محمود غزنوی – لٹیرا یا بت شکن ؟

خالد تھتھال


محمود غزنوی الپتگین کے ترکی نژاد غلام سبکتگین کا بیٹا تھا۔ الپتگین نے اپنے غلام سبکتگین کو اس کی کارکردگی اور ذہانت کی وجہ سے پہلے خاص لوگوں کے حلقے میں شامل کیا اور بعد میں اسے لشکر کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ الپتگین کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا منصور تخت پر بیٹھا تو سبکتگین نے بغاوت کر کے غزنی پر قبضہ کر لیا۔ سبکتگین نے بعد میں بخارا پر بھی قبصہ کر لیا۔ اس فتح کے بعد سبکتگین نے ہندوستان کا رخ کیا۔ جے پال اور سبکتگین کے درمیان جنگ میں جے پال کو شکست ہوئی اور بہت سے علاقے سبکتگین کے زیر تسلط آ گئے، اس کے علاوہ سبکتگین کو بہت زیادہ مال غنیمت بھی ملا۔ سبکتگین نے اپنے بیٹے امیر اسماعیل کو جانشین بنایا، لیکن محمود اور امیر اسماعیل میں آپس میں نہ بن سکی، دونوں بھائیوں میں جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں امیر اسماعیل کو شکست ہوئی اور اسےجرجان کے قلعے میں قید کر دیا گیا۔ اب سبکتگین کی سلطنت کا وارث محمود تھا۔

سلطان محمود انتہائی بدصورت آدمی تھا، منہ پر چیچک کے داغ تھے، اسے خود بھی اپنی بدصورتی کا احساس تھا، اس لئے ایک دن اپنے وزیر سے کہا ”مشہور ہے کہ بادشاہوں کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں روشنی آتی ہے ایک میری صورت ہے کہ جسے دیکھ کر شاید دیکھنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو“۔ وزیر نے جواب دیا ” تمہاری صورت تو شائد ہزاروں میں سے ایک دیکھتا ہو لیکن تمہاری سیرت سے سبھی کو تعلق ہے تم اگر عمدہ سیرت کے حامل ہو جاؤ گے اور ہمیشہ ایسے ہی رہو گے تو لوگوں میں تمہیں ہردلعزیزی حاصل ہو گی“۔

تخت نشینی کے بعد محمود کی پہلی جنگ حاکم بخارا امیر منصور سے نیشا پور کے مقام پر ہوئی جو الپتگین کا بیٹا اور آل سامان کا وارث تھا، امیر منصور کو شکست ہوئی اور یوں آل سامان کا ایک سو اٹھائیس سال پر محیط حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد محمود نے ہندوستان کا رخ کیا اور جے پال سے اس کا مقابلہ ہوا۔ جے پال شکست کھا کر قیدی ہوا۔ بہت زیادہ مال غنیمت کے علاوہ قیدیوں کی گردنوں سے جو مالائیں اتاری گئیں، ان کی تعداد سولہ تھی اور ایک مالا کی قیمت ان وقتوں میں ایک لاکھ اسی ہزار دینار تھی۔ بعد میں جے پال اور دوسرے قیدیوں کو رہا کر دیا گیا

ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اگر کوئی ہندو مسلمان سے دو بار شکست کھانے کے علاوہ قیدی بھی ہو جائے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ حکمرانی کر سکے، اس گناہ کو دھونے کا واحد ذریعہ آگ ہے۔ جے پال نے حکومت اپنے بیٹے آنند پال کے حوالے کی اور خود کو جلتی آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔

جے پال کو شکست دینے کے بعد محمود نے بھاٹیہ( ملتان کے قریب کوئی جگہ) کے حاکم پر حملہ کیا، بہت گھسان کی جنگ ہوئی جو تین دن تک جاری رہی، یوں لگتا تھا کہ محمود کو شکست ہونے والی ہے لیکن تیسرے دن جنگ کا پلڑا بدل گیا۔ بھاٹیہ کا حاکم میدان سے فرار ہونے کے بعد پکڑا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ بہت زیادہ مال کے علاوہ دو سو اسّی (280) ہاتھی بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔

