نیا نہیں بلکہ جناح کا بیانیہ چاہیے

ارشد بٹ ایڈووکیٹ

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں اسمبلی کے پہلے صدر اور نامزد گورنر جنرل کی حیثیت سے نئی مملکت پاکستان کے آئینی، قانونی، سیاسی، مذہبی اور سماجی بیانیہ کے خدوخال واضح کر دئے تھے۔ قائد کا آئین ساز اسمبلی سے یہ خطاب پاکستان کے مجوزہ آئین سے متعلق ایک سوچا سمجھا پالیسی ساز بیانیہ تھا۔

قائد کا بیانیہ ایک جدید جمہوری اور قومی ریاست کا تصور ہے جس کے مطابق ملک میں بسنے والا ہر انسان بلا امتیاز عقیدہ و مذہب، رنگ و نسل، لسان اورعلاقائی وابستگی کے، مملکت پاکستان کا مساوی حقوق رکھنے والا شہری تصورہوگا۔ آئین اورقانون کی نظر میں ریاست کے ہر شہری کو برابر کے انسانی، جمہوری، سیاسی، مذہبی اور ثقافتی حقوق حاصل ہونگے۔ شہریوں کو اپنے حقوق کے حصول اور فرائض کی ادائیگی کے راستے میں انکا مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل، لسان اور علاقائی وابستگی رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔ قائد کے خیالات کے مطابق پاکستانی ریاست کو شہریوں کے مذہبی عقائد سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔ ہر شہری اپنے مذہبی عقاید پر عمل کرنے میں مکمل آزاد اور با اختیارہو گا۔

بانی پاکستان کی وفات کے بعد اسوقت کے کوتاہ بین حکمرانوں نے اسی آئین ساز اسمبلی سے”قرار داد مقاصد” منظور کراکے جناح کے قومی ریاست کے تصور سے انحراف کی بنیاد رکھ دی۔ بعد ازاں جنرل ضیا نے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا کر پاکستان کو ایک قومی ریاست بنانے کے عمل کی راہ میں پہاڑ کھڑا کر دیا۔ جبکہ جنرل ضیا کی اسلامائزیشن نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کی برکت اور وھابی فکر کے زیراثر سوویت یونین کے خلاف نام نہاد

جہاد نے قائد کے جمہوری اور قومی ریاست کے وژن سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ ضیا اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اقتدار کو طول دینے اور امریکی سامراجی مفادات کے تحفظ کی سیاسی پالیسی کو ریاست کے سیاسی اور مذہبی بیانیے کی شکل دے دی۔

پاکستان اپنے بانی قائد کے تصورات کے مطابق قومی ریاست نہ بن سکا۔ سامراج کے کاسہ لیس، تنگ نظر اور مفاد پرست حکمران اور طالع آزما فوجی آمر اسلام کے نام پر اپنے اقتدار اور مفادات کی دکان چمکاتے رہے۔ قائد اعظم کے قومی ریاست کے

تصور کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان پرایک ایسی سیاسی اورمذہبی فکر مسلط کر دی جس نے ملک کی سیاست، سماج، ثقافت اور مذہب میں تنگ نظری، متشدد فرقہ پرستی، فکری انتشاراورانتہا پسندی کی پرورش کرنا شروع کر دی۔ ملک کے طول وعرض میں متشدد اور نفرت انگیز فرقہ پرستی، اور دہشت گردی کے بہیمانہ واقعات، جس نے ہزاروں معصوم انسانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا، اسی سیاسی اور مذہبی ریاسی بیانیے کا کیا دھرا ہے۔

پاکستانی ریاست کا مروجہ بیانیہ جنرل ضیا کے سیاسی اور مذہبی بیانیے کا تسلسل ہے۔ اسلامائزیشن اور نام نہاد افغان جہاد سے جنرل ضیا کےآمرانہ اقتدار کو برقرار رکھنے میں مدد ملی، ملک نے مغربی سامراجی آقاوں کی غلامی اختیار کر لی، مذہبی رواداری اور برداشت کا جنازہ نکل گیا، وہابی مذہبی فکر کے زیراثر مذہبی شدت پسندی، فرقہ پرستی اور دہشت گردی انتہاوں کو چھونے لگی، مذہبی اقلیتوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا۔

