تضادات سے بھرا انسان

آصف جیلانی 

سنہ1954کی بات ہے ۔تمیز الدین خان کے مقدمہ کی سماعت کے وقفہ میں، مظفر علی منصوری جو اُن دنوں خبر رساں ایجنسی اے پی پی میں تھے اور ڈان کے نمایندے مشیر حسن کے ساتھ میں سندھ چیف کورٹ کے چائے خانہ میں بیٹھا تھاکہ 26سال کا ایک نوجوان داخل ہوا جو لباس سے نرا ٹیڈی بوائے نظر آتاتھا ، پتلی موری والی ٹانگوں سے چپکی ہوئی پتلون ، جسم پر کسا ہوا کوٹ ، چمک دار غیر ملکی جوتے اور چال ایسی کہ جیسے کوئی موسیقی کی تیز دھن پر رقص کر رہا ہو۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو کیلی فورنیا کی برکلے یونیورسٹی سے فارغ ہو کرتازہ تازہ پاکستان لوٹے تھے اور کراچی میں وکالت شروع کی تھی۔ اُس زمانہ میں وہ سندھ کے مشہور وکیل رام چندانی ڈنگو مل کے چیمبرز سے منسلک تھے۔ 
گاندھی گارڈن کے عقب میں اس علاقہ میں جو گارڈن ایسٹ کہلاتا تھا یہ اپنے والد سر شاہ نواز کی کوٹھی میں رہتے تھے۔ میں اس زمانہ میں اسی علاقہ میں رہتا تھا اور گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ 
سندھ چیف کورٹ کے چائے خانہ میں مجھے دیکھ کر وہ ہماری میز کی طرف لپکے ۔ اس دن وہ بہت خوش تھے ، کہنے لگے کہ آصف، مجھے آج پہلا مقدمہ ملا ہے جوبہت اہم ہے۔ سندھ کے ہاری رہنما حیدر بخش جتوئی کو ایوب کھوڑو نے گرفتار کر لیا ہے۔ ’’میں ان کی حبس بے جا کی درخواست داخل کرنے حیدر آباد جارہا ہوں،لیکن مجھے ڈر ہے کہ بد بخت کھوڑو مجھے بھی پکڑ لے گا۔‘‘پھر کچھ توقف کے بعد بولے اگر چار دن بعد میں کراچی واپس نہ آیا تو تم میرے لئے حبس بے جا کی درخواست داخل کر دینا۔ 
میں نے منصوری صاحب اور مشیر حسن سے بھٹو صاحب کا تعارف کرایا۔ مجھے علم تھا کہ ان کے والد سر شاہ نواز انہیں سفات کار بنانا چاہتے تھے اور وہ انہیں لے کر ایوب کھوڑو کے پاس گئے تھے لیکن انہیں بے التفاتی کا سامنا کرنا پڑا ۔ میں نے کہا کہ بھٹو صاحب سفارت کار بننا چاہتے ہیں۔ 
منصوری صاحب نے پوچھا کہ کیوں سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں؟ اس پر بھٹو صاحب نے کہا ارادہ تو ہے لیکن۔۔۔
میں نے پوچھا لیکن کیا؟
وہ بولے کوئی جماعت مناسب نظر نہیں آتی۔ پھر خود کہا کہ مسلم لیگ زمینداروں اور جاگیر داروں اور عہد رفتہ کے سیاست دانوں کی جماعت ہے۔ میں نے ازراہ تفنن کہا تو پھر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ 
کہنے لگے نظریات بھلے خوش نما ہوں لیکن میرے مزاج کے مطا بق نہیں۔ 
منصوری صاحب نے کہا ہاں عیش و عشرت کی زندگی ترک کرنی ہوگی اور جاگیر داروں کا چولا اتار کر مزدوروں اور کسانوں میں کام کرنا پڑے گا۔
میں نے کہا آزاد پاکستان پارٹی کے بارے میں کیا خیال ہے ۔اس ترقی پسند پارٹی میں تو پڑھے لکھے روشن خیال لوگ ہیں اور خود ان کے وکالت کے پیشہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد ہیں، جیسے بیرسٹر نور العارفین، محمود علی قصوری اور فخر الدین جی ابراہیم وغیرہ۔
بھٹو صاحب کہنے لگے وہاں پہلے ہی سے میاں افتخار الدین اور شوکت حیات ایسے جاگیردار سیاست دان ہیں میں ان میں گہنا جاؤں گا۔ 
منصوری صاحب نے سوال کیا کہ عوامی لیگ کے بارے میں انہوں نے نہیں سوچا؟ 
بھٹو صاحب بولے اس پارٹی کی جڑیں بنگال میں ہیں ، اس کے مسائل اور اس کی شبیہ بنگالی ہے ۔ پاکستان کے مغربی حصہ میں یہ کبھی قبولیت حاصل نہیں کر سکے گی۔ 
