ہے ۔ جب کہ سائنسی تحقیق پر مبنی تحریر میں حقائق کو ان کے آپسی تعلق اور تعامل کی بنیاد پر الگ گروہوں(کیٹیگریز) اور نظامات(سسٹمز)میں تقسیم کیا جاتا ہے۔اس طرح ان کے درمیان پوشیدہ تعلق کی مشاہداتی جانچ کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر انسانی جسم میں کیمیاوی اعمال (بائیو کیمسٹری )کی کیفیّت جسم کے مختلف افعال کی کارکردگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ چونکہ سائنسی علوم طے شدہ نظامات میں کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق بنیادی طور پر فطرت کی کارگزاری سے ہوتا ہے۔ اس لیے سائنسی علوم کی جستجو میں مفروضہ سازی اور پیش گوئی ممکن ہوتی ہے۔ مفروضہ سازی دراصل تحقیق کے عمل کو ممکنہ کامیابی کے راستے پر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ چونکہ سائنسی تحقیق بندھے ٹکے راستے پر اٹل قوانین پر چلتی ہے اس لیے اس میں مفروضہ سازی بے لگام نہیں ہوتی۔ 

سائنسی تحقیق کے مقابلے میں کہانی بنانے میں انسانی ارادوں ، وارداتوں اور ان دونوں پر مشتمل مبہم کارگزاریوں کو ایک بامعانی ترتیب دی جاتی ہے۔ اس ترتیب میں انسانی تجربہ محض حقائق کی حد تک ہی محدود نہیں رہتابلکہ اس کی وساطت سے پیداہونے والے انسانی جذبات اور تائثرات کی نمائندگی بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے کہانی میں سموئے حقائق انسانی جذبات اور رویوں کے ساتھ باہم ہو کر ایک جامعتجربے کی گنجائش پیدا کرتے ہیں۔ جب سائنسی تحقیق کے دوران انسان کا حقیقت سے آمنا سامناہوتا ہے تو حیرت یا انکشاف کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کہانی کا تجربہ زیادہ پُر اثر اور انسانی جذبات میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

مثال کے طور پر ہندوستان کی تقسیم کے وقت جو خونریزی ہوئی اور انسانیت کی جو تذلیل ہوئی اس کے بارے میں اخباری رپورتاژ، تاریخ کی کتابوں بلکہ انفرادی تجربات کی روئیدادوں میں وہ دکھ اور اندوہ نہیں جو سعادت حسن منٹو کی کہانی’کھول دو‘ میں ہے۔ تقسیمِ ہندوستان کے وقت جو خونریزی ہوئی اس کے دوران عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ اسی حقیقت کے سیاق و سباق میں یہ کہانی لکھی گئی۔ جب اس پاگل پن میں کمی آتی ہے تو دونوں ممالک سے اغواہ شدہ لڑکیوں کی بازیابی کا سلسلہ شروع ہوتاہے ۔ اسی پس منظر میں کہانی کا آخری منظر یہ ہے:۔

کھول دو
شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا، اس کے پاس ہی کچھ گڑ بڑ سی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے ۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لے آئے۔ سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کر دیااور چلے گئے۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے سامنے گڑھے کھمبے کے ساتھ کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا آیا۔ کمرے میں کوئی نہ تھا۔ ایک اسٹیچر تھا ، جس پرایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا اس کی طرف بڑھا ۔ کمرے میں دفعتاََ روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلاّیا ، ’’ سکینہ۔۔۔!‘‘ڈاکٹر جس نے کمرے میں روشی کی تھی، سراج الدین سے پوچھا، ’’ کیا ہے؟‘‘

سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا، ’’ ۔۔۔ جی، میں ۔۔ اس کا باپ ہوں۔۔۔!‘‘

ڈاکٹر نے اسٹیچر پر پڑی لاش کی طرف دیکھا، اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا، ’’ کھڑکی کھول دو۔۔‘‘