واپس غزنی آ کر محمود نے ملتان کا رخ کیا جہاں اس وقت ابوالفتح نام کا فاطمی حکمران تھا۔ ابوالفتح نے ہر سال دس ہزار اشرفیاں خراج کے طور پر ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ صلح کر لی۔ اس جنگ سے فارغ ہو کر محمود نے خراسان پر چڑھائی کی جس کا حاکم ایلک خان تھا۔

محمود نے پھر ہندوستان کا رخ کیا اور نگر کوٹ کے قلعہ بھیم کا محاصرہ کر لیا، قلعہ کے مقیم زیادہ تر برہمن لوگ تھے، انہوں نے تیسرے دن ہی قلعے کے دروازے کھول دیئے، محمود کو اس قلعہ سے ساٹھ لاکھ اشرفیاں، سات سو من سونے اور چاندی کے اوزار، دو سو من خالص سونا، دو ہزار من خالص چاندی اور بیس من انواع و اقسام کے جواہرات ہاتھ لگے۔ محمود نے واپس جا کر شہر سے باہر نیا مکان بنوایا اور نگر کوٹ کے قلعے سے لائے ہوئے مال سے چند سونے اور چاندی کے تخت وہاں بچھوائے

بعد میں محمود نے غوریوں کے علاقے پر حملہ کیا، غوری بہت بہادری سے لڑے اور محمود کو جیت کی جب کوئی امید نظر نہ آئی تو اس نے فوج کو حکم دیا کہ دھوکے سے جنگ جیتی جائے، لہذا جنگ سے فرار کی راہ اختیار کی جائے، جب اس بھاگتی ہوئی فوج کا غوریوں نے پیچھا کیا تو محمود کی فوجیں رک کر مقابلہ کرنے لگیں، لیکن اس بھاگ دوڑ میں اس قدر افراتفری پھیل چکی تھی کہ غوری فوج سنبھل نہ سکی، اور شکست کھائی۔ غوریوں کا حاکم محمد بن غوری جب قیدی بنا کر محمود کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ یہ بےعزتی برداشت نہ کر سکا اور زہر آلود نگینہ چوس کر محمود کے سامنے جان دے دی۔

محمود نے دوبارہ ملتان پر حملہ کیا اور بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے علاوہ باقی لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹے، اس کے علاوہ داؤد بن نصیر کو غزنی لے جا کر قید کر دیا جہاں اس نے جان دی۔

محمود نے بعد میں تھانیسر کے مقام پر حملہ کیا جہاں ہندوؤں کا ایک بہت بڑا مندر تھا جس میں بہت زیادہ بت رکھے ہوئے تھے، سب سے بڑے بت کا نام ”جگ سوم“ تھا۔ قلعہ بند لوگوں نے ہر سال پچاس ہاتھی اور بہت زیادہ مال و دولت ہر سال بھیجنے کے وعدے پر صلح کرنا چاہی لیکن محمود کو خبر ملی کہ ہندوؤں کا ایک بہت بڑا لشکر تھانیسر والوں کی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا محمود نے شہر میں قتل و غارت کا حکم جاری کر دیا، تمام بتوں کو توڑ دیا گیا، بڑے بت جگ سوم کو غزنی بھیج دیا گیا کہ اسے راستے پر رکھ دیا جائے جہاں سب لوگ اس پر پاؤں رکھ کر گزریں۔ اسی مقام پر محمود کے ہاتھ ایک سرخ یاقوت کا ایک ٹکڑا لگا جس کا وزن چار سو پچاس مثقال تھا۔ اس کے علاوہ محمود اپنے ساتھ دو لاکھ لونڈیاں اور غلام لے کر غزنی واپس ہوا۔ ہر لشکری کے پاس کئی کئی لونڈیاں اور غلام تھے۔ مورخین کے مطابق اس سال غزنی میں اس قدر ہندوستانی شکلیں نظر آتی تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ غزنی ہندوستان کا کوئی شہر ہے۔

