مشال مرگیا ،مشعل کو بجھنے نہ دو

علی احمد جان

مشال خان کو عبدالولی خان یونیورسٹی کے کیمپس میں نہ بچایا جا سکا کیونکہ اس کو پڑھانے والے استاد اس کے ساتھ پڑھنے والے ساتھی، اس کو سننے والے اس کے پرستار ، وہ جن کی فیسوں کی کمی کے لئے لڑ رہا تھا وہ غریب طلبہ، وہ جن کی برابری کے حق کے لئے آواز اٹھا رہا تھا وہ طالبات اور اس کو ترغیب دینے والے اس کے گرو سب چاہتے تھے کہ وہ بچ نہ پائے۔

اس کا گناہ ہی ایسا تھا کہ اس کی معافی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے ان کو کھلم کھلا چیلنج کیا تھا جن کے لئے ایسی یونیورسٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہاں تعلیم تو بہانہ ہوتا ہے جبکہ ایک عمارت بنانا، اس کے لئے منہ مانگی قیمت پر زمین خریدنا، اس میں سازوسامان مہیا کرنا اور ملازمتیں دینا اور اس کے بعد ملازمین کا یہاں دستیاب وسائل کی لوٹ مار کرنا ہی اصل مقصد ہوتا ہے ۔

جو لوگ ایسی یونیورسٹیاں بناتے ہیں ان کے اپنے بچے کبھی یہاں نہیں پڑھتے اس لئے ان کو اس بات سے دلچسپی نہیں ہوتی ہے کہ یہاں پڑھائی کیسی ہوتی ہے ۔ یہ تو مشال خان کا مسئلہ تھا کہ اس یونیورسٹی میں استاد کم اور فیس زیادہ کیوں ہے۔ اسفندیار ولی خان ، عمران خان ، پرویز خٹک، امیر حیدر ہوتی ، افتاب شیرپاؤ میں سے کسی کے بچے یہاں نہیں پڑھتے۔

عمران خان نے تو پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیم اور صحت ممکن نہیں اس لئے انھوں نے نمل یونیورسٹی اور شوکت خانم کے ہسپتال کا اپنا برانڈ متعارف کروادیا ہے۔ یہ تو مشال خان تھا جو ابھی بھی غلطی سے یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ صحت اور تعلیم ہر شہری بنیادی حق ہے اور ریاست یہ حق مہیا کرنے کی پابند ہے۔ ایسے سوشلست نظریات والے آدمی کو کیسے زندہ رہنے دیا جاتا اس لئے اس کو بھی ڈاکٹر نجیب اللہ کو دی گئی طالبانی سزا کا مستحق ٹھہرایا گیا۔

عبدالولی خان یونیورسٹی میں مرنے والے مشال خان کو اس واقعہ کی شام کو چند سر پھروں نے ٹیلی ویژن کے سکرین پر بچانے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ وہ ایسے واقعات میں مرنے والے والوں کی لاشیں اٹھا کر نوچنے والے گدوں کے ہاتھ لگتا ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر ایک بوڑھے صحافی کہلانے والے اینکر پرسن نے بول بول کر اور تین بیوقوف نظر آنے والوں نے ذرا ہٹ کے سوالات اٹھالئے جس نے مجھ جیسے چھوٹی کھوپڑی کے آدمی کو بھی اس رات سونے نہ دیا۔

صبح کچھ اخبارات اور کچھ آن لائن میگزین بھی مشال خان کی موت پر سوالیہ نشان لگائے بیٹھے تھے جنھیں پڑھنے کے بعد دوسروں کے بھی ابھی تک زیر لب دبے سوالات بام لب آگئے ۔ جب سوالات اٹھے تو تشکیک نے بھی جنم لیا ، تجسس بھی پیدا ہوا اور تحقیق بھی ہوئی جو حقائق پر منتج ہوئی۔

جمعہ کے دن مشال خان کا جنازہ ہونا تھا اور ظلمتوں کے پالے نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کسی مسلمان کی طرح جنازہ پڑھایا جائے اس لئے انھوں نے ان کے گاؤں زیدہ میں صبح سے ہی ایسی فضا بنائی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں خوف طاری کیا جائے تاکہ کوئی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔

مقامی مسجد سے صبح ہی سے نعتیں نشر کرکے ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ جیسے مشال خان کی موت سے ان کو کوئی خوشخبری مل گئی ہو ۔ ایسے میں ان کے ایک دوست اور ان کے ساتھیوں نے دلیری اور شجاعت سے مشال خان کے جنازے کا اہتمام کرکے ان کی بے گناہ موت کو ایک مرتد کی موت قرار دینے کی گھناؤنی سازش سے بچالیا۔

