ٰمودی کا ہم زاد ، اتر پردیش کا وزیر اعلی

آصف جیلانی 

وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست ، اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ ، ہندو قوم پرستی ہندوتا کے علم بردار اورکٹر ہندو فرقہ پرست یوگی ادتیاناتھ کو مقرر کیا ہے، جو نریندر مودی کے ہم زاد کہلاتے ہیں۔ اتر پردیش کے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں403نشستوں میں312 نشستیں حاصل کرنے پر ، بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو زبردست تاریخی فتح حاصل ہوئی ہے ، اس کے بعد ، معلوم ہوتا ہے کہ مودی کا ایسا سینہ پھول گیا ہے کہ ان کے سامنے اب نروان کا واحد راستہ ہندو اکثریت کی خوشنودی ہے اور ریاست کے ۲۲ فی صد مسلمان ، محض نرپھل اور نردھنی (بے ثمر ) ہیں۔ یوں مودی کے سامنے سیاسی مصلحتوں کی کوئی رکاوٹ یا دیوار نہیں رہی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ44 سالہ گورکھ پور کے سب سے بڑے ناتھ مندر کے مہنت سوامی ادتیا ناتھ کو اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حکم پر وزیر اعلی مقرر کیا گیا ہے جس طرح2014میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حکم پر نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کیا گیا تھا۔۔ آر ایس ایس نے ایک لمحہ کے لئے بھی اس سلسلہ میں تردد نہیں کیا کہ سوامی کی تقرری کے ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر کیا نتائج مرتب ہوں گے اور ہندوستان کی سیاست پر اس کے کتنے گہرے سائے منڈلائیں گے۔ 

سوامی ادتیاناتھ ، ہندوستان میں اپنی فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندو مسلمانوں میں کشیدگی پھیلانے میں مشہور ہیں۔ہندوستان میں اور کوئی سوامی ، مسلمانوں کا اتنا بڑا دشمن نہیں جتنے کہ سوامی ادتیا ناتھ ہیں ، سوامی بننے سے پہلے اجے سنگھ بشت تھے ،ان کے چیلے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ سوامی جی سائنس میں گریجویٹ ہیں اور 1998 میں26سال کی عمر میں گورکھ پور سے لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے تھے اور برابر پانچ بار اپنی مقبولیت کی بنیاد پر لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی مقبولیت اور ان کے اثر کی اصل بنیاد گورکھ پور کا سب سے بڑامالدار ناتھ مندر ہے، جس کے سوامی جی ، مہنت ہیں۔ ان کے اثر کی ایک وجہ انکی تنظیم ہندو یووا واہنی ہے جو ہندو تشدد پسند تنظیم بجرنگ دل کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے ۔

سوامی ادتیا ناتھ ، ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری میں پیش پیش تھے ۔ انہوں نے 2005 میں بڑے پیمانہ پرجبراً عیسائیوں کا مذہب تبدیل کر کے انہیں ہندو بنانے کے مہم شروع کی تھی ۔ اس مہم کے دوران 1800 عیسائیوں کو ہندو بنایا گیا تھا۔ مسلمانوں کو بھی ہندو بنانے کی مہم سوامی جی نے گھر واپسی کے نام پر شروع کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے ، مسلمانوں کے خلاف سخت اشتعال انگیز تقریریں کی تھیں، اور رام زادہ اور حرام زادہ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ فروری1999میں مہاراج گنج کے گاوں پنج رخیا میں انہوں نے مسلمانوں کے قبرستان پر قبضہ کر کے وہاں پیپل کے درخت لگا دئے تھے جس کی وجہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت کشیدگی پھیل گئی تھی۔

سنہ2007میں ریاستی انتخابات سے پہلے سوامی ادتیا ناتھ کی اشتعال انگیز تقریروں سے گورکھپور میں مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے تھے، جس میں ایک مسلم نوجوان ہلاک ہوگیا تھا اور اسی الزام میں انہیں گرفتار کر کے پندرہ روز کے لئے قید کر دیا گیا تھا۔ سوامی کی اشتعال انگیز تقریوں کی وجہ سے2009 میں بھی گورکھ پور میں مسلمانوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے دوران کئی مساجد کو نذ آتش کر دیا گیاتھا۔ 

