توہین رسالت کے قانون میں ممکنہ ترمیم پر اختلاف رائے

قومی اسمبلی نے مردان میں یونیورسٹی طالب علم مشال خان کے حالیہ قتل کی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے بھرپور مذمت کی ہے اور اسے ایک وحشیانہ فعل قرار دیا ہے۔اس موقع پر قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا، ’’پوری پارلیمنٹ کو ایسے کسی بھی وحشیانہ فعل کے خلاف متفقہ اور متحدہ محاذ بنانا پڑے گا‘‘۔

اس قرارداد سے ایک دن پہلے پاکستانی سینیٹ یا پارلیمانی ایوانِ بالا میں پی پی پی کے رکن فرحت اللہ بابر نے اس قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا جب کہ نون لیگ کے ایک رکن نے بھی اس میں اصلاح کی بات کی تھی۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس قانون میں ترمیم کی جانی چاہیے تاکہ توہین رسالت کے غلط الزامات لگانے جیسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ کئی اراکین اسمبلی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہییں۔

پی پی پی کے رکنِ قومی اسمبلی نعمان اسلام شیخ نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس قانون میں بہتری کی گنجائش ہے، جس کے لیے طویل بحث ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے فرد پر توہینِ رسالت کا جھوٹا الزام لگاتا ہے تو قانو ن میں ایسی شقیں ہونی چاہییں کہ اس غلط الزام لگانے والے کے ساتھ بھی سختی سے نمٹا جا سکے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالت کے قانون کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ’’کوئی بھی پارٹی اس کے خاتمے کی بات نہیں کر سکتی کیونکہ جو ایسی کسی توہین میں ملوث ہو، اسے سزا ضرور ملنی چاہیے‘‘۔

تاہم کچھ اراکین پارلیمان اس قانون میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا تبدیلی کے سخت مخالف بھی ہیں۔ جب ڈی ڈبلیو نے پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان سے اس بارے میں ان کا موقف پوچھا، تو انہوں نے کہا، ’’میں اس قانون میں ترمیم کی مخالفت کرتا ہوں کیونکہ میں مسلمان پہلے اور پی ٹی آئی کا کارکن بعد میں ہوں۔ اگر پارلیمنٹ میں اس قانون کو تبدیل کرنے کے حوالے سے کوئی ترمیم آتی ہے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے‘‘۔

حکومت کی اتحادی سیاسی جماعت نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کی حمایت کرتی ہے۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل حسن ناصر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے اس حوالے سے کہا، ’’یہ رجحان دیکھنے میں آرہا ہے کہ لوگ ذاتی دشمنیوں کے لیے بھی اس قانون کا استعمال کر رہے ہیں، جس سے بے گناہ افراد کی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ ہم اس قانون کو ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے کیونکہ تمام مذاہب کا احترام واجب ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کا غلط استعمال روکا جانا چاہیے اور جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سخت سزا ملنی چاہیے۔ اگر اس قانون میں اس حوالے سے کوئی ترمیم آتی ہے، تو ہماری پارٹی اس کی حمایت کرے گی‘‘۔

اس کے برعکس انسانی حقوق کی تنظیمیں اس قانون کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اسد بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا تو مطالبہ یہ ہے کہ اس قانون کو ختم ہونا چاہیے۔ جب سے یہ قانون بنا ہے، اس طرح کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ یہ جنرل ضیاالحق کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس سے پہلے بھی تو پاکستان میں لوگ رہتے تھے لیکن اس طرح کے واقعات نہیں ہو رہے تھے۔ ہمارے سیاست دانوں میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ انتہا پسندوں کو چیلنج کر سکیں۔ اگر وہ اس میں ترمیم بھی کرتے ہیں تو ہم اس کو بھی ایک مثبت قدم سمجھیں گے۔ کہیں سے ہی سہی، آغاز تو ہونا چاہیے‘‘۔

مولانا فضل الرحمان نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ اس قانون میں کسی بھی ممکنہ ترمیم کی بھرپور مخالفت کریں گے جب کہ جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل اویس نورانی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم آرٹیکل 295 سی میں ترمیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی کئی سفارشات پڑی ہوئی ہیں، پارلیمنٹ ان کے بارے میں تو نہیں سوچتی یا ان پر تو قانون سازی نہیں کرتی، توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے انہیں کیا جلدی ہے۔ لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ممتاز قادری کو تو پھانسی دے دی گئی لیکن آسیہ کو پھانسی نہیں دی گئی۔‘‘

جب اسی قانون میں ترمیم کے حوالے سے اے این پی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی نے بھی کوئی واضح جواب دینے کی بجائے گول مول انداز میں بات کی ۔ جب ان کی رائے دریافت کی گئی، تو انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کو کچھ افراد غلط طریقے سے استعما ل کر رہے ہیں لیکن یہ ایک حسا س موضوع ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں اس حوالے سے کوئی ترمیم پیش ہوتی ہے تو ہم اس کے تمام نکات کا بغور جائزہ لیں گے۔ اس کے تمام پہلوؤں پر بحث کریں گے اور پھر جو پارلیمنٹ کی اجتماعی فہم و فراست ہوگی، ہم اسی کے ساتھ چلیں گے‘‘۔

مسلم لیگ نون کے رہنما راجہ ظفرالحق نے اس سلسلے میں کہا کہ وہ ڈی ڈبلیو کی طرف سے اس بارے میں استفسار کے وقت پشاور میں تھے اور تب اس مسئلے پر بات نہیں کر سکتے تھے۔

DW

2 Comments