سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر میں اضافہ


سانحہ مردان نے پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں ایسے افراد کو شامل ہونے کی اجازت کیوں دے رہی ہیں، جن کے خیالات مذہبی رجعت پسندی، سخت گیری اور انتہا پسندی کے عکاس ہیں۔

پاکستان میں قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں انتہا پسند نظریات رکھنے والے افراد کو برداشت کرتی ہیں۔ ملکی سوشل میڈیا پر یہ بات خوب چلی کہ ہندو لڑکیوں کو جبراًمسلمان بنانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما (رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو)  کا ہاتھ ہے   جب کہ سانحہ سیہون کے حوالے سے بھی کچھ ایسے افراد کو حراست میں لیا گیا، جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔

مسلم لیگ کے رہنما اور فیصل آباد سے سابق ایم این اے مرحوم صاحبزادہ کریم پر یہ الزام تھا کہ وہ مذہبی طور پر انتہا پسندانہ خیالات کے حامل تھے جب کہ پاکستانی وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اس مبینہ تقریرکے بھی سوشل میڈیا پر بہت چرچے ہوئے، جس میں انہوں نے ممتاز قادری کو ایک ہیرو قرار دیا تھا۔

وزیر اعظم کی جماعت نواز لیگ پر یہ الزام بھی ہے کہ اس کے کالعدم تنظیموں سے روابط رہے ہیں اور اس کے کارکنان سانحہ بادامی باغ میں بھی ملوث تھے۔ اسی طرح اب سیکولر سوچ کی حامل عوامی نیشنل پارٹی کی طلبہ تنظیم پر بھی یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس کے ارکان مشعل خان پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ بلکہ اے این پی کے مرکزی رہنما حاجی غلام احمد بلور مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت میں بولتے رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر نے نشو ونما کیسے پائی، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے سماجی علوم کے ماہر اور معروف دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا، ’’معاشرے میں مجموعی طور پر مذہبی رجعت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ چونکہ سیاسی جماعتیں بھی اسی معاشرے سے ہیں، تو اس کا عکس ان میں بھی دکھائی دے گا۔ سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر کی شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ملک میں کوئی قد آور سیاسی شخصیات جیسے کہ سہروردی، بھٹو اور قیوم خان نہیں ہیں۔ آپ کے پاس دوسرے درجے کی سیاسی قیادت ہے۔‘‘۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں جس طرح اسٹڈی سرکل کے ذریعے سیاسی کارکنان کی تربیت کی جاتی تھی، وہ اب معدوم ہے۔ سماجی طور پر کئی ایسی تنظیمیں تھیں، جو روشن خیالی کے فروغ کے لیے کام کرتی تھیں، کئی مجلے اور رسالے ایسے چھپتے تھے، جو سماجی اور سیاسی معاملات میں عوام کی رہنمائی کرتے تھے۔ ترقی پسند مصنفین اور ان کے رسالوں نے ایک طویل عرصے تک سماج میں مکالمے کے رجحان کو فروغ دیا اور معاملات کا تنقیدی جائزہ لینا سکھایا۔ اب چونکہ اس طرح کی تنظیمیں بہت زیادہ متحرک نہیں ہیں، تو معاشرہ ایک اجتماعی جمود کا شکار ہے، جس کا اثر سیاسی جماعتوں پر بھی پڑا ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا، ’’سیکولرازم کو ہمارے ملک میں گالی بنا دیا گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور کچھ نہیں کرتیں تو کم از کم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی اس تقریر کو ہی اپنا رہنما اصول بنا لیں، جس میں پاکستان کے بانی نے کہا تھا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا ریاستی امور سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یا پھر وہ قرآن کے اس پیغام کو ہی اپنا لیں، جس میں کہا گیا کہ تمہارا دین تمہارے ساتھ اور ہمارا دین ہمارے ساتھ۔ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی پارٹی رکنیت کے لیے کوئی جامع اصول طے نہ کیے تو پھر مردان کے سانحے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے‘‘۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون سے پہلے صرف غازی علم دین والا واقعہ ہوا تھا۔ ’’لیکن جب سے یہ قانون بنا ہے، ایسے تیرہ سو واقعات ہو چکے ہیں اور پچانوے فیصد مقدمات میں ملزم مسلمان ہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس مسئلے پر سوچنا اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے کوئی جامع پروگرام مرتب کرنا ہوگا‘‘۔

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر لال خان نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سیاسی جماعتوں میں ایسے عناصر اس لیے داخل ہوئے ہیں کہ سیاست دان عوام کے مسائل حل نہیں کرتے اور جب عوام میں ان مسائل کے حوالے سے بے چینی بڑھتی ہے، تو وہ اس کو حل کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کیا، جس کا نقصان پورے سماج کو ہوتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر لال خان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین خود بھی بہت رجعت پسند ہیں۔’’بے نظیر بھٹو پیروں فقیروں کے پاس جاتی تھیں اور توہمات پر یقین رکھتی تھیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان سے معاہدے کر کے سوات میں شریعت کورٹس بنائیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی ممبرشپ کے لیے کوئی نہ کوئی پیمانہ بنانا پڑے گا۔ مثال کے طور پر سترکی دہائی میں پیپلز پارٹی کی رکنیت کے لیے تو ایک پیمانہ ہوتا تھا لیکن اب کسی بھی سیاسی جماعت میں ایسے کوئی ضابطے نہیں ہیں۔ اگر ہمیں انتہا پسند عناصرکا قلع قمع کرنا ہے، تو ہمیں کوئی نہ کوئی پیمانہ تو رکھنا پڑے گا اور نظریاتی سیاست کرنا ہو گی‘‘۔

لیکن کیا سیاسی جماعتیں سانحہء مردان کے بعد اپنا قبلہ درست کرنے کی کوئی کوشش کر رہی ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اے این پی کے مرکزی رہنما زاہد خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم اب اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ ہماری صفوں میں کوئی ایسا فرد نہ ہو، جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلائے۔ ہم کہتے ہیں کہ سانحہء مردان میں اگر ہمارے لوگ ملوث ہیں، تو انہیں بھی کڑی سزا دی جائے۔ اے این پی نے بحیثیت ایک جماعت ہمیشہ مذہبی انتہا پسندی کی مخالفت کی ہے۔ جب ہمارے ایک لیڈر غلام احمد بلور نے متنازعہ بیان دیا تھا، تو ہم نے فوراﹰ اس کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ اس بیان کا پارٹی کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم ان عناصر کی سرکوبی کریں گے جو انتہا پسندانہ خیالات کو فروغ دینے میں ملوث پائے جائیں گے‘‘۔

DW

Comments are closed.