اسلام اور مساجد سے متعلق مزید قوانین کا مطالبہ

جرمن چانسلر میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت کے ایک مرکزی رہنما نے ملک میں اسلام اور مساجد سے متعلق مزید قوانین کا مطالبہ کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ملک کی تمام مساجد میں خطبے جرمن زبان میں دیے جانا چاہییں۔

چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں موجودہ وفاقی حکومت ایک وسیع تر مخلوط حکومت ہے، جس میں سوشل ڈیموکریٹس کے علاوہ دونوں قدامت پسند یونین جماعتیں کرسچین ڈیموکریٹک یونین اور کرسچین سوشل یونین بھی شامل ہیں۔

ان میں سے میرکل کی اپنی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو ہے، جس کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان میں ژینس شپاہن بھی شامل ہیں۔ اس کرسچین ڈیموکریٹ سیاستدان کو سی ڈی یو کا ایک ’ابھرتا ہوا اور متاثر کن‘ سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے۔

ژینس شپاہن نے جمعرات تیس مارچ کے روز جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی کو اسلام سے متعلق ایک ایسے نئے قانون کی ضرورت ہے، جو ملک میں مسلم مذہبی برادری کی ذمے داریوں اور  حقوق کا احاطہ کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے رکن ملک میں، جہاں مسیحیت کے بعد اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، اس امر کو یقینی بنانا لازمی ہے کہ جرمن مساجد میں جو تعلیم یا خطبے دیے جا رہے ہیں، وہ ’شفاف اور ریاستی قوانین کے مطابق‘ ہوں۔

ژینس شپاہن کے مطابق یہ جرمن ریاست کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ ملکی مساجد میں کیا کچھ ہو رہا ہے اور ان مسلم عبادت گاہوں میں مذہبی خطبے اگر جرمن زبان میں دیے جائیں گے، تو یوں اس سلسلے میں پائے جانے والے کسی بھی قسم کے تعصب کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔

کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے اس سیاستدان نے یہ بھی کہا کہ جرمن مساجد کے آئمہ کے لیے جرمن زبان کے امتحانات کا طریقہ کار بھی متعارف کرایا جانا چاہیے۔ ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ ان مساجد میں جو آئمہ خطبے دیتے ہیں، وہ اکثر بیرون ملک سے آتے ہیں، وہ جرمن زبان نہیں بول سکتے اور انہیں تنخواہیں بھی دوسرے ممالک ادا کرتے ہیں۔

یہ مطالبہ کرتے ہوئے کہ جرمنی میں تمام مساجد کو رجسٹر کیا جانا چاہیے، ژینس شپاہن نے کہا کہ حکام کو یہ علم ہی نہیں کہ ملک میں کل کتنی مساجد ہیں، وہ کہاں کہاں ہیں اور ان کے لیے مالی وسائل کون مہیا کرتا ہے۔

سی ڈی یو کے اس رہنما نے یہ بھی کہا کہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی نمائندگی کی کوئی روایت موجود ہی نہیں۔ ان کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی نمائندہ وہ سیاسی اور سماجی تنظیمیں جن کے ساتھ حکومت ماضی میں مل کر کام کر چکی ہے، بہت ’قدامت پسند اسلام‘ کی نمائندگی کرتی ہیں۔

شپاہن نے، جو اپنے عقیدے کے اعتبار سے ایک کیتھولک مسیحی ہیں، کہا کہ ایسی قدامت پسند اسلامی تنظیمیں مسلمانوں کی محض ایک اقلیت کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسی لیے حکومت کے ساتھ اشتراک عمل کے لیے وہ ’غلط پارٹنر‘ ہیں۔

جمعرات کو شائع ہونے والے اس انٹرویو میں ژینس شپاہن نے، جو جرمنی کے نائب وزیر خزانہ بھی ہیں، کہا کہ جرمن مساجد کے آئمہ، مذہبی استادوں اور سماجی مشاورت کرنے والے ماہرین کے لیے سرکاری رقوم کے ذریعے باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔

انگیلا میرکل کی پارٹی کے اس رہنما نے زور دے کر کہا کہ اس بارے میں جرمنی میں بحث ایک چیلنج ہو گی کہ آیا اس تربیت کے لیے عوامی شعبے کی رقوم استعمال کی جانا چاہییں۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا، ’’میں پسند کروں گا کہ یہ رقوم ہم خود فراہم کریں، بجائے اس کے کہ یہی مالی وسائل سعودی عرب یا ترکی سے آئیں‘‘۔

شپاہن نے یہ بھی کہا کہ جرمنی میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عقیدوں کے پیروکار ایسے مسیحی شہری، جو کلیسائی ارکان بھی ہیں، اپنی تنخواہوں میں سے ماہانہ ’چرچ ٹیکس‘ بھی ادا کرتے ہیں۔ شپاہن کے مطابق اگر مقامی مسلم برادری چاہے تو ’چرچ ٹیکس‘ کی طرح کے ایک ’مسجد ٹیکس‘ کا متعارف کرایا جانا بھی ممکن ہے۔ ’’اگر جرمنی میں مسلمان اپنے لیے مذہبی ٹیکس سے متعلق کوئی نیا خصوصی قانون چاہیں، تو ریاست کو اس پر بھی ان سے بات کرنا چاہیے‘‘۔

جرمن معاشرے میں مسیحی اکثریت اور مسلم اقلیت کے مابین روابط اور مکالمت کے حوالے سے ژینس شپاہن نے مقامی مسیحی کلیساؤں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا، ’’یہ کلیسا اسلام کے بارے میں تنقیدی سوچ سے اکثر بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بس کبھی کبھار کسی افطار استقبالیے میں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اکٹھی لی گئی کوئی تصویر، جس کے بعد دونوں پھر اپنے اپنے راستوں پر چل نکلتے ہیں، یہ سلسلہ زیادہ دیر تک تو نہیں چل سکتا‘‘۔

DW

Comments are closed.