مر جاؤں گی لیکن اپنا مذہب نہیں بدلوں گی

ارم عباسی

پاکستان کے صوبے سندھ کی حکومت تین مہینے گذر جانے کے باوجود اقلیتوں کے تحفظ کے لیے متعارف کرائے جانے والے بل کریمینل لا ایکٹ سنہ 2015 کو اسمبلی میں پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سندھ اسمبلی نے اس بل کے مسودے کو گذشتہ برس اتفاق رائے سے منظور کیا تھا مگر سخت گیر مذہبی گروہ کی جانب سے احتجاج کے بعد اس بل کو یہ کہہ کر واپس لے لیے گیا تھا کہ اس میں مزید ترامیم کی گنجائش ہے۔
بیشتر رکن پارلیمان کے مطابق سندھ حکومت ایک جانب قدامت پسند گروہ کے دباؤ کی وجہ سے اس بل پر دوبار بحث شروع کرنے سے کترا رہی ہے تو دوسری جانب پاکستان میں مقیم اقلیتوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے۔ ’
ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے اس بل کو واپس لینے کے فیصلے نےایک مرتبہ پھر ان پارلیمانی اور غیر پارلیمانی عناصر کی طاقت سے پردہ فاش کیا ہے جو اقلیتوں کے حقوق کو بہ ظاہر نظر انداز کرتے ہیں۔
اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن رادھا بهیل کے مطابق میر پور خاص ضلع میں گذشتہ تین ماہ میں تین ہندو لڑکیوں کے زبردستی مذہب تبدیل کرانے کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہمیں امید ہو چلی تھی کہ اب ہماری ہندو لڑکیوں کو تحفظ ملے گا۔ اسلام کے نام پر اقلیتی برداری کی لڑکیوں کو اغوا کر کے زبردستی شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے والوں کو سزا ملے گی مگر یہ امید بہت جلد دم توڑ گی۔ اس بل کو واپس لینے کے حکومتی فیصلے نے غیر مسلم لڑکیوں کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ نہ صرف ہندو آبادی مایوس ہے بلکہ پہلے سے زیادہ خوف زدہ بھی ہے‘۔
رادھا کہتی ہیں ’ہندو تو اپنا حق حکومت سے ہی مانگ سکتے ہیں اور اگر حکومت ان قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، کمزور پڑ جاتی ہے تو پھر اس زیادتی کو ہونے سے کون روکے گا؟ حکومت کی کمزوری سے ایسا جرم کرنے والوں کو مزید شے ملے گی۔‘
میرر پور خاص سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر واقع ایک دیہات کی رہائشی انجو اپنے مسلمان اغواکاروں کا تشدد سہنے کے بعد حال ہی میں گھر لوٹی ہیں۔
انجو کو پانچ مسلمان مردوں نے اغوا کیا اور چند ماہ قید میں رکھا تاکہ اسے مسلمان کیا جا سکےـ
عدالت کی مداخلت کے بعد ہی انجو کی گھر واپسی ممکن ہوئی۔
سولہ16 سال کی عمر میں انجو کو شوخ اور چنچل ہونا چاہیے تھا مگر ان کا چہرے مرجھایا ہوا تھا۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بھی ان کی آنکھوں میں نمی نہ تھی جیسے رونے کے لیے ان کے پاس آنسو ہی نہ بچے ہوں۔
وہ بولیں ’میں اپنی امی کے ساتھ کھتیوں میں گھاس لینے گئی تھی۔ پانچ لوگ بندوق لے کر آئے اور بولے کہ ہمارے ساتھ چلو، ورنہ گولی مار دیں گے۔ میں ڈر کے مارے چلی گی۔ وہ مجھے بہت دور لے کر گئے اور ایک گھر میں جا کر رسیوں سے باندھ دیا‘۔
انجو کا کہنا تھا تین چار مہینوں تک مجھے بہت مارا پیٹا میرے ساتھ زیادتی بھی کی۔ بولتے تھے کہ اسلام قبول کر لوں ورنہ نہیں چھوڑیں گے لیکن میں نے کہا کہ میں مر جاؤں کی لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑوں گی۔
پاکستان میں مذہب کی زبرستی تبدیلی کی کی روک تھام کے لیے سندھ اسمبلی کے رکن پاکستان مسلم لیگ ف کے نند کمار نے کریمینل لا ایکٹ سنہ 2015 پیش کیا تھا اور جب گذشتہ برس نومبر میں یہ بل متقفہ طور پر پاس ہوا تو اس کے بعد انھیں دھمکیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
انھوں نے رینجرز کو مطلع کیا کہ اس بل کی منظوری کے بعد ان کی جان کو خطرہ ہے۔ وہ انٹرویو دینے سے بھی گھبراتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ پارلیمان کے اندر اور باہر بیٹھے قدامت پسند گروہ اس بل کی راہ میں رکاٹ حائل کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد سندھ اسمبلی کے اراکین اس پر بات کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
اس کی مخالفت کرنے والے تنظیم اسلامی کے رکن شجاح الدین شیخ نے کہا 18 سال سے کم عمر کے کسی لڑکے یا لڑکی کے قبول اسلام پر پابندی کے حوالے سے تمام دینی جماعتوں اور علما کا اتفاق ہے کہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ تو کوئی مسلمان یہ کیسے برداست کر سکتا ہے کہ اس بل کے ذریعے لوگوں کی اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر پابندی لگائی جائے؟
تو پھر اسلام کے نام پر انجو کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو کیسے روکا جائے؟ اس بارے میں ان کے پاس کوئی جامع حکمت عملی نہیں ہے۔
ایک تنظیم موومنٹ فور سولیڈیرٹی اینڈ پیس کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار کے قریب غیر مسلم لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور سندہ حکومت کی اسے روکنے کی کوشش پارلیمنٹ کے باہر بیٹھے انتہا پسند گروہ اور مذہبی جماعتوں نے کچل دیا۔
ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں پارلیمان کی کمزوری اور قدامت پسند گروہ کی طاقت کے نتیجے میں اسلام کے نام پر غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ ریپ یا زبردستی شادی کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گا۔

BBC

Comments are closed.