مشیر حسن نے برجستہ کہا کہ اب صرف جماعت اسلامی بچ گئی ہے۔ 
اس پر انہوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہاکہ میں ، ملاٗؤں کی جماعت میں شامل ہوں ؟ میں نے کہا کیوں نہیں دین بھی مل جائے گا اور دنیا وی سیاست میں بھی نام ہوگا۔ کہنے لگے نہیں وہاں مجھ جیسے روشن خیال شخص کی گنجائش نہیں۔ 

یہ تھا ہمارا پہلا مفصل تعارف ، ذوالفقار علی بھٹو سے ۔ بڑے زمیندار شاہ نواز کے فرزند، ناز و نعمت میں پلے بڑھے ، عیش و عشرت سے سرشار جو غریب ہاریوں کے رہنماکا مقدمہ لڑنے جارہے تھے ا اور جو ملک کی سیاست میں آنے کے آرزو مند ہیں لیکن کوئی جماعت انہیں خاطر خواہ نظر نہیں آتی ۔ اس ملاقات میں ذوالفقار علی بھٹو کی تضادات سے بھری شخصیت آشکار ہوگئی تھی ۔ 
پھر ایک عرصہ گذر گیا ۔ بھٹو صاحب کو کوئی بڑا مقدمہ نہیں ملا ، دیسے انہیں ضرورت بھی نہیں تھی۔ زیادہ تر وقت ان کا اشرافیہ کی شبینہ پارٹیوں میں گذرتا تھا یا پھر لاڑ کانہ میں المرتضی میں جہاں وہ صاحب ثروت افراد کو تیتر بٹیر کے شکار کی دعوتیں دیتے تھے۔ 
اکتوبر1958میں جب پاکستان میں پہلی بار جنرل ایوب خان کی قیادت میں فوج نے ملک فیروز خان نون کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیاتھا تو ایوب خان نے مارشل لاء کے تحت اپنی پہلی کابینہ میں کوشش کی تھی کہ اس میں تمام صوبوں کے نمایندے شامل کئے جائیں۔ سندھ میں اس زمانے میں فوج کے خلاف شدید جذبات تھے اس لئے ایوب خان کی کابینہ میں سندھ سے کوئی وزیر شام ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ایوب خان نے اپنی اس مشکل کا ذکر صدر اسکند ر مرزا سے کیا تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے بھٹو صاحب کا نام آیا۔ اسکندر مرزا کی ایرانی نژاد اہلیہ ناہید اور بھٹو صاحب کی ایرانی نژاد اہلیہ نصرت بھٹو کے درمیان گہری دوستی تھی اور اسکندر مرزا ، شکار کھیلنے لاڑ کانہ جاتے رہتے تھے ۔اسکندر مرزا کی سفارش پر بھٹو صاحب پہلی بار سیاست میں داخل ہوئے فوج کی بیساکھی کے سہارے۔ 
ایوب خان نے بھٹو صاحب کو وزیر تجارت کا عہدہ دیا۔ بلا شبہ بھٹو صاحب کو وزیر تجارت کی حیثیت سے سب سے بڑا کارنامہ روس کو پاکستان میں فولاد کے کارخانے کے قیام کے منصوبہ کے لیے آمادہ کرنا تھاجس کے بل پر پاکستان میں صنعتی ترقی نے ایک نیا موڑ لیا ۔پھر 1963 میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے چین اور پاکستان کے درمیان سرحد کے تعین کے بارے میں اہم سمجھوتہ کیا۔یہ بھی ان کی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔

سن 1958میں فوجی حکومت کے راستے سیاست میں داخلے نے ، ایسا محسوس ہوتاتھا کہ بھٹو صاحب کی سیاسی تقدیر پر ایسی ان مٹ مہر ثبت کر دی کہ جس سے انہیں تختہ دار تک نجات نہیں مل سکی۔ انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ چونکہ ان کا تعلق ملک کے ایک چھوٹے صوبہ سندھ سے ہے لہذا اقتدار کے حصول میں انہیں فوج کے سہارے کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہے اور اس کے لئے انہیں بہت قربانی دینی ہوگی۔