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش ہوئی ۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلّایا ،’’ زندہ ہے ، میری بیٹی زندہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر سر سے پاؤں تک پسینے میں غرق ہو گیا۔ 

اسی طرح چیخو ف ایک کہانی جس میں ایک کوچوان کا بچّہ سردی سے مر جاتا ہے۔ کوچوان کی بیوی مر چکی ہے۔ کوچوان اپنے بچّے کے مر جانے کا دکھ کسی کو سنانا چاہتا ہے مگر اس کے ارد گرد کوئی نہیں ہوتا۔ وہ اس دکھ کی گھڑی میں تانگہ جوتتا ہے تاکہ کوئی اپنا نہ سہی وہ تانگے پر بیٹھنے والی سواریوں کے ساتھ ہی اپنا دکھ بانٹ لے۔ کئی سواریاں تانگے پر بیٹھتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بات شروع کرتا ہے مگر کوئی بھی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ہر کوئی اپنی اپنی دنیا میں غرق ہوتا ہے۔ آخر وہ واپس چلا آتا ہے۔ کہانی کا آخری حصّہ یہ ہے:۔

نذیر کوچوان
نذیر نے سرد سانس لی۔ وہ چپ چاپ ، اسی جگہ کھڑا رہا جیسے وہ برف کی طرح جم گیا ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کو مرے ایک ہفتہ ہو گیاہے۔ اب تک کسی نے اس سے نہ پوچھا کہ اس کے بیٹے کو کیا ہوا؟ وہ کیونکر مر گیا؟ اس نے اس کے علاج کے لیے کیا کیا؟ جب اسے لگا کہ اس کے بیٹے کی حالت اچھی نہیں تو کس طرح اس کا سر چکرایا تھا۔ اس کا دماغ بالکل خالی ہو گیا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا کام۔۔۔ جو آدمی بغیر سوچے بھی کر سکتا ہے۔۔۔ اس سے نہیں ہو رہا تھا۔ وہ ہرروز ہسپتال آتا جاتا رہتا تھا۔ اس دن اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کس راستے سے ہسپتال کی طرف جاتے ہیں۔ وہ آتے جاتے ڈاکٹروں کو سلام کرتا تھا۔ اس دن اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ یہ لوگ کون ہیں۔

جب اس کا بیٹا بیمار ہوا تو وہ اس کے علاج کے لیے اکیلا ہی تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی اور اس کی ایک بیٹی گاؤں میں رہتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ، یہ تمام باتیں کسی کو سنائے۔ سننے والا اس سے اس کے بیٹے کے بارے میں ہر طرح کے سوال کرے۔ نذیر کے ساتھ جو ہوا، اس پر افسوس کرے، ٹھنڈی آہیں بھرے، اس کا دکھ بانٹے۔ اگر عورت مل جائے تو اور بھی اچھا ہے ، عورتیں نرم دل ہوتی ہیں۔ وہ اصل میں تو ماں ہی ہوتی ہیں اور بچوں کے دکھ کو سمجھتی ہیں۔ اگر کوئی عورت اس کا دکھ سنے گی تو وہ رو پڑے گی۔

نذیر ان سب خیالوں میں، گھوڑی کو ایک نظر دیکھنے کے لیے اصطبل کے باہر بنے برآمدے میں آیا۔ اسے لگا برآمدے میں سردی ہے، گھوڑی کو اصطبل کے اندر لے جانا چاہیے۔ مگر اس کا دھیان پھر اپنے بیٹے کی موت کی طرف چلا گیا۔ وہ گھوڑی کے پاس آیا۔ کہنے لگا

