برصغیر کی تاریخ کا اہم سنگ میل 

آصف جیلانی

پورے۷۷ برس قبل چوبیس مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے بر صغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔ 

گو قرار داد لاہور کو عام طور پر قرارداد پاکستان کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قرارداد میں کہیں بھی پاکستان کا نام رقم نہیں تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قرارداد میں برصغیر میں مسلمانوں کی واحد مملکت کے بجائے دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس میں چھ سال بعد اس انداز سے ترمیم کی گئی کہ اس پر بنگال کے رہنما سراپا احتجاج بن گئے تھے۔
ان اہم پہلووں کے تفصیلی ذکر سے پہلے، ان حالات اور پس منظر پر نظر ڈالنی بہت ضروری ہے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا۔

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں انیس سو چھتیس/ سینتیس میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔ 

کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔

غرض ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں مسلم لیگ ایسا محسوس ہوتا تھا، برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔ 

اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔

اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔

اسی دوران دوسری عالم گیر جنگ کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ تین روزہ اجلاس بائیس مارچ کو شروع ہوا۔

اجلاس سے چار روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ پینتیس کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور پنجاب میں مسلم یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا لیگ کی اتحادی جماعت کا اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔ 

موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔

دوسرے دن انہی خطوط پر تئیس مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔ 

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد چوبیس مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
یہ قابل ذکر بات ہے کہ اس قرارداد میں پاکستان کا قطعی کوئی ذکر نہیں تھا۔ دراصل یہ ہندو پریس تھا جس نے دوسرے روز نمایاں طور پر جو خبریں شائع کیں ان میں اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ یہ نام درحقیقت انگلستان میں مقیم ایک وکیل چوہدری رحمت علی نے برصغیر میں مسلم اکثریت والے علاقوں پر مشتمل ایک الگ مملکت کے قیام کے بارے میں اپنے منصوبے میں تجویز کیا تھا۔ 

اس وقت تک مسلم لیگ نے اس نام کو قبول نہیں کیا تھااور لاہور اجلاس میں مسلم لیگ کی قیادت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قرارداد لاہور میں وہ مسلمانوں کے الگ وطن کے لیئے جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کا نام پاکستان ہوگا۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ چوہدری رحمت علی لاہور میں مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے کیمبرج سے ہندوستان روانہ ہوئے تھے اور ابھی کراچی پہنچے تھے کہ انہیں لاہور جانے سے روک دیا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا۔ 

ایک مملکت یا دومملکتیں ؟
قراردادِ لاہور کا ایک اور اہم پہلو جس پر اب بھی بحث جاری ہے ، وہ یہ ہے کہ اس میں واضح طور پر بر صغیر میں دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک شمال مغرب میں مسلم اکثریت والے علاقوں میں اور دوسری شمال مشرق کے مسلم اکثریت والے علاقوں میں۔ پھر ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ قرار داد لاہور میں پاکستان کے نام سے واحد مملکت کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔

ایک سال بعد اپریل سن اکتالیسں میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی سات اپریل سن انیس سو چھیالیس کی دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔ 

یہ بات بے حد اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کریا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔

قراردادِ لاہور کے مسودہ کا خالق کون تھا؟
غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قراردادِ لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔

سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودے میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت(یونین)کے تحت عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔ 

سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے گیارہ مارچ سن اکتالیس کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندو راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسی بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ 
سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن بیالیس میں پچاس سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی۔

سن چھیالیس کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسن شہید سہرودی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائید کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سن اکتالیس ہی میں مسلم لیگ سے خارج کردیا گیا تھا۔

دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔

ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورااختیار ہوگا۔ 

لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن چھپن میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔ 

پچیس سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن اکہتر کی خوں ریزی اور بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ۷۷ سال قبل قرارداد لاہور میں کیا گیا تھا۔

Comments are closed.