بنگلہ دیش کے بحران کے سلسلہ میں ان پر یہی الزام عائد ہوتا ہے کہ انہوں نے فوج کا موقف اختیار کیا اورجمہوری مفاہمت کے تمام کواڑ بھیڑ دئے۔ پھر بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہوں نے ملک کی شکست خوردہ فوج کی امیج بحال کرنے کے جتن کئے یہاں تک کہ فوج کی پرانی وردی بدل دی اور وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کی فوج کو ایشیا ء کی بہترین لڑاکا فوج بنا دیں گے۔ 
اور فوج کو بدنامی سے بچانے کے لئے انہوں نے مشرقی پاکستان میں سیاسی اور فوجی ہزیمت کے اسباب کے بارے میں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو مقفل کردیا، اور کسی کو اس کی گن سن نہ ہونے دی۔ جب کہ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کھلم کھل کر ان عوامل پر بحث کی جائے جن کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوگیا۔ پھر شکست خوردہ فوج کے سربراہ اور ملک کے ٹوٹنے کے ذمہ دار جنرل یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ان کی موت تک ان کے خلاف مقدمہ چلانے سے صاف انکار کیا۔
بھٹو صاحب کے ذہن پر فوج اور فوجی جرنیلوں کا خوف بری طرح سے طاری تھا۔ مجھے یاد ہے کہ سن اکہتر میں سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو صاحب سلامتی کاونسل کے اجلاس میں شرکت کر کے جرنیلوں کے بلاوے پر وطن واپس جا رہے تھے تو وہ لندن کے ہیتھ رو کے ہوائی اڈے پر رکے۔ اتوار کا دن تھا ۔ وی آئی پی لاونج میں ان کی اس زمانے کے برطانوی وزیر خارجہ سر ایلک ڈگلس ہیوم سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعدپتہ چلا کہ جرنیلوں نے طیارہ لندن بھیجنے کے بجائے روم بھیجا ہے۔روم پرواز کے لئے ہیتھ رو کے یورپی ٹرمنل جانا پڑا۔ روم کی پرواز تین گھنٹے بعد تھی۔ اس دوران میں بھٹو صاحب کے ساتھ تھا۔ 
ملک ٹوٹنے کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ مجھ سے زیادہ بات نہیں ہورہی تھی اور بھٹو صاحب اس بات پر سخت پریشان تھے کہ جرنیلوں نے طیارہ روم کیوں بھیجا ہے۔بار بار یہ پوچھتےْ ۔ لاونج میں بیٹھے بیٹھے بولے۔ آصف رباط کے اس ڈرامہ کا قصہ سناو جو یحییٰ خان کو پیش آیا تھا۔ میرا دل دھک سے رہ گیا کہ اس وقت جب ملک پر سنگین آفت آن پڑی ہے ، بھٹو صاحب یحییٰ خان کے ان کرتوتوں کا وہ قصہ سننے کے لئے بے تاب ہیں جو رباط میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کے دوران سامنے آئے تھے اور جو میں نے انہیں سن 69 میں لندن میں سنایا تھا جب وہ پیپلز پارٹی کی تنظیم کے سلسلہ میں یہاں آئے تھے۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ کوئی وقت ہے ایسے قصوں کا۔
میں نے موضوع بدلنے کے لئے ان کی تشویش دہرائی کہ آخر جرنیلوں نے ان کا طیارہ روم کیوں بھجوایا ہے ۔ کہنے لگے کہ کم بخت جنرل ان کا طیارہ کریش تو نہیں کرادیں گے؟ میں نے ان کو تسلی دی کہ اس وقت فوج کو ان کی شدید ضرورت ہے ملک کے سنگین ترین بحران سے نکلنے کے لئے۔میں نے کہا کہ سن اٹھاون میں جب آپ مارشل لاء کی حکومت میں شامل ہوئے تھے تو اس وقت آپ کی سیاسی قوت نہیں تھی لیکن اب وہ بچے کچے پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹی کے سربراہ ہیں۔فوج کو آپ کی شدید ضرورت ہے۔ بھٹو صاحب کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ یہ باتیں سننے کے لئے بے تاب ہیں۔ 