اس کے بعد محمود نے خلافت عباسیہ کو بغداد خط بھیجا کہ خراسان کا ایک علاقہ تو میرے پاس ہے، باقی علاقہ بھی میرے حوالے کر دیا جائے، خلیفہ بغداد نے مجبوری کے عالم میں محمود کی خواہش کو پورا کیا۔ اب محمود نے خلیفہ بغداد کو خط لکھا کہ سمرقند کو بھی میرے حوالے کیا جائے، خلیفہ نے سختی سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا ” اگر تو میری مرضی کے خلاف سمرقند کی طرف آنکھ بھی اٹھائے گا تو میں تمام دنیا کو تمہارے خلاف ابھار دوں گا“۔ محمود اس پیغام کو سن کر بہت غصہ میں آیا اور واپسی جواب لکھا ” میں اب جان گیا ہوں کہ تم لوگ چاہتے ہو کہ میں ہزارہا کوہ پیکر ہاتھیوں سے دارالخلافت کو روند ڈالوں اور بارگاہ خلافت کا ملبہ انہی ہاتھیوں پر ڈال کر غزنی لے آؤں“۔ خلیفہ بغداد نے جواب میں سورۃ الفیل کا حوالہ دیا جسے سن کر محمود سہم گیا اور اپنی خواہش سے دستبردار ہو گیا۔

محمود نے بعد میں نندونہ کے قلعے پر حملہ کیا، اس وقت آنند پال مر چکا تھا، آنند پال کا بیٹا لاہور کا حاکم تھا، اس نے محمود کا ذکر سنتے ہی کشمیر کی جانب راہ فرار اختیار کی، محمود کو اس قلعے سے بہت زیادہ مال غنیمت ملا۔

محمود کی بہن، خوارزم کے ابوالعباس کی بیوی تھی، جب محمود کو پتہ چلا کہ اس کے بہنوئی کو قتل کر دیا گیا ہے تو وہ بدلہ لینے کیلئے بلخ روانہ ہوا۔ اہل خوارزم کا سپہ سالار خمار تاش گرفتار ہوا اور اس کی جگہ لینے والے سپہ سالار الپتگین بخاری کو بھی قید کر لیا گیا۔ اس کے بعد محمود نے ابو العباس کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر قتل کیا اور وہاں کی حکومت اپنے ایک معتمد کے حوالے کی۔

اہل خوارزم سے فارغ ہو کر محمود نے قنوج کا رخ کیا، یہاں اس سے پہلے صرف ایران گشتاسپ کے علاوہ کوئی غیرملکی نہیں پہنچا تھا۔ وہاں کے راجہ ”کورا“ نے نہ صرف بغیر مقابلہ کئے ہتھیار ڈال دیئے بلکہ اپنی جان و مال بچانے کیلئے اسلام بھی قبول کر لیا، یہاں سے محمود نے میرٹھ کا رخ کیا، اہل علاقہ نے دو لاکھ پچاس ہزار روپے اور پچاس ہاتھی دے کر جان کی امان پائی۔

یہاں سے محمود نے مہاون کے قلعے کا رخ کیا، اس قلعے کا حاکم گل چند مسلمانوں کی فوج کی ناگہانی آمد سے اس قدر پریشان ہوا کہ خنجر سے پہلے اپنی بیوی اور بیٹے کو قتل کیا اور پھر خود بھی اسی خنجر سے خودکشی کر لی۔ تاریخ فرشتہ کے مولف کے بقول یہاں جو مال ہاتھ لگا اس کی تفصیل بیان کرنا ناممکن ہے، اشیا کے علاوہ اسّی کوہ پیکر ہاتھی بھی محمود کے ہاتھ لگے۔