’’دانہ چبا رہی ہو۔‘‘ اس نے گھوڑی کے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’اب تو اتنی مزدوری بھی نہیں ملتی کہ دانہ روز خریدا جاسکے۔ کوئی بات نہیں، ہم گھاس پر گزارہ کر لیں گے۔۔۔ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور تانگہ چلانے کا کام مجھ سے نہیں ہوتا۔۔۔ اب تو یہ کام میرے بیٹے کو سنبھالنا چاہیے تھا۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ کوچوانی بڑے اچھے طریقے سے کرتا۔۔۔ اسے کچھ دن۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر نذیر چپ ہو گیا۔ گھوڑی نذیر کو دیکھ رہی تھی۔ نذیر کچھ دیر اسی طرح خاموش رہا، پھر گھوڑی سے کہنے لگا

’’بیٹی بات یہ ہے۔۔۔ میرا بیٹا مر گیا ہے۔۔۔ اسے پتہ نہیں کیا ہوا۔۔۔ ؟ ایک دم مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ اس نے گھوڑی کے منہ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔
’’
یوں سمجھ لو، کہ تمھارا ایک بچھیرا ہو۔۔۔ تم اس کی ماں ہوئی ناں۔۔۔ اگر وہ اچانک۔۔۔مر جائے۔۔۔ تمھیں اس کا کتنا دکھ ہوگا۔۔۔ ہوگا ناں۔۔۔!!‘‘

گھوڑی نے سر جھکا لیا۔ وہ خالی خالی پرنم آنکھوں سے نذیر کو دیکھ رہی تھی۔ نذیر نے آگے بڑھ کر گھوڑی کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
(
یہ اقتباس بچوّں کے لیے چیخوف کی کہانی کے اردو ترجمے سے لیا گیا ہے ۔ اس ترجمے میں بچوں کی آسانی کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے تھے۔)

اچھی کہانی کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ زندگی پر تبصرے کرنے کی بجائے زندگی کو ہوبہو اپنی اصل حالت میں بیان کردیتی ہے۔ مثال کے طور پراگر آپ گاڑی میں سفر کر رہے ہیں اور کھڑکی بند ہے۔ اچانک گاڑی میں بہت سی ریت آنا شروع ہو جاتی ہے۔آپ ساتھی مسافر سے پوچھتے ہیں کہ گاڑی میں اس قدرزیادہ ریت کیوں آرہی ہے۔ ساتھی مسافر جواب دیتا ہے کہ اس وقت گاڑی تھر کے ریگستان میں سے گزر رہی ہے۔ آپ ساتھی مسافر سے پوچھتے ہیں کہ ریگستان کیسا ہوتا ہے؟ ساتھی مسافر کچھ بولنے کی بجائے کھڑکی کھول دیتا ہے۔

اس طرح آپ تھر کی جغرافیائی صورتحال کا براہِ راست تجربہ کرسکتے ہیں۔ اگر آپ وہاں کسی گوٹھ میں لوگوں کے ساتھ رہیں تو ایک اور کھڑکی کھل جائے گی۔ اچھی کہانی میں مصنف اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا وہ زندگی کے کسی تجربے کو بعینہ بیان کر کے اس میں انسانوں کے ارادوں کو سمو دیتا ہے۔ واضح رہے کہ انسانی زندگی کے واقئات بہرکیف غایت رکھتے ہیں اورجب سیدھے طور پر اس غایت کو واشگاف کر دیا جائے تو کہانی پورے معانی کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ ایسی کہانی اپنے پڑھنے والے کے لیے وہی کام کرتی ہے جو گاڑی میں سفر کے دوران تھر کے تجربے کے لیے کھڑکی کے کھلنے سے ہوتا ہے۔

