انڈیا کی نہیں،اپنی فکرکیجیے

ایاز امیر

کیا ہمیں اس سے کوئی سروکار ہونا چاہیے کہ نریندر مودی ایک انتہا پسند ہندو ہیں اور وہ انڈیا کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ ہم خود ایک انتہا پسند مسلم ریاست ہیں۔ آپ ذرا لفظ سیکولر‘‘ منہ سے نکال کر دیکھیں، یا یہ کہیں کہ مذہب اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں تو ہم میں سے اکثر یا تو خائف ہوجائیں گے، یا اُن کا ہاتھ قریب پڑے کسی ڈنڈے کی طرف بڑھ جائے گا۔ چنانچہ اگر موجودہ حکمران انڈیا کو سیکولرازم کے راستے سے دور لے جاتے ہوئے ایک ایسی ریاست بنانے جارہے ہیں جہاں مذہب اور ہندو بالا دستی کا بیانیہ غالب ہوگا تو ہمیں پریشان ہونے کی بجائے خوش ہونا چاہیے کیونکہ انڈیا نے بھی اسی راہ پر قدم بڑھانا شروع کردیے ہیں جس پر ہم بہت تندہی سے ایک طویل عرصے چلے آرہے ہیں۔

پاکستان کے قیام کا اصول اسلام کی عظمت تھی، اور مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کا نظریہ ایک الگ اسلامی ریاست کے مطالبے کی وجہ بنا۔ہمارا یقین تھا کہ ہم دو الگ قومیں ہیں اور ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، لہٰذا ہمیں ایک الگ وطن حاصل کرنا چاہیے ۔ ہم اپنے مطالبے میں کامیاب رہے اور انڈیا تقسیم ہوگیا۔ انڈیا کے بانیوں نے سیکولرازم کو اپنی ریاست کی اصولی بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے اپنے آئین کا حصہ بنالیا۔ تاہم دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے افراد کی نظر میں جو کہ راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ (آر ایس ایس )، جیسی تنظیموں کے پرچم تلے سیکولرازم کے خلا ف آواز اٹھاتے تھے ، بھارت ایک ہندو ریاست تھی‘ جس میں ہندوتوا کے اصول کو رہنما حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔ یاد رہے، نریندرمودی کی بی جے پی کے پیچھے نظریاتی قوت یہی آر ایس ایس ہے۔ 

جب تک کانگرس اقتدار میں رہی ، آر ایس ایس اور اس کے دائیں بازو کے پیروکار انڈین سیاست کے دھارے کے باہری کنارے پر رہے ۔ وہ مرکزی سیاست سے الگ، اپنی موجودگی رکھتے، عسکری مشقیں کرتے اور جنونی نعرے بلند کرتے لیکن اُنہیں سنجیدگی سے نہ لیا جاتا۔ لیکن یہ تب کی بات ہے ، آج صورت ِحال مختلف ہے، اور بھارتی سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے ۔ کناروں پر موجود دائیں بازو کے عناصر آج مرکزی دھارا بن کرپوری طاقت سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ بھارتی آئین میں سکیولرازم ابھی بھی موجود ہے لیکن امریکہ کی طرح، جہاں آئین اور قانون ابھی تک ویسا ہی ہے لیکن ٹرمپ کے صدر بننے سے امریکہ کے اطوار تبدیل ہوچکے ہیں ، بھارت بھی نریندر مودی کے آنے سے ایک مختلف روپ دھار چکا ہے ۔ اب انڈیا کا جھکاؤدائیں بازو کی طرف ہے اوراس نظریے کو پوری شدت سے پھیلایا جارہا ہے کہ انڈیا ہندو اکثریت کا ملک ہے ۔ اترپردیش (یوپی) کے انتخابات میں بی جے پی کی واضح کامیابی ایک اہم پیش رفت کے طور پر انڈیا کی تبدیلی پر مہر ِ تصدیق ثبت کرتی ہے ۔ 

یہ عوامل جو ہندوستان میں آج نظر آرہے ہیں، ہمیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہیے ۔ ہم تو اس راہ پر پہلے ہی گامزن تھے جس پر آج ہندوستان پر چل رہا ہے ۔ ایک اہم فرق البتہ اپنی جگہ پر موجود ہے ۔نائن الیون کے بعد مذہبی انتہا پسندی نے ایک خاص روپ دھار لیا کیونکہ اس سے وابستہ ایسی چیزیں تھیں جیسا کہ تشدد ، بم دھماکے اورجہاد۔ دوسری طرف ہمارے لیے تو ہندو انتہا پسندی ایک باعث تشویش عمل ہوسکتا ہے لیکن باقی دنیا اسے دلچسپ اور انوکھی رسومات کا مرقع سمجھتی ہے ۔

القاعدہ نے جہاد ‘‘ کو ایک عالمی جہت عطاکردی تو داعش نے اس میں مزید سفاکیت بھر دی۔ دوسری طرف ہندو انتہا پسندی کا نشانہ نہ تو مغربی دنیا ہے اور نہ ہی مسیحیت، بلکہ اس کی نفرت کا ہدف عمومی طور پر دنیا کے مسلمان بھی نہیں۔ اس کا ہدف صرف اور صرف انڈین یا پاکستانی مسلمان ہیں۔ چنانچہ اگر ہندو انتہاپسند دعویٰ کریں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا ضروری ہے تو باقی دنیا کو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ 