جو مشال کو اس کے نظریات اور خیالات یا ذاتی حیثیت میں جانتے تھے انھوں نے واقعے کے رونما ہونے پر ہی اپنے شکوک کا اظہار کیا تھا کہ یہ قتل عمد ہے۔ جمعہ کے دن سول سوسائٹی نے پشاؤر پریس کلب کے سامنے پہلا مظاہرہ کیا جہاں ایک اچھی خاصی تعداد خواتین کی تھی جنھوں نے اس واقعے کہ مذمت کی اور اس کیس کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ سول سوسائٹی نے اس دن کراچی ہریس کلب اور طلبہ نے قائد اعظم یونیورسٹی میں ایسے مظاہروں کا اہتمام کیا ۔

اسلام آباد لیٹریچر فیسٹول کے ہر سیشن میں مشال خان کے لئے انصاف کی گونج سنائی دی اور کچھ شعراء کی نظموں نے سامعین اور ناظرین کو زار و قطار رلادیا ۔ دوسرے دن اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں ایک مظاہرہ ہو ا جس میں سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے شرکت کی اور وضاحتیں دینی شروع کر دیں۔ مشال کے سوئم پر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنان نے عصمت شاہجہاں کی قیادت میں مشال کے گاؤں زیدہ جاکر اپنے جذبات کا اظہار کرکے مشال خان کی شہادت کو خراج تحسین پیش کیا ۔

میڈیا، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی کارکنان نے اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں مشال خان کو سلمان تاثیر بننے سے بچایا جس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے سرکاری مولوی بھی تیار نہیں ہوا تھا، جس کے لئے اسمبلی میں فاتحہ بھی نہ ہوسکی تھی اور نہ ہی اس کے قتل کی سرکاری طور پر مذمت ہوسکی۔

سلمان تاثیر کے قاتل کی سزا کو ایک انعام میں بدل کر پورے معاشرے میں توہین مذہب کے الزام کو ثبوت بنا دیا گیا جس کے بعد کئی ایک قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جن میں سے ایک مشال خان کی ہے۔ اب مشال خان کی بے گناہی آئندہ اگر کسی کی جان بچانے میں کام آئی تو مشال کا اپنا اور اس کے والدین اور بہن کی خواہش بھی پوری ہوگی۔

مشال جس مشعل کا علمبردار تھا وہ روشن خیالی ، حق گوئی اور ترقی پسندی کی وہ شمع تھی جس کو اٹھاتے اٹھاتےاب تک ان گنت ہاتھ کٹ چکے ہیں۔ کئی ایک سوئے یار سے نکلے تو سوئے دار پہنچ گئے اور کئی ایک سولی پر لٹک گئےہیں۔ پاکستان میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے اس میدان کار زار میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔

بھٹو کے لئے آسان تھا کہ وہ ایک آمر سے سودا کرتا اور کسی ملک میں جاکر عیش و آرام کی زندگی گزارتا۔ بے نظیر کو پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ ان کی جان چلی جائیگی لیکن انھوں نے ایسی زندگی پر موت کو ترجیح دی جس میں اس کےہم وطن اپنی آزادی سے محروم ہوں اور چند لوگ پوری ریاست کو اپنی تنگ نظری کا بھینٹ چڑھا دیں۔ بشیر بلور کو بھی معلوم تھا کہ موت اس سے چند گز کی دوری پر ہے لیکن وہ پلٹ کر نہیں گیا کیونکہ وہ اپنا نام ان میں لکھوانا نہیں چاہتے تھے جنھوں نے ظلمت کے پالوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے تھے۔ میان افتخار کو اپنے اکلوتے لخت جگر کی قربانی دینے کے بعد آج بھی اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں کی سلامتی کی فکر لگی ہوئی ہے کہ ان کی زندگیوں کو کیسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

نہ صرف مشال کی موت پر روایتی تعزیتی پیغامات سے بلکہ اپنے مستقل طرز عمل سے اب پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو روشن خیالی اور ترقی پسندی کا علم تھامنا ہوگا جس کو مشال خان کے ہاتھ سے چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر ان دونوں سیاسی جماعتوں نے رواداری کے نام پررجعت پرستوں سے مصلحت پسندی اور صلح جوئی کی روش ترک نہ کی تو ان کے نظریاتی اساس کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کا نظریاتی سرمایہ ہی روشن خیالی اور ترقی پسندی ہے جو نوجوانوں کا مستقبل ہے۔ 

اگر ان سیاسی جماعتوں کے اکابرین نے اپنے فوری اور ذاتی مفادات کے لئے اپنے نظریاتی اساس پر سودے بازی جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جب ان میں اور ان کے مخالفین کے بیچ جو ایک باریک سی لکیر رہ گئی ہے وہ بھی معدوم ہو جائیگی اور لوگ پوچھیں گے کہ ان میں اور دوسروں میں فرق کیا رہ گیا ہے۔ اور جب فرق ختم ہوجائے گا تو لوگ ان کے پیچھے کیوں چلیں گے۔

Comments are closed.