ایسی ہی کہانی پریم چند کی ’ کفن‘ہے۔ یہ باپ (گھیسو) اور بیٹے (مادھو)کی کہانی ہے۔ وہ چمار ہیں اور چماروں کی بستی میں رہتے ہیں۔ دونوں کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام سے گھر میں پڑا رہتا۔ مادھو تو اول نمبر کا کام چور تھا۔ ایک گھنٹہ کام کرتا تو تین گھنٹے حقہ پیتا رہتا۔ ان کی اسی کام چوری کی وجہ سے کوئی بھی انہیں کام پر نہ رکھتا تھا۔ آٹا ختم ہو جاتا اور فاقوں کی نوبت آجاتی تو گھیسو درختوں پر چڑھ لکڑیاں توڑ لاتا اور مادھواسے بازار میں بیچ کر دو پیسے کمالاتا۔ جب تک یہ پیسے رہتے، وہ باپ بیٹا سارا دن حقہ پیتے اور اِدھر اُدھر مٹر گشت میں گزار دیتے۔ گھیسو نے اسی درویشی میں اپنی ساٹھ سالہ زندگی گزاری۔

دونوں کی زندگی میں سب سے بڑی آرزو خوب جی بھر کر کھانا ہے ۔ کہانی کے شروع میں دونوں باپ اور بیٹا جھونپڑی کے دروازے پر گرم راکھ کے سامنے بیٹھے تھے ۔ گر م راکھ میں انھوں نے آلو دبا رکھے ہیں۔ جھونپڑی کے اندرمادھو کی بیوی زچگی میں تڑپ رہی ہوتی ہے۔باپ بار بار مادھو کو کہتا کہ وہ جھونپڑی میں جا کر اپنی بیوی کو دیکھ لے۔ مگر وہ اس لیے وہاں سے نہیں ہلتا کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ جب وہ وہاں سے ہلے گا تو اس کا باپ آلو کھا لے گا۔ ۔ وہ باپ کے بار بار کہنے پر آخر کہتا ہے :’’میں تو کہتا ہوں کہ اس کی مشکل آسان ہو جائے۔۔۔ کم سے کم اس تکلیف سے تو نکلے۔۔۔!!میں سوچتا ہوں کہ کوئی بال بچہ ہو گیا تو کیا ہوگا۔۔۔؟ گھر میں گھُٹّی کے لیے کچھ تو نہیں۔۔۔‘‘ 
’’
اگر اﷲ نے بچہ دیا تو وہ اس کے لیے سب کچھ دے دے گا۔ میرے نو لڑکے ہوئے، گھر میں ہر بار کچھ نہیں ہوتا تھا مگر ہر بار کام چل ہی جاتا تھا۔‘‘ گھیسو نے کہا۔

گھیسو کو ارد گرد بسے کسانوں کے تعاون اور مدد کے جذبے پر بڑا یقین تھا۔ اس میں اس کا مکر بھی چھپا ہوا تھا کہ کسان تو جی توڑ کر محنت کریں اور ضرو رت کے وقت اسے مفت میں سب کچھ مل جائے۔دونوں راکھ سے آلو نکال کر جلدی جلدی کھا رہے تھے۔ دونوں کی کوشش تھی کہ وہ دوسرے کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ آلو کھا لے۔ انھوں نے زندگی میں شاید ایک آدھ بار پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھا۔ آلو کھاتے ہوئے گھیسو کو خیال آیا کہ بیس سال پہلے وہ گاؤں کے چودھری کی بارات کے ساتھ گیا تھا۔ لڑکی والوں نے سب باراتیوں کو طرح طرح کے کھانے کھلائے۔ کھانے کی بہتات تھی اور جتنا چاہو، اتنا کھانا کھا سکتے تھے۔ 

صبح کو مادھو نے کوٹھڑی میں جا کر دیکھا تو اس کی بیوی مر چکی تھی۔ دونوں باپ بیٹا روتے پیٹتے گاؤں کے چودھری کے پاس گئے۔ اسے اپنی بپتا سنائی۔ زمیندار کے دل میں رحم کی ایک لہر آئی۔ اس نے دو روپے نکال کر گھیسو کی طرف پھینکے۔ گھیسو نے دو روپے اٹھا لیے اور بلند آواز میں زمیندار کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ اس وقت زمیندار کے پاس مہاجن بھی بیٹھا تھا۔ اس نے ایک روپیہ دیا۔ گاؤں میں جس کسی کو مادھو کی بیوی کی موت کا پتا چلا، اس نے کچھ نہ کچھ گھیسو کو ضرور دیا۔ گھیسو کے پاس دس روپے جمع ہوگئے۔ یہ کفن دفن کی ضرورت سے زیادہ تھے۔