وزیراعظم نواز شریف کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست جنرل ضیا کے بیانیے سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا سوچ رہی ہے۔ دراصل سامراجی قوتوں کے مفادات کے لئے اور انکی مدد سے تشکیل کردہ شدت پسند مذہبی عفریت بدلی ہوئی دنیا میں اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ پھر پاکستانی حکمرانوں کے لئے یہ منعفت بخش کاروبار بھی نہیں رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ عفریت طاقتور اور بے قابو ہوکر اپنے ہی خالقوں کی گردنیں اڑانے کے در پے ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکمران، اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں بانی پاکستان کے وژن کے مطابق ملک کو ایک قومی اور جمہوری ریاست بنانے کے لئے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ اس بات کے عملا شواہد ابھی کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔

ضیا کے مذہبی فکری بیانیے سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی راہ میں کئی آئینی، قانونی، سیاسی اور سماجی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مگر حکمران طبقوں، اسٹبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں میں سیاسی قوت فیصلہ کا فقدان اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ متشدد مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کا ناسور دہشت گردی کی پرورش کرتا ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف تو مسلح کاروایئاں جاری ہیں۔ مگر حکمران طبقے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرنے سے معذور ہیں۔ جناح کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملکی آئین اور قوانین میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جن کی موجودہ حکمرانوں سے توقع عبث ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر حالیہ تقاریر پر انکی تعریف اور توصیف تو کرنی چاہے۔ مگر مذہبی اقلیتوں کے مساوی حقوق یقینی بنانے اور انکے خلاف آئے دن مذہبی شدت پسندوں کی متشدانہ خونی کاروائیاں کا خاتمہ کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کو اس سلسلہ میں حکمرانوں سے کسی ٹھوس اور فیصلہ کن قدم اٹھائے جانے کی بہت کم توقع ہے۔

مگر قومی سوچ رکھنے والے افراد ملک میں یکساں تعلیمی نصاب اور نظام رائج کرنے کا کم از کم مطالبہ ضرور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی آئینی یا قانونی رکاوٹ نہیں کہ ملک کے تمام سکولوں اور مدرسوں میں دسویں جماعت تک یکساں تعلیمی نصاب اور نظام لازمی قرار دے دیا جائے۔ یہ ایک ایسا بنیادی قدم ہو گا جو نئی نسلوں کو ایک قومی سوچ کے دھارے میں لا نے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

حکمران نہ جانے کس خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ ملک میں متشدد فرقہ پرستی اور انتہا پسندی پھیلانے والے چند مدرسوں اور انکے پشت پناہوں کے خلاف کاروائی کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ وہابی فکر کے زیر اثر مذہبی گرو ہوں کو نفرت انگیز سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہے۔ انکو مالی ذرائع فراہم کرنے اور پناہ گاہیں فراہم کرنے والے بلا روک ٹوک یہ کاروائیاں سر انجام دے رہے ہیں۔ بیرون ملک، خصوصاً مشرق وسطی سے ان گروہوں کو مالی معاونت کی فراہمی جاری ہے۔ مگر حکومتی اداروں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

حالات کے مد نظر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ قائد اعظم کے وژن کا پاکستان تعمیر کرنے کے لئے ایک طویل اور جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ قائد کا بیانیہ ایک قومی اور جمہوری ریاست کا منشور ہے جس میں انسانی اقدار اور حقوق کی پاسداری، انسانی برابری، اقلیتوں کے مساوی حقوق اور مذہبی رواداری کے اصول کار فرما ہیں۔

بانی پاکستان کے وژن کی موجودگی میں کسی عالم فاضل یا دانشور سے نام نہاد نیا بیانیہ ترشوانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

Comments are closed.