دہشت گردوں کا سوفٹ امیج اور کرپٹ سیاست دان

ایک آن لائن میگزین میں اہلسنت والجماعت کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کا فرینڈلی انٹرویو پڑھ کر چند سال قبل جیو ٹی وی سے نشر ہونے والا حافظ سعید کا انٹرویو یا د آگیا جس میں لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید سیلاب زدگان اور غربا میں راشن تقسیم کرتے نظر آرہے تھے۔

یہ شاید 2014کا واقعہ ہے جب جیوٹی وی کے نامور میزبان سہیل وڑائچ نے ا پنے پروگرام”ایک دن جیو کے ساتھ” میں حافظ سعید کو پیش کیا۔

ان کا انٹرویو کو دیکھ کر آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ سعید ایک انتہائی نرم دل اور شفیق شخصیت کے مالک ہیں جن کا دل ہر وقت پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے دھڑکتا رہتا ہے ۔اس پروگرام میں حافظ سعید کو ایک دہشت گرد تنظیم “لشکر طیبہ” کی بجائے “فلاح انسانیت فاونڈیشن” کے سربراہ کے طور پر پیش کیا گیا جس میں وہ خدمت خلق کے مختلف منصوبوں پر عمل کرتے نظر آئے۔

ان دنوں لاہور کے نزدیک شاہدرہ کے علاقے میں سیلاب نے بھی کچھ تباہی مچائی تھی کچھ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ انٹرویو کے وقت پانی اتر چکا تھا جبکہ سکرپٹ میں حافظ سعید کا سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنا بھی شامل تھا اس لیے جیو چینل نے حافظ سعید کو سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کو فلمانے کے لیے ایک نہر کا انتخاب کیا ۔ پروگرام میں سہیل وڑائچ اور حافظ سعید اپنے محافظین کے ساتھ کشتی میں بیٹھے نہر میں سیلاب کی “تباہ کاریاں” ملاحظہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور راشن کی تقسیم کا منظر مریدکے کے نزدیک لشکر طیبہ کے ایک وسیع وعریض ہیڈآفس میں فلمایا گیا۔

اس انٹرویو کا مقصد پاکستانی عوام کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ حافظ سعید دہشت گرد نہیں بلکہ ایک خدا ترس انسان ہیں۔ پاکستانی عدالتیں بھی انہیں ہر طرح کے الزامات سے بری کر چکی ہیں۔چونکہ مغربی دنیا اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت مسلمانوں کو پھلتا پھولتا دیکھ نہیں سکتے اس لیے وہ پاکستان کی مذہبی تنظیموں کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈے میں مصروف رہتے ہیں۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ لشکر طیبہ اور پاکستان کی دوسری جہادی تنظیمیں سر حد پار دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔ بین الاقوامی دباؤ پر ریاست دکھاوے کے لیے ان پر کچھ پابندیاں بھی عائد کرتی ہیں اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا جاتا ہے ۔ عدالتیں انہیں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیتی ہیں اور میڈیا ان تنظیموں کے رہنماؤں کا سوفٹ امیج پیش کرتا ہے ۔ دوسری طرف یہی میڈیا سیاستدانوںکو کرپٹ اور ملک دشمن کے طور پر پیش کرتا ہے اور پاکستان کی آزاد عدلیہ بھی انہیں آئین کی شق 62اور 63کی رو سے نااہل قرار دے دیتی ہے کیونکہ یہ سیاست دان  دشمن ملک سے دوستی اور تجارت کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی تاریخ اور نصاب میں ہمیشہ سے ہی حملہ آوروں کو ہیرو بنا کر پیش کیاگیا ہے ۔ اسی طرح دہشت گردوں کو میڈیا میں ان کا نقطہ نظر سنانے کے نام پر پیش کرنا بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد ٹی وی چینلز پر مذہبی اورجہادی تنظیم کے رہنما یہ فرماتے نظر آتے ہیں کہ کوئی مسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ یہ جو طالبان ہیں انہیں تو خود امریکہ نے پیدا کیا ہے اور یہ سب تباہی تو امریکہ پھیلا رہا ہے۔ لہذاامریکہ ان پر حملے بند کردے تو ایسے واقعات ختم ہو جائیں گے۔

ابھی چند ماہ پہلے ہی آزاد کشمیر کی ایک جہادی تنظیم حزب المجاہدین کے ایک کمانڈر برہان وانی دہشت گردی کے واقعے میں مارے گئے مگرپاکستانی میڈیا میں اسے اسلام کے ہیرو کا درجہ دیا گیا۔اہلسنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی جن کا نام پاکستان کے شیڈول فور ( انتہائی خطرناک دہشت گرد )میں نام درج ہے ، کی خدمات کو بھی عوام کے سامنے پیش کرنا بھی ریاست کی مجبوری ہے۔

محمد احمدلدھیانوی پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کے خلاف دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں اور یہ جو پاکستان کے در و دیوار پر “شیعہ شیعہ کافر شیعہ” کے نعرے لکھے نظر آتے ہیں وہ انہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سعودی عرب اور لبیا سےبھاری تعداد میں رقوم بھی وصول کیں۔ گورنر سلمان تاثیر ہو ں یا مشال خان جیسا انسان دوست طالب علم، انہی کی تعلیمات کے نتیجے میں بربریت کا نشانہ بنے مگر ا نہیں کوئی پشیمانی نہیں۔

آج ان تنظیموں کے بین الاقوامی سرپرست خود ہی خانہ جنگی کا شکار ہو چکے ہیں لہذا ان کی مالی امداد بھی بند ہو چکی ہے۔پاکستان کی فوجی اشرافیہ بھی فی الحال انہیں آرام کا مشورہ دے رہی ہے تو اس دوران خدمت خلق سے اچھا ذریعہ آمدن کوئی نہیں جس کے لیے میڈیا میں ان کی خدمات کا تذکرہ انتہا ئی ضروری ہے۔ اگر یہ حضرات نیک نیتی سے انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں تو پھر ان کا چرچا تو ضروری ہے۔

حافظ سعید ہوں یا محمد احمد لدھیانوی، مولانا مسعود اظہر ہوں یا سید صلاح الدین ، یہ سب پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کے اثاثے ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور فوجی امداد  کا دار و مدار بھی انہی شخصیات کی کارگردگی پر ہے۔ لہذا ایک سچے اور محب الوطن پاکستانی کی حیثیت سے ان کی سماجی خدمات کو پرموٹ کرنے میں کوئی برائی نہیں۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.