سن72کے اوائل میں بھٹوصاحب جب ایران، ترکی، مراکش ، تیونس ، الجزایر ، لیبیا ، مصر اور شام کے دورے پر نکلے تو میں ان کے ساتھ تھا۔ ترکی میں دارالحکومت انقرہ کی پہاڑی پر کمال اتا ترک کے مقبرہ پر حاضری دینے کے بعد ، بھٹو صاحب نے وہاں رکھی ہوئی کتا ب پر کمال اتا ترک کو خطاب کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح شکست خوردہ ترکی کو انہوں نے پُر آشوب دور میں سنبھالا تھا اور اس کا احیاء کیا تھا اور اس کی عظمت کو بحال کیا ، اسی چیلنج سے میں اپنے ملک میں دوچار ہوں۔ 
پھر جب دمشق میں انہوں نے آٹھ ملکوں کا دورہ مکمل کیا تو شام کے صدر حافظ الاسد کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھٹو صاحب نے کہا کہ ان کا یہ دورہ نشاتہ ثانیہ کا سفر تھا اور پاکستان کی مہارت اور عرب سرمایہ کے اشتراک سے ہم عالم اسلام کی ترقی اور قوت کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں۔بھٹو صاحب کا واضح اشارہ جوہری توانائی کے میدان میں اشتراک کی طرف تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ بھی جو بھٹو صاحب کے سیاسی حریف تھے اور ا ب بھی اب کی سیاست کے مخالف ہیں وہ اس بات کے معترف ہیں کہ پاکستان نے جوہری اسلحہ کے میدان میں جو کچھ حاصل کیاہے اس کاسہراذوالفقار علی بھٹو کے سر ہے اور در اصل ا سی وجہ سے انہیں خمیازہ اقتدار سے محرومی اور تختہ دار کی شکل میں دینا پڑا۔ 
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ سن اکہتر میں بھٹو صاحب نے بنگلہ دیش کے بحران میں فوج کا بھر پور ساتھ دیا اور پھر فوج کے ہاتھوں دو لخت پاکستان کو برے وقت میں سنبھالا، لیکن اسی فوج نے سن 77ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور79 ء میں تختہ دار پر چڑھادیا۔
بھٹو صاحب سے میری آخری ملاقات جولائی 73ء میں لندن میں ہوئی تھی جب وہ برطانیہ کے دورہ پر آئے تھے۔ یہ خاصی طویل ملاقات تھی۔ شرط ان کی یہ تھی کہ اس کے بارے میں فوری طور پر ایک لفظ بھی باہر نہیں آئے گا۔
بھٹو صاحب نہ جانے کیوں ماضی کی یادوں کو بار بار کرید رہے تھے ۔ خود انہوں نے 54ء کی سندھ چیف کورٹ کی ملاقات یاد دلائی او ر شکایتا کہا کہ میں یہ طعنہ دیتا تھا کہ وہ سیاست میں فوج کے بل پر آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لیکن لوگ اس بات کا اعتراف کیوں نہیں کرتے کہ میں نے پاکستان کی سیاست کو زمینداروں اور جاگیرداروں کے محلات سے نکال کر عوام کے حوالہ کی۔
مجھے بھٹو صاحب کے جاگیردارانہ مزاج کا بخوبی اندازہ تھا او ر مجھے علم تھا کہ وہ اپنی کوئی مخالفت اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ لیکن ان کے نہایت سہل موڈ سے ہمت ہوئی ،میں نے کہا کہ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ میں یہ بات ہمیشہ روشن رہے گی لیکن اس نکتہ چینی سے آپ دامن نہیں بچا سکتے کہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت جو ترقی پسند لوگ آپ کے ساتھ تھے اور وہ لوگ جنہوں نے سن 70ء کے انتخابات مین آپ کو اور آپ کی پارٹی کو فتح سے ہم کنار کرایا تھا وہ اقتدار کے حصول کے بعد بہت جلد یکے بعد دیگرے آپ سے جدا ہو گئے اور پھر آپ نے اپنی پیپلز پارٹی کا تمام تر انتظام ایک سرکار افسر وقار احمد کے حوالہ کردیا۔ میں نے کہا کہ لوگ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ملک میں صدارتی نظام قائم کرنے کے زبر دست خواہاں تھے لیکن آپ نے عوام کی اکثریت او ر ان جماعتوں کی رائے کا احترام کیا جو ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام چاہتی تھیں اور آپ نے انہی کی خواہشات کے مطابق آئین مرتب کیا لیکن اسی کے ساتھ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس کے فورا بعد آپ نے سرحد اور بلوچستان میں حز ب مخالف نیپ کی حکومتیں برطرف کر دیں۔

میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ لوگ یہ بھی نہیں سمجھے ہی کہ آپ نے ملک کو دولخت کرنے کے بڑے مجرم جنرل یحییٰ خان پر غداری کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا۔کہنے لگے یہ لکھنے کی بات نہیں۔ اس بارے میں
امریکیوں کاسخت دباؤرہا ہے اور انہوں نے صاف صاف کہا ہے کہ یحییٰخان پر قطعی کوئی ہاتھ نہ ڈالا جائے ۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگے ، کیوں کہ یحییٰ خان نے چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات استوار کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے وہ ان کے سخت مرہون منت ہیں ۔
بھٹو صاحب نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا کہ 63ء کے وہ دن یاد ہیں جب دلی اور کلکتہ میں کشمیر کے بارے میں سردار سورن سنگھ سے مذاکرات کے دوران ملاقاتیں ہوئی تھیں اور ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں بحث ہوئی تھی ۔ 
کشمیر کے ذکر پر مجھے آپریشن جبرالٹر اور اس کے بعد65ء کی جنگ کے سلسلہ میں بھٹو صاحب کے رول پر سخت نکتہ چینی یاد آئی کہ انہوں نے کشمیر میں صورت حال کا صحیح تجزیہ نہیں کیااور آنکھ بند کر کے چار ہزار کمانڈوز وادی میں جھونک دیے یہ جانے بغیر کہ انہیں کشمیر کے عوام کی مدد ملے گی یا نہیں۔ پھر سن 65میں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اگر امریکا اور برطانیہ نے اسلحہ کی سپلائی بند کردی تو جنگ کیسے جاری رکھی جا سکے گی ، ایوب خان کو اس جنگ میں کودنے پر مجبور کر دیا۔
ان سب باتوں کا میں ذکر کرنا چاہتا تھا لیکن رات کافی گذر چکی تھی اور انہیں صبح سویرے امریکا روانہ ہونا تھا۔ویسے بھی میں نہیں چاہتا تھاکہ یہ ملاقات بھٹو صاحب کی ناراضگی پر ختم ہو۔ 
واپسی پر میں یہ سوچتا آیا کہ کس قدر تضادات ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت میں ۔ ایک طرف ایسی سیاسی بصیرت جس کا پاکستان کے سیاست دانوں مین سخت فقدان رہا ہے ، روشن خیال اور اعلی تعلیم سے لیس ، دوسری طرف خالص جاگیردارانہ تحکمانہ اور آمرانہ انداز ۔ اپنے خلاف ذرا سے بھی بات اور نکتہ چینی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ اس قدر بھپر جاتے تھے اور پھر بکھر جاتے تھے۔ یہی نہیں وہ مدتوں اس شخص کو نہ معاف کرتے تھے اور نہ بھولتے تھے جو ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات کہتا تھا۔ 
بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی سوچتا ہوں کہ اگر سن 71ء میں بھٹو صاحب ، شیخ مجیب سے سیاسی مفاہمت کر لیتے اور اقتدار میں پر تیار ہو جاتے تو آج پاکستان کا نقشہ ہی مختلف ہوتا اور ممکن ہے فوج کو سیاسی میدان میں ایسی شکست ہوتی کہ پھر کبھی اسے طالع آزمائی کی ہمت نہیں ہوتی۔ 
یہ بہترین مواقع تھے ، جو ذوالفقار علی بھٹونے کھو دئے اور خود ان کے لئے مہلک اور ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوئے۔

2 Comments