قرار داد لاہور اور مولوی اے۔کے فضل الحق

لیاقت علی

کوئی 77سال قبل 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ منٹو پارک لاہور میں ایک قرار دادمنظور کی گئی جسے آج ہم’ قرار داد پاکستان‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس قرار داد میں پہلی دفعہ مطالبہ پاکستان کو آئین اور قانون کی اصطلاحات میں بیا ن کیا گیا تھا۔ قبل ازیں مسلم علیحدگی پسندی بطور تحریک تو موجود تھی لیکن اس کے ممکنہ آئینی اور قانونی خد و خال واضح نہیں تھے۔

قرار داد لاہور میں مجوزہ پاکستان کو ہندوستان کے جن علاقوں، خطوں اور صوبوں پر مشتمل ہونا تھا ان کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس قرار داد کا مصنف کون تھا اس بارے میں متضاد دعاوی موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد برطانوی سرکاری کے ایما پر سر ظفر اللہ خاں نے ڈرافٹ کی تھی اور اس کا مقصد کانگریس سے سیاسی سودے بازی تھا ۔

معروف مسلم لیگی رہنما ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شریک تھے انھوں نے لکھا ہے کہ جس دن یہ قرار داد اجلاس میں پیش ہوئی تھی اس دن بھی یہ امر زیر بحث تھا کہ یہ قرار داد کس نے ڈراٖفٹ کی تھی کیونکہ اس قرارداد میں بڑے واضح انداز میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی بات کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں دو آزاد مسلمان ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

لیکن 9اپریل1946کو نئی دہلی میں مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے نو منتخب ارکان اور لیگی عہدیداروں کے کنونشن میں قرار داد لاہور سے انحراف کرتے ہوئے ’ایک ریاست‘ کی قرارداد منظور کر الی گئی حالانکہ اس کنونشن کو قرار داد لاہور کے مندرجات میں تبدیلی کوئی آئینی اختیا ر حاصل نہیں تھا۔مزید براں لیگی کنونشن کی منظور کردہ اس قرار داد میں مذکورہ صوبوں کے علاقوں میں رد و بدل کا کوئی ذکر نہیں تھا جب کہ قرار داد لاہور میں کہا گیا تھا کہ مناسب علاقائی رد وبدل کے بعد شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں دو آزاد اور خود مختار مسلم ریاستیں قائم کی جائیں۔

مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد کرانے اور اس اجلاس میں ’دو آزاد اور خود مختار ریاستوں ‘ کے قیام کی قرار داد منظور کرانے میں دو شخصیتوں نے بہت اہم رول ادا کیا تھا ۔ ان میں ایک پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات اور دوسری شخصیت بنگال کے وزیر اعظم مولوی اے ۔کے فضل الحق کی تھی۔یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا سیاسی سرگرمیوں پا پابندی عائد تھی۔ ہندوستان کو برطانوی سرکار نے جنگی عمل کا حصہ بنادیا تھا ۔

برطانیہ کی اس پالیسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کانگریس کی آٹھ صوبائی حکومتیں نومبر 1939 میں مستعفی ہوچکی تھیں لیکن پنجاب اور بنگال کے وزرا ئے اعظم سر سکندر حیات اور مولوی اے ۔کے فضل الحق نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا تھا بلکہ یہ دونوں بڑھ چڑھ انگریزسرکار کی جنگی مساعی میں حصہ لے رہے تھے۔ پنجاب سے ہزاروں نوجوان بر طانوی فوج میں بھرتی ہوکر جنگ کا ایندھن بن رہے تھے۔

ان حالات میں منٹو پارک لاہور میں مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ ہونے جارہا تھا ۔ سٹیج پر صوبے کا وزیر اعظم براجمان تھا۔ لہذا حاضرین کی موجودگی کا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سرکاری وسائل اور اہل کار جلسے میں حاضرین کو لانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ نہیں بلکہ پنجاب حکومت کی طرف سے سیاسی طاقت کا اظہار تھا۔ یہ اجلاس ان سیاسی قوتوں کے خلاف منعقد ہورہا تھا جو دوسری عالمی جنگ میں ہندوستان کی شمولیت کے خلاف تھیں اور اس کے منتظمین وہ تھے جو ہندوستان کی انگریز سرکار کے ایما پر دوسری عالمی جنگ میں بر طانیہ کو مدد و تعاون فراہم کرنے کے حامی تھے۔

قرار داد لاہور بنگال کے وزیر اعظم اے۔کے فضل الحق نے پیش کی تھی جنھیں عام طور پر ’شیر بنگال‘ بھی کہا جاتا تھا ۔متلون مزاجی ، موقع پرستی اور سیماب پائی مولوی فضل الحق کی شخصیت کی اہم خصوصیات تھیں۔ مولوی فضل الحق نے اپنے کئیر یر کا آغاز پہلے پہل کالج ٹیچر کے طور پر کیا تھا۔ بعد ازاں وہ ڈپٹی مجسٹریٹ بھرتی ہوگئے تھے۔ تھوڑے عرصے بعد انھوں نے ملازمت سے مستعفی ہوکر کلکتہ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کر دی تھی۔