مزید یہ کہ ہندوازم کے تصورکو، چاہے معتدل ہو یاانتہا پسند، کی حدت موسیقی، رقص اور یوگا کی چاشنی کم کردیتی ہے ۔ اترپردیش کے نئے وزیر ِاعلیٰ ، یوگی ادیتیاناتھ ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے آتش بدہن ہو ں، لیکن باقی دنیا کے لیے کلین شیو سر اور زعفرانی رنگت کا لبادہ زیب تن کیے خوف اور دہشت کی علامت کی بجائے پرلطف تجسس کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ ہاں یوپی کے مسلمان، جو اُنہیں اور ان کی سیاست کو جانتے ہیں، اُنہیں دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے ، لیکن باقی دنیا یوپی کے مسلمانوں کی مشکلات کی پروا کیوں کرے ؟

اتر پردیش کے مسلمان تاریخ کے ستم زدہ ہیں ۔ یہ خطہ بھارتی مسلمانوں کی تہذیب کا مرکز تھا۔ اس کے ساتھ وابستہ کلچرکی ہر چیز، جیسا کہ شاعری ، رقص، گفتگو اور شاندار رہن سہن کا نقطہ عروج دہلی اور لکھنو میں دیکھنے میں آیا۔ مسلمان اشرافیہ اس تہذیب کی مشعل بردارتھی، اوراسی نے سب سے پہلے پاکستان کے نعرے کو اپنایا اور تحریک ِ پاکستان کا ہراول دستہ بنی۔ تقسیم کے بعد وہ، یا ان میں سے کچھ ، پاکستان ہجرت کرکے آگئے ، لیکن جن کے پاس مالی وسائل زیادہ نہ تھے ، وہ وہیں رہ گئے ۔ یوپی کے موجودہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر انہی کم خوشحال مسلمانوں کی اولاد ہے ، اور درست قیادت سے محروم۔ آج انہیں بڑھتی ہوئی ہندوقوم پرستی کی عصبیت کا سامنا ہے ۔ اور ہندوقوم پرستوں کی نفرت کا نشانہ مسلمان بنتے ہیں۔ 

بی جے پی کے اعتماد، یا رعونت ، کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس نے کسی ایک نشست پر بھی کوئی مسلمان امیدوار کھڑا نہیں کیا ، حالانکہ مسلمان اس ریاست کی آبادی کا بیس فیصد حصہ ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے بی جے پی نے اس بات کو یقینی بنالیا کہ ہندو ووٹ اسے ہی ملے، بالکل جس طرح ٹرمپ نے خود کو سفید فام محنت کش، مزدورپیشہ طبقے کے ووٹ کا حق دار بنالیا تھا۔ اُدھر ٹرمپ کے لیے لبرل ‘ تصورات بے کار تھے ، اِدھر مودی کو مسلمانوں کے جذبات کا لحاظ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاریخ کا دھارا انہی خطوط پر بہتا ہے ، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

جب پاکستان کی ہنگامہ خیز تحریک چل رہی تھی تو حالات کے تیز تر بہاؤمیں ہمارے رہنماؤں کے پاس اُن مسلمانوں کے بارے میں سوچنے کی گنجائش نہیں تھی جو ہندوستان رہ جائیں گے ۔ اب تلخ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان کی آبادی فرض کریں دوسوملین ہے تو اتنے ہی مسلمان انڈیا میں بھی موجود ہیں، اور ان کی حالت ویسی نہیں جیسی ہونی چاہیے ، اب ہم اُن کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔ لیکن ہم اپنی حالت بہتر بنانے کے لیے تو کچھ کرسکتے ہیں۔ 

گھبرانے کی بجائے ہندوستان میں ہندو انتہا پسندی کے فروغ کو ہمیں ایک غنیمت اور موقع سمجھنا چاہیے۔اگر بھارت عدم برداشت کا حامل ایک شدت پسندانہ معاشرہ بننے کی طرف گامزن ہے ، اگر وہاں مذہبی عصبیت عروج پر ہے تو اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک روادار اور کھلا معاشرہ بن جائے ۔ ہم نے عدم برداشت اور تنگ نظری کو اپناشعار بنایا اورہم اس کا نتیجہ بھگت چکے ہیں۔مذہبی شدت پسندی اور سیکولرازم کے درمیان لڑائی انڈیا کا درد ِ سر ہے، ہمیں دوسری راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں عقیدے ، فرقے یا مسلکی اختلافات کی بنیاد پر جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ ہمیں معقول اور منطقی رویے اپنانے اورتعلیم پر زیادہ سرمایہ کاری کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔ ہمارا دہرا تعلیمی نظام ، جس میں ایک نظام غریب افراد کے لیے ہے اور دوسرا اشرافیہ کے لیے ہے، انتہائی شرمناک ہے ۔ جب تک ہم اس سے چھٹکارا نہیں پاتے، ہم ایک ترقی پسند قوم نہیں بن سکتے ۔ 

تاہم ایسی چیزیں خودبخود نہیں ہوجاتیں ،اس کے لیے قیادت درکار ہوتی ہے ۔ چنانچہ ضروری ہے کہ کوئی رہنما سامنے آئے اور قوم کو مہمیز دیتے ہوئے درست سمت رہنمائی کرے ۔ امریکہ نے ہمارے مسئلے حل نہیں کیے ، بلکہ انہیں مزید بگاڑا۔ اسی طرح چین بھی ہمارے مسائل حل نہیں کرسکتا، اور ہماری نجات کسی سی پیک جیسی چیز میں نہیں، ہمیں اپنی نجات خود ہی تلاش کرنی ہوگی۔ 

بشکریہ دنیا نیوز

One Comment