تشدد اور ریاستیں

بیرسٹر حمید باشانی

گزشتہ ہفتے کی غیر حاضری پر معذرت۔وجہ غیر حاضری سفر تھا۔جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں شرکت کرنے گیاتھا۔ اس اجلاس میں نے کنیڈین لائرز رائٹس واچ کی نمائندگی کی۔

اجلاس میں میں نے جو کچھ کہا اس خلاصہ یہ تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف و رزیاں ہو رہی ہیں۔ان خلاف ورزیوں میں جبری گمشدگی، تشدد، غیر قانونی قید میں رکھنا اور تشد دسے ہلاکت شامل ہے۔ہماری تحقیق اور انسانی حقوق کی دوسری تنظیموں کی روپرٹوں کے مطابق ان ممالک کی فہرست میں پاکستان، بھارت، ترکی، سعودی عرب، تھائی لینڈ،کولمبیا، کمبوڈیا، شام،میانمار اور ہنڈورس غیرہ شامل ہیں۔

میرے بیان میں پاکستان کا ذکر چار بار آیا۔اسکی جہ حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی بدترین ہوتی ہوئی صورت حال تھی۔اگرچہ اس دوران پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔اور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے دوران انسانی حقوق کی کئی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں، اور ظاہر ہے اس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے،اور پیش کیا جاتا رہاہے، اس کے باوجود ہمارا خیال ہے کہ بعض موقعوں پر غیر ضروری طاقت استعمال ہوئی ہے۔ اور دہشت گردی کے نام پر بعض غیر ضروری اور کالے قوانیں بنائے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن ہونے کے ناطے ہم محض اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ ریاستی تشد دکا شکار کوئی مولوی ہے یا ہمارا دشمن ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ریاستی تشدد کا شکار محض یہی لوگ نہیں ہوئے ایسے لوگ بھی نشانہ بنے جو دہشت گردی کے سخت خلاف تھے۔ان میں صحافی،انسانی حقوق کے کارکن، سیاسی کارکن، بلاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ شامل تھے۔چنانچہ میری گفتگو میں پاکستان کا نام بار بار آنے کی یہی وجہ تھی۔بھارت کے ذکر کی وجہ کشمیر ہے۔کشمیر میں جو کچھ گزشتہ عرصے کے دوران ہو رہا ہے۔ 

ہم کئی باران کالموں میں اس پر اپنے خیالات بیان کر چکے ہیں۔ہم بنیادی طور دل سے عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔ہمار پختہ ایمان ہے کہ اس دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ یا کاز نہیں ہے جس کے لیے انسان ہتھیار اٹھائے یا دوسرے کی جان لے۔اور سیاست میں تو تشدد کی بالکل ہی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔اور مسئلہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کا صرف ایک پر امن جمہوری جہد و جہد کے ذریعے ہی نکالاجا سکتا ہے۔ اس لیے ہم تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور ان لوگوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں جو کشمیری عوام کو تشدد پر اکساتے ہیں، خواہ وہ کشمیر کے اندر سے ہوں یا سرحد پار سے۔

جب ہمار ا اس موضوع پر اتناواضح موقف ہے تو پھر ہم ریاستی تشدد پر خاموش نہیں رہ سکتے۔چنانچہ بھارت کی سیکورٹی فورسز کی طرف سے کشمیریوں پر جو تشدد کیا گیا ہم اس کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس طرح میرے بیان میں کشمیر کے حوالے سے بھارت کا نام شامل تھا۔سعودی عرب کا نام اس لیے شامل تھا کہ وہ ان چند معدودے ممالک میں شامل ہے جو کلچر اور مذہب کے نام پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں مصروف ہے اور اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے کھلے عام اس کا دفاع کرتا ہے۔آج بھی اس کی جیلوں میں ابو الخیر جیسے لوگ تشدد کا شکار ہیں۔ایک ویب سائٹ بنانے یا سوشل میڈیا پر ایک کومنٹ لکھنے کی جہ سے لوگوں کو اٹھا کر جیل میں پھینک دیا جاتا ہے۔

جس سر زمین پر نبی آخری زماں حضرت محمد ؐ نے انصاف اور رواداری کی نئی مثالیں قاہم کیں تھیں اس سر زمین کو ان لوگوں نے ایک قید خانے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔جہاں حضور ؐنے رحم کھانے اور نرمی کا برتاؤ کرنے کی تلقین کی تھی وہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ خصوصاً پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے غریب مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ ان کا سلوک بہت ہی بے رحمانہ اور ہتک آمیز ہے۔بات بات پر ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں یا جیل میں پھینک دیا جاتا ہے۔اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ان حرکات و سکنات کو اسلام اور شریعت کا نام دیتے ہیں جو کہ در اصل نبی آخری زماں کی شریعت کی توہین ہے۔

اور اس طرح کی شریعت پاکستان جیسے ممالک میں بھی نافذ کرنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ اور اس مقصد کے لیے یہاں کے بنیاد پرستوں کی مالی سرپرستی کرتے ہیں۔اس شریعت کے نام پر ایک خاندان نے اس مقدس سر زمین پر موجود تیل کے ذخائر پر نا جائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اور اس لوٹ کی دولت پر کئی تو یہ لوگ اپنے برانڈ کی شریعت ایکسپورٹ کرتے ہیں اور کئی مغربی ممالک میں کلبوں میں عورتوں پر نوٹوں کی بارش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس طرح ترکی کا ذکر اس لیے تھا کہ ترکی کچھ عرصے سے تشدد اور بنیاد پرستی کی طرف مائل ہے۔ تھائی لینڈ اور برما کے حوالے سے ائے دن اخبارات میں رپورٹیں آتی رہتی ہیں۔ اس سفر کے دران نا صرف میری کئی ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں بلکہ کچھ پرانے دوستوں سے بھی ملاقات کا موقع ملا اور اچھا لگا۔

Comments are closed.