مہاون سے فارغ ہونے کے بعد محمود نے شری کرشن کی جنم بھومی متھرا پر حملہ کیا۔ یہاں کوئی بھی محمود کے مقابلے پر نہ آیا۔ محمود نے شہر کے ارد گرد بت خانوں کو توڑا اور جلایا اور بے شمار دولت حاصل کی۔ یہاں پر محمود کو سونے کے پانچ بت ملے جن کی آنکھوں میں یاقوت جڑے ہوئے تھے۔ ان بتوں میں ایک بت میں ازرقی یاقوت بھی جڑا ہوا تھا، جب اس بت کو توڑا گیا تو اس کے اندر سے اٹھانوے ہزار تین سو مثقال سونا برآمد ہوا۔ سونے کے ان پانچ بتوں کے علاوہ چاندی کے سو بت تھے، ان کو توڑ کر جو چاندی حاصل ہوئی وہ اتنی زیادہ تھی کہ ایک سو اونٹوں پر لادی گئی۔ اس لوٹ مار کے بعد محمود نے شہر کی اہم عمارتوں کو جلوا دیا۔ اس کے بعد محمود متھرا کے قریب سات قلعوں کی طرف متوجہ ہوا، ان قلعوں میں ایک بت چار ہزار سال پرانا تھا، محمود نے ان سب قلعوں کولوٹا۔

یہاں سے محمود نے منج کے قلعے کا رخ کیا، اہل قلعہ نے اپنی بیویوں کو نذر آتش کیا اور خود سب لڑتے ہوئے مر گئے، محمود نے یہاں سے بھی بہت مال غنیمت حاصل کیا۔ اس کے بعد محمود نے قلعہ چند پال کا رخ کیا، چند پال سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گیا جو محمود کے حصے میں آیا۔

ان مہمات سے فارغ ہو کر محمود غزنی روانہ ہوا، مال غنیمت کا جو حساب لگایا گیا، اس میں بیس ہزار اشرفیاں، کئی لاکھ روپے، پچاس ہزار لونڈی غلام، تین سو پچاس ہاتھی کے علاوہ بے شمار بیش قیمت اشیا محمود کے ہاتھ لگیں۔ محمود نے نعمت خداوندی کے شکرانے کے طور پر غزنی میں جامع مسجد بنانے کا حکم دیا۔ بعد میں اس مسجد کی تزئین اور سجاوٹ کے علاوہ اسے بیش قیمت قندیلوں سے سجایا گیا، اس مسجد کی سجاوٹ اور روشنی کی وجہ سے لوگ اسے ”عروس فلک“ کہنے لگے۔

راجہ کورا جس نے محمود کے ڈر سے اسلام قبول کر لیا تھا، ہندوؤں نے اسے لعن طعن کرنے کے علاوہ قتل کر دیا۔ محمود نے بدلہ لینے کیلئے ہندوستان کا رخ کیا، دریائے جمنا کے پار آنند پال کا بیٹا شکست کھا کر بھاگا، اور محمود نے شہر کو جی بھر کر لوٹا۔ اس کے بعد محمود نے کالنجر کا رخ کیا اور راجہ نندہ شکست کھا کر بھاگ گیا۔ محمود کی فوجوں نے دل کھول کر قتل و غارتگری کی۔ یہاں سے اس قدر مال ہاتھ آیا کہ بقول مورخ فرشتہ اس کی تفصیل بیان سے باہر ہے۔ مال و دولت کے علاوہ پانچ سو اسّی ہاتھی بھی محمود کے ہاتھ لگے۔

محمود نے پھر لاہور کا رخ کیا، آنند پال کا بیٹا جو اب بوڑھا بھی ہو چکا تھا، وہ بغیر مقابلہ کئے بھاگ کر اجمیر چلا گیا۔ محمود نے اپنی فوج کو لاہور کے مخلتف علاقوں میں قتل و غارت کیلئے روانہ کیا، سپاہیوں نے جی کھول کر شہر اور ارد گرد کے دیہات کو لوٹا۔ محمود نے اپنے لشکر کا ایک حصہ یہاں چھوڑا اور اپنے نام کا سکہ اور خطبہ جاری کروایا۔

لاہور کے بعد محمود نے گوالیار کے قلعے کا رخ کیا راجہ نے پینتیس ہاتھی محمود کو نذرانے کے طور پر پیش کئے۔ یہاں سے محمود کالنجر روانہ ہوا جہاں راجہ نندا نے تین سو ہاتھی، بیش قیمت جواہرات اور دیگر قیمتی اشیا دے کر اپنا راج بچایا۔

