ہانگ کانگ کے پاکستانی نژاد شہری

علی احمد جان

آج دنیا پر معاشی غلبے کے خواہش مندچینی کبھی افیون کی لت کا شکار تھے اور آج کی دنیا میں خود کو سب سے زیادہ مہذب کہلانے والے انگریز ان کو یہ موزی نشہ مہیا کیا کرتے تھے اور افیون کی چینوں سے تجارت کے لئے جنگیں بھی لڑیں ۔ انگریز وں کے چین کے ساتھ افیون بیچنے کے لئے لڑی جانے والی جنگوں میں چینیوں سے بطور تاوان لے کر جن جزیروں کو بطور بندرگاہ آباد کرکے ان کا نام ہانگ کانگ رکھ دیا گیا تھا وہ ۱۹۹۷ میں تاوان کے معاہدہ کے اختتام پر دوبارہ چین کی عملداری میں آگئے ہیں ۔ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی طرف سے ہانگ کانگ پر حملے ہوئے اور وقتی طور پر قبضہ بھی رہا۔ دسمبر ۱۹۴۱ میں ہانگ کانگ کے دفاع میں لڑی جانے والی جنگ میں جاپان اور اتحادی فوج کے ہزاروں فوجی لقمہ اجل بن گئے جن میں ایک بڑی تعداد متحدہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والوں کی بھی تھی جس میں پاکستان کے علاقے بھی شامل تھے۔

ایسٹ اینڈیا کمپنی نےجب براستہ ہانگ کانگ تجارت کا آغاز کیا تو ملاح ہندوستان سے لائے گئےتھے اور شہری نظم و نسق چلانے کے لئے پولیس بھی۔ اب پاکستان میں شامل ہزارہ اور کیمبل پور کے علاقوں سے بھرتی کی گئی۔ ان پولیس والوں کے خاندان ملازمت کے بعد بھی یہاں بس گئے جن کی تعداد ایک تخمینے کے مطابق انتالیس ہزار ہے۔ تجارت کے ساتھ سندھ سے غیر مسلم تاجر بھی ہانگ کانگ آگئےتھے جو ہندوستان کی تقسیم کے بعد بے وطن ہوگئے ہیں کیونکہ ہندوستان کی زمین ان کا وطن نہیں تھا جبکہ پاکستان صرف مسلمانوں کا ہی ملک بن گیا۔

اب یہ غیر مسلم سب متمول ارب پتی تاجر ہیں۔ کچھ پاکستانی تقسیم ہندوستان کے بعد بھی تجارت اور ملازمتوں کے لئے ہانگ کانگ آکر آباد ہوئے ہیں جن کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے ۔ چونکہ ہانگ کانگ دوہری شہریت کی اجازت نہیں دیتا اس لئے لوگ یا تو ہانگ کانگ کے شہری ہیں یا کسی اور ملک کے۔ جن لوگوں نے پاکستانی شہریت ترک نہیں کی مگر یہاں آباد ہیں وہ ہانگ کانگ کے شہریوں کی گنتی میں نہیں آتے اس لئے ہانگ کانگ میں بسنے والے پاکستانیوں کے اعداد و شمار میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔

انگریزوں سے ہونے والے معا ہدہ کے مطابق ۱۹۹۷ میں ہانگ کانگ کو دوبارہ عوامی جمہوریہ چین کی عملداری میں دیا گیاجو ایک ملک دو نظام کے تحت بطور خاص انتظامی علاقہ (سپیشل ایڈمنسٹریٹیو ریجن) چلایا جارہا ہے۔اس دہرے نظام میں ہانگ کانگ کی اپنی حکومت اور مقننہ ہوتی ہے جس کی اپنی کرنسی بھی ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دس کرنسیوں میں سے ایک ہے۔ ہانگ کانگ کا انتظامی ڈھانچہ ایسا ہے کہ یہاں ایک منتظم اعلیٰ (چیف ایگزیکٹیو) منتخب ہوتا جس کو بارہ سو لوگوں پر مشتمل ایک انتخابی کونسل منتخب کرتی ہے۔ اس انتخابی کونسل میں دو پاکستانی نژاد ممبران بھی شامل ہوتے ہیں جس سے یہاں بسنے والے پاکستانیوں کی سیاسی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

ہانگ کانگ میں بسنے والے پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا تعلیم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ چونکہ یہاں انگریزی کے علاوہ چین کی کینٹنی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے جو یہاں ہر سطح پر رائج ہے۔ اس زبان سے نابلد ہانگ کانگ میں بسنے والے پاکستانی نژاد لوگوں کی ایک خاصی اکثریت عموماً حکومتی احکامات اور ہدایات کو سمجھ نہیں پاتی اور سرکار کی جانب سے دی جانیوالی سہولیات سے محروم رہتی ہے جس میں سرکاری رہائش جیسی مہنگی سہولت بھی شامل ہے جو ہانگ کانگ کے شہریوں کو ریاست کی طرف سے دستیاب ہے۔