مولوی فضل الحق عوامی جلسوں میں حاضرین کے جذبات سے کھیلنے کا فن خوب جانتے تھے۔ جذباتی اور لچھے دار تقریریں کرنے کے وہ بہت ماہر تھے۔اپنی چرب زبانی اور جذباتی انداز سیاست کی بدولت وہ 1913میں ڈھاکہ کے ایک صوبائی حلقے سے ضمنی الیکشن میں بنگال کونسل کے رکن منتخب ہوگئے تھے۔1913کے بعد مولوی فضل الحق کی سیاسی زندگی تضادات سے بھرپور رہی۔ سیاسی ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اپنا رخ موڑ لینا اور سیاسی اور جماعتی وابستگی کی دھجیاں اڑانا ان کامرغوب مشغلہ تھا ۔

یہ اپنے وقتی شخصی مفادات کے پیش نظر مسلم لیگ،کانگریس،تحریک خلافت اور سوراج پارٹی سے منسلک رہے۔ انھوں نے کرشک پرجا پارٹی کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بھی تشکیل دی تھی ۔یہ وزارتی عہدہ حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔1935میں وہ کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے مئیر منتخب ہوگئے لیکن 1936 میں انھیں مستعفی ہونا پڑ ا تھا کیونکہ کارپوریشن کے تمام مسلمان ارکان ان کے مخالف ہوگئے تھے۔

سنہ1937 کے صوبائی انتخابات مولوی فضل الحق نے اپنی سیاسی جماعت کرشک پرجا پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑے اور بنگال اسمبلی میں ان کی جماعت کو چالیس نشستیں ملی تھیں۔ ان دنوں ان کے اور محمد علی جناح کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ تھے کیونکہ نومبر 1936 میں جناح نے مولوی فضل الحق کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کی رکنیت سے برطرف کر دیا تھا۔ اسی بنا پر کرشک پرجا پارٹی کے امیدواروں نے مسلم لیگی امیدواروں کا انتخاب میں ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔

مولوی فضل الحق دوسری عالمی جنگ میں انگریزوں کی ہندوستان سے بھرتی اور خام مال کی شکل میں بھرپور مدد فراہم کرنے کے پرجوش حامی تھے۔ اپنے اس موقف کی بنا پر ان کے اور جناح کے مابین اختلافات شدید ہوگئے ۔ وہی ’شیر بنگال ‘ جو مارچ1940میں علیحدہ ملک کے حصول کی قرارداد پیش کرتا ہے جون کے آتے آتے جناح کو ’بدترین آمر‘ قرار دے دیتا ہے ۔29 ستمبر 1940 کوپنجاب کے وزیر اعلی سر سکندر حیات نے بھی اپنے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ ’پاکستان کی سکیم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس سلسلے میں ان کے خلاف غلط، بلا جواز اور بے بنیاد الزامات عائد کئے جارہے ہیں ‘۔

مولوی فضل الحق ،جناح سے کس قدر ناراض تھے اس کا اندازہ ان کے اس خط ( 8 ۔ستمبر 1941)سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی خاں کے نام لکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ’ مسلم لیگ میں جمہوریت اور خود مختاری کے اصولوں کو فرد واحد کی آمرانہ خواہشات پر قربان کیا جارہا ہے‘ ۔1946 کا الیکشن جس کی بنیاد پر ہندوستان تقسیم اور پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا مولوی فضل الحق نے مسلم لیگ کی بجائے اپنی سیاسی جماعت کرشک پرجا پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑا تھا ۔

قیام پاکستان کے بعد وہ ڈھاکہ منتقل ہوگئے تھے۔ پہلے وہ ایڈووکیٹ جنرل بن گئے پھر مستعفی ہوکرانھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا ۔ جب مسلم لیگ کے خلاف مشرقی بنگال کی متعدد سیاسی جماعتوں نے یونائیٹڈ فرنٹ تشکیل دیا تو وہ اس کے قا ئدین میں شامل ہوئے۔ صوبائی الیکشن میں مسلم لیگ کو شکست دینے کے بعد وہ فرنٹ کی طرف سے مشرقی بنگال کے وزیر اعلی بنے لیکن جلد ہی ان کی حکومت کو توڑ دیا گیا اور مغربی پاکستان کی سول اور ملٹری بیورو کریسی نے انھیں ’غدار‘ ڈیکلیر کر دیا ۔

ایک ایسا شخص جس نے قرارداد پاکستان پیش کی تھی وہ پاکستان میں’ غٖدار‘ قرار دیا گیا ۔ مولوی فضل الحق مشرقی بنگال کے گورنر اور وفاقی کابینہ میں وزیر داخلہ بھی رہے ۔ مولوی فضل الحق 1962میں ایک مایوس انسان اور سیاست دان کے طور پر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

One Comment