محمود کا سومنات کے مندر پر حملہ سب سے زیادہ مشہور ہے، محاصرے کے دوسرے روز محمود کی فوج قلعے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ قلعے کے اندر موجود تمام لوگ لڑ کر ہلاک ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب محمود سومنات کے اندر بڑے بت کو توڑنے لگا تھا تو اسے ہندوؤں نے بہت زیادہ رقم کے بدلے اس بت کو نہ توڑنے کی درخواست کی، جسے محمود نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں

ویسے عجیب بات ہے کہ ایک بت شکن سلطان کو بامیان کے علاقے میں بدھا کا دیو قامت بت نظر نہ آیا، شائد وجہ یہ ہو کہ اسے معلوم تھا کہ بدھا کے بت میں کوئی خزانہ پوشیدہ نہیں ہے۔ محمود نے بت توڑنے کے بعد حکم دیا کہ اس کا ایک ٹکڑا جامع مسجد کے دروازے کے باہر اور دوسرا ایوان سلطنت کے صحن میں رکھا جائے۔ اس بت کے اندر سے بہت زیادہ بیش قیمت جواہر اور موتی برآمد ہوئے، کہا جاتا ہے کہ ان کی مالیت اس رقم سے دس گنا زیادہ تھی جو اسے نہ توڑنے کے بدلے میں دینے کی پیشکش کی گئی تھی۔ سومنات سے فارغ ہونے کے بعد محمود نے نہروالہ کے راجہ پرم دیو کو شکست دینے کے بعدقلعہ کندھ پر قبضہ کیا۔ قلعہ نہروالہ میں ہی محمود کو ہوا میں معلق ایک بت ملا، محمود کو بتایا گیا کہ اس کے ہوا میں معلق ہونے کی وجہ اس عمارت کے ہر طرف مقناطیس کی ایک خاص مقدار ہے، لہذا ایک دیوار کو توڑا گیا، جس سے وہ بت نیچے گر گیا۔

اس کے بعد محمود نے جٹائی نام کی ایک قوم پر حملہ کیا، اس کے بعد محمود نے رے کا رخ کیا اور وہاں کے فاطمیوں کو شکست دے کر ان کے خزانے حاصل کئے۔

محمود ایک انتہائی بخیل، لالچی اور دولت کا بھوکا انسان تھا، ایک بار سنا کہ نیشا پور میں ایک دولتمند قیام پذیر ہے، اسے بلوایا اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم ملحد اور قرامطی ہو۔اس شخص نے جواب دیا ” اے بادشاہ، میں نہ ملحد ہوں اور نہ قرامطی، میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میں بہت زیادہ امیر ہوں۔ تو جو چاہے مجھ سے لے لے لیکن مجھے ملحد و قرامطی کہہ کر بدنام نہ کر“۔ محمود نے اس سےتمام دولت لے لی اور اس کے نام فرمان عقیدت لکھ دیا۔

ایک بارمحمود نے ابو طاہر سامانی سے پوچھا کہ تم لوگوں نے اپنے عہد میں کتنی دولت جمع کی ہے، ابو طاہر نے جواب دیا ” امیر نوح سامانی کے عہد میں سات رطل اعلیٰ جواہرات شاہی خزانے میں موجود تھے“۔ محمود نے کہا، ”الحمد للّٰه، خدا نے مجھے سو رطل سے بھی بیش قیمت خزانے عطا کئے ہیں“۔

محمود نے تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی، محمود وہ پہلا حکمران ہے جس نے اپنے لئے سلطان کا لقب اختیار کیا۔ مورخین کے بقول اس نے مرنے سے دو دن پہلے اپنا تمام خزانہ اور ہیرے جواہرات، شاہی خزانے سے نکلوا کر محل میں ڈھیر لگوایا اور ان کو دیکھ کر جدائی کے خیال سے دھاڑیں مار مار کر روتا رہا، لیکن اپنے آخری وقت میں بھی کسی کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دی۔ دوسرے دن اس نے شاہی اصطبل سے گھوڑوں، اونٹوں اور ہاتھیوں کو منگوایا ، انہیں دیکھ کر بھی محمود نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور روتا روتا محل میں چلا گیا۔

ماخوذ از تاریخ فرشتہ

بشکریہ: جرات و تحقیق

Comments are closed.