ہانگ کانگ میں پاکستانی عورتوں میں شرح تعلیم اور کم ہے جس کی وجہ سے وہ اس ملک کی معاشی سرکرمیوں میں حصہ لینے سے قاصر ہیں اور نتیجتا ً اپنے خاندان کے کمانے والے مردوں پر بوجھ بن جاتی ہیں۔ بعض لوگ تو اپنے خاندانوں کی پاکستان میں ہی رکھ کر کفالت کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آیندہ کی نسلیں بھی ہانگ کانگ میں دستیاب معیاری تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

ہانگ کانگ کا ایک اور مسئلہ یہاں پہنچنے والے نئے تارکین وطن ہیں جو مختلف راستوں سے قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یہاں آ جاتے ہیں۔ ہانگ کانگ میں چونکہ مہاجرت کرنے والوں کی دیکھ بھال آس پاس کے دیگر ممالک کی نسبت بہت اچھی طرح کی جاتی ہے اس لئے یہاں آنے والے افریقی ممالک کے تارکین وطن کے علاوہ پاکستانیوں کی بھی ایک کثیر تعداد ہوتی ہے۔ یہاں آنے والے تارکین وطن جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں جس میں چوری چکاری، تشدد اور خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے جرائم شامل ہیں۔

تارکین وطن جب جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں تو ان کو جیل میں بند کرکے سزا پوری ہونے پر ملک سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ بعض یہاں کے مستقل رہائشی پاکستانی نژاد لوگوں کا کہنا کہ وہ ایسے جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوئے ہیں اور پیسے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہانگ کانگ کی پولیس پاکستانیوں کے آپس میں ایسے واقعات پر فوری نوٹس بھی نہیں لیتی جس کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔

پاکستان سے آنے والے جرائم پسند تارکین وطن ہندوستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے جیسوں کیساتھ مل جاتے ہیں اور یہاں بسنے والے اپنے ہم زبانوں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ منشیات کی خرید و فروخت میں بھی نئے آنے والے تارکین وطن کے ملوث ہونے کی خبریں بھی ہیں جو مستقل طور پر رہنے والے پاکستان نژاد شہریوں کے علاوہ پاکستان کے قونصلیٹ کے لئے بھی باعث تشویش بات ہے۔

ہانگ کانگ ہجرت کرکے آنے والوں میں جنگ زدہ اور مشرق وسطیٰ کے خانہ جنگی کے شکار ممالک کے شہریوں کی بڑی تعداد ہے ۔ چونکہ یہاں مہاجرین کو کافی زیادہ مراعات حاصل ہوتی ہیں اس لئے مشرق کی جانب ہجرت کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہانگ کانگ پہنچ جائیں۔ یہاں آنے والے تارکین وطن کو آسانی سے کام مل جاتا ہے اور کام کرنے کی صورت حال بھی آس پاس کے ممالک سے بہتر ہے۔ اس لئے یہاں معاشی وجوہات کی بنا پر آنے والے غیر قانونی تارکیں وطن کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔ پاکستان کے قونصلیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان سے آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کرکے آتی ہے جو عموماً چین سے سمندری اور زمینی راستوں سے انسانی سمگلروں کے ذریعے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔

ہانگ کانگ میں پاکستانی قونصلیٹ یہاں بسنے والے پاکستانیوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہنے کی کوشش کرتا ہے ۔ دیگر امور کے علاوہ پاکستان کے قونصلیٹ کا ایک کام یہاں بسنے والے پاکستانیوں کے بیچ صلح صفائی اور ہم آہنگی پیدا کرنا بھی ہے جو کہ بہت کھٹن کام ہے کیونکہ یہاں بسنے والے پاکستانی اختلاف در اختلاف کا شکار ہیں ۔ پاکستانی قونصلیٹ میں ہانگ کانگ میں بسنے والے پاکستانیوں کا پورا ریکارڈ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور لوگوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔

ہانگ کانگ میں پاکستان کے قونصل جنرل عبدالقادر میمن کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں بسنے والے پاکستان نژاد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کرکے ملک کے معاشی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیئے۔ ورنہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مشکلات کا شکار ہونگے کیونکہ یہاں ٹیکنالوجی کی ترقی کیساتھ کام کاج کی نوعیت بھی بدل رہی ہے جس سے مستقبل میں صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کام کی مہارت رکھنے والے لوگ ہی مستفید ہونگے جوٹیکنالوجی کی جدید تعلیم کے حصول سے ہی ممکن ہے ۔

One Comment