سنہ2015میں سوامی جی کو کیا سوجھی کہ انہوں نے کہا مسلمانوں کو یوگا کرنا چاہئے اور سوریہ نمسکار کہنا چاہئے۔ جب مسلمانوں نے کہا کہ وہ کسی صورت میں یہ بات تسلیم نہیں کریں گے تو سوامی جی نے کہا کہ جو لوگ سوریہ نمسکار کہنے سے انکار کریں انہیں ہندوستان سے چلے جانا چاہئے۔سوامی جی نے سوریہ نمسکار کہنے سے انکار کرنے والوں کو سمندر میں غرق کرنے اور انہیں عمر بھر ایک تاریک کمرے میں بند کرنے کی سزا تجویز کی۔

سنہ 2016 میں پٹھان کوٹ میں ہندوستان کی فضایہ کے اڈہ پر حملہ کا الزام سوامی ادتیا ناتھ نے پاکستان پر لگایا اور اس کے جواب میں پاکستان پر حملہ کامطالبہ کیا۔سوامی جی نے کہا پٹھان کوٹ پر حملہ نے پھر ایک بار یہ ثابت کر دیا ہے کہ شیطان کو تو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور راہ راست پر لایا جا سکتا ہے پاکستان کو نہیں۔ گذشتہ جنوری میں جب امریکا کے نئے صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلہ پر پابندی کی پالیسی کا اعلان کیا تو سوامی ادتیا ناتھ نے ٹرمپ کی بڑی تعریف کی اور ان کو شاباشی دی۔

پچھلے دنوں میڈیا پر بحث کے دوران۔ سوامی جی فلم اسٹار شاہ رخ خان پر برس پڑے اور کہا کہ شاہ رغ خان اور پاکستان کے حافظ سعید میں کوئی فرق نہیں ،جو ان کے خیال میں دہشت گرد ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاہ رخ خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں ہندو اکثریت نے فلم اسٹار بنایا ہے ، اگر اس اکثریت نے ان کی فلموں کا بایکاٹ کردیا تو وہ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ 
سوامی ادتیا ناتھ کو مودی کا ہم زاد ، محض ہندوتا اور ان کی ہندو قوم پرستی کی بنیاد ہی پر نہیں بلکہ مودی کے زمانہ میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور مشرقی یوپی میں ، سوامی ادتھیا ناتھ کی مسلم دشمنی کی بنیاد پر فسادات ، دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اتر پردیش کے حالیہ انتخابات کے بعد سوامی جی کی اشتعال انگیزی کی وجہ بریلی کی سڑکوں اور گلیوں میں ایسے پوسٹر چسپاں کئے گئے ہیں جن میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ہندوستان چھوڑ دیں ۔ ادھر بلند شہر میں سوامی جی کے حامیوں نے ایک مسجد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا پرچم لہرانے کی کوشش کی ہے۔

بہت سے مبصرین کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ نریندر مودی نے یہ جانتے ہوئے کہ سوامی ادتیا ناتھ نے کئی بار بھارتیہ جنتا پارٹی سے بغاوت کی ہے ،آخر انہیں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ کیوں مقرر کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مودی نے بہت سوچ سمجھ کر یہ جوا کھیلا ہے۔ انہیں اعتماد ہے کہ سوامی ادتیا ناتھ کے انتخاب سے ہندو اکثریت خاص طور پر ہندو تا کے حامی بہت خوش ہوں گے اور دو سال بعد عام انتخابات میں فتح کی راہ ہموار ہوگی۔ پھر مودی نے اتر پردیش میں برہمنوں، ٹھاکروں اور دلتوں سب کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوامی جی ٹھاکر ہیں ، ان کے ساتھ دو نائب وزیر اعلی بھی مقرر کیے ہیں۔ ایک دنیش شرما ہیں جو برہمن ہیں اور دوسرے ، کیشو موریا ہیں جو پسماندہ ذات دلت سے تعلق رکھتے ہیں۔یوں مودی نے ان تمام غیر مسلموں کو متحد کردیا ہے اور در اصل مسلمانوں کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کردیا ہے۔ 

جو لوگ اتر پردیش کی تاریخ سے واقف ہیں انہیں لا محالہ سوامی جی کے انتخاب پر اس لحاظ سے حیرت ہوئی ہے کہ کہاں ایک زمانہ میں اتر پردیش کے وزیر اعلی، نواب محمداحمد سعید خان چھتاری ، گووند بلب پنت، سوچیتا کرپلانی، سمپورن آنند، اور کملا پتی ترپاٹھی ایسی شخصیات رہی ہیں وہاں اب ان کے جانشین سوامی جی ایسے کٹر ہندو فرقہ پرست اور آر ایس ایس کے پرچارک ، بنے ہیں۔ 

3 Comments