دونوں باپ بیٹا کفن کے لیے شہر کی طرف گئے۔ راستے میں گھیسو نے مادھو کو صلاح دی کہ ا نھیں ہلکے سے کپڑے کا کفن لے لینا چاہیے۔جنازہ اٹھاتے وقت رات ہو جائے گی، رات کو کفن کون دیکھے گا۔ ساری زندگی تو اس نیک بخت کی چیتھڑوں میں گزری، اب دنیا سے جاتے وقت کیا اسے نیا کفن چاہیے؟راستے میں شہر کے قریب ایک بڑا قبرستان تھا۔ اس میں ملنگوں کا ڈیرہ تھا اور یہاں لوگ بھنگ پیتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر دونوں تذبذب میں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے۔ دونوں نے کوئی بات نہ کی۔ وہ ڈیرے میں داخل ہوگئے۔ دونوں خوب جی بھر کر بھنگ پیتے ہیں۔آخر دونوں کی مت ماری گئی تو وہ اول فول بکنے لگے۔ اس نے بڑی شان سے دو روپے نکالے اور بڑے ملنگ کے سامنے رکھ دیے۔

دونوں گم سم چلتے بازار تک پہنچے۔ انہیں سخت بھوک لگ رہی تھی۔ وہ ایک دکان میں گئے اور وہاں جو سمجھ میں آیا، کھانے کے لیے منگوایا۔ گوشت، سبزی، پوریاں، تلی مچھلی اور حلوہ۔۔۔ خوب پیٹ بھر کر کھایا اور اس پر اٹھ روپے خرچ ہوگئے۔۔۔ کھانے کے بعد گھیسو کو محسوس ہوا کہ آج کتنا اچھا دن ہے، جو بیس سال کے بعد آیا۔۔۔ چودھری کی شادی کے بعد، مادھو کی بیوی کے مرنے کا دن۔ کھانے کے بعد مادھو کفن کے بارے میں اپنے باپ سے پوچھتا ہے۔ باپ کہتا ہے ،

’’کہہ دیں گے ، جیب سے روپے گر گئے، بہت ڈھونڈا کہیں نہیں ملے۔تو پریشان نہ ہو، اسے کفن ملے گا اور ضرور ملے گا۔ وہی لوگ اسے کفن دیں گے، جنھوں نے ہمیں کفن لانے کے لیے پیسے دیے تھے۔ اگر ہم تین دفعہ روپے لے کر انہیں کھا جائیں تو بھی چوتھی دفعہ اس عورت کو کفن ملے گا۔۔۔یہ میرا ساٹھ سالہ تجربہ مجھے سمجھا رہا ہے۔۔۔ تم ابھی بچے ہو، سمجھ جاؤ گے۔‘‘ دونوں، باپ بیٹا لہراتے ہوئے دکان سے نکلے اور گاؤں کی طرف چل دیے۔

یہ کہانی ان لوگوں کی زندگی کا نفسیاتی جائزہ ہے جو انسانی زندگی کے دائرے سے باہر کسی اخلاقی، اقتصادی یا معاشرتی اثریا دباؤسے آزاد زندگی گزارتے ہیں ۔ اگر سماج انھیں قبول نہیں کرتا تو وہ بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ زیست کی اس سطح پر جیتے ہیں جہاں وہ ہر فرض سے بے نیاز صرف اپنی زندگی کی رمق کو برقرار رکھنے کو ہی اولین ہدف سمجھتے ہیں۔ یہ کہانی جو تائثر پیدا کر تی ہے وہ شاید لمبے چوڑے عمرانی جائزے سے بھی ممکن نہیں۔