کچھ ذکر جنرل راحیل کی سعودی نوکری کا

سوشل میڈیا میں بھی جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب جانے پر کئی تبصرے ہورہے ہیں ۔ایک من چلے نے لکھا ہے کہ ایک گاؤں کے چوہدری کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی تو کچھ عرصے بعد چوہدری نے کہا کہ اس کی شادی ہماری مرضی سے ہوئی ہے۔ براہ مہربانی اس لطیفے کا تعلق راحیل شریف کے سعودیہ جانے سے نہ جوڑا جائے۔

اس لطیفے سے قطع نظر سعودی عرب کے زیرِ قیادت بننے والے عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر ایران کے تحفظات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ان تحفظات کے حوالے سے پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک نئی  بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔

ایران کی جانب سے اِن تحفظات کا اظہار ایرانی سفیر برائے پاکستان مہدی ہنردوست  نے اپنے ایک بیان میں کیا، جس کو آج پاکستانی اخبارات میں بھر پور جگہ دی گئی۔ ہنر دوست کا کہنا تھا کہ تہران اس اتحاد سے مطمئن نہیں ہے۔

ہمیں اس مسئلے کے حوالے سے تشویش ہے اور ہمارے خیال میں اس سے مسلم ممالک کی یکجہتی پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘

ایرانی نیوز ایجنسی آئی آر این اے کے مطابق ہنر دوست نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے  سابق آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو این او سی دینے سے قبل  ایرانی حکام سے رابطہ کیا تھا لیکن ایرانی سفیر کے خیال میں اس کا یہ مطلب نہیں کہ تہران اس فیصلے سے مطمئن ہے یا اُس نے اسے تسلیم کر لیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایران کو خدشہ ہے کہ یہ عسکری اتحاد تہران اور اس کے اتحادی حوثی باغیوں کے خلاف استعمال ہوگا، جو سعودی نواز یمنی حکومت کے خلاف بر سرِ پیکار  ہیں۔ لیکن پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ اسلام آباد اسلامی ممالک کے درمیان کسی تنازعے میں فریق نہیں بنے گا۔

 حکومتی جماعت کے اہم رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں ایران کو اس بات کا ادراک ہے کہ یہ معاہدہ اس کے خلاف نہیں ہے اور وقت یہ ثابت بھی کردے گا۔ پاکستان کبھی بھی مسلم ممالک کے درمیان تنازعات میں فریق نہیں بنتا بلکہ اپنی غیر جانب داری برقرار رکھتا ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران ہم پر بہت دباؤ تھا کہ ہم عراق کا ساتھ دیں لیکن ہم غیر جانب دار رہے۔ ہم نے اپنے عرب بھائیوں کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ہم ایران کو تنہا نہیں کر سکتے۔ ہمارے اس موقف کی وجہ سے صدام حسین ہم سے ناراض بھی تھا‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ تاثر غلط ہے کہ چونکہ راحیل شریف سابق آرمی چیف ہیں، تو اُن کے پاس بہت سے ایسے ریاستی راز ہوں گے جو افشاء ہو سکتے ہیں۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی ریاستی راز افشاء ہو۔ راحیل شریف اس ملک کے آرمی چیف رہے ہیں اور انہیں پاکستان کے مفادات کا دفاع کرنا آتا ہے۔ اور بھی ریٹائرڈ جنرل امریکا یا دوسرے ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن کبھی کوئی راز افشاء نہیں ہوا۔ یہ بھی بات غلط ہے کہ جنرل راحیل سعودی عرب کے ملازم ہیں۔ میرے خیال میں یہ اتحاد ایک ایسے فورم کی شکل اختیار کر سکتا ہے جہاں سعودی عرب اپنی ایرانی پالیسی کا ایک نئے انداز میں تجزیہ کر سکتا ہے اور یہ فورم مسلم ممالک کے درمیان تنازعات ختم کرنے کے لئے بھی کوششیں کر سکتا ہے ۔میرے خیال میں ایسا مرحلہ نہیں آئے گا کہ اس فورم کو ایران کے خلاف استعمال کیا جائے‘‘۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ حکومت نے ابھی تک پارلیمنٹ کو اس اتحاد کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں اور نہ ہی اس کے خدوخال و مقاصد بیان کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں یہ سوال تو اٹھتا رہے گا کہ حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا‘‘۔

کچھ تجزیہ نگار بھی راجہ ظفر الحق کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ معروف فلسطینی صحافی اور مشرق وسطیٰ کے اُمور کے ماہرجمال اسمعیل نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان یا اس اتحاد کے کسی اور رکن ملک نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ یہ عسکری اتحاد ایران یا کسی فرقے کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود تہران اس کو اپنے خلاف سمجھتا ہے۔ سعودی عرب نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ اتحاد داعش ، القاعدہ اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ہے۔ یہ یمن کے حوثی باغیوں یا ایران کے خلاف نہیں۔‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’پاکستان کا کئی مسلمان ممالک کے ساتھ عسکری تربیت کا اتحاد ہے۔اردن، یمن اور سوڈان سمیت کئی ممالک کے فوجی افسران کامرہ یا دوسرے فضائی و بحری تربیتی مراکز پر اپنی ٹریننگ کرتے ہیں۔ ٹریننگ کے بعد وہ کس طرح اپنے ممالک کے لئے کام کرتے ہیں یہ ان کا اور ان کے ممالک کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے پاکستان کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ تہران کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کرے کہ تربیت حاصل کر کے جانے والے افسران کی خدمات کو کس طرح استعمال کیا جائے گا‘‘۔

تاہم اس اتحاد کے ناقدین راجہ ظفر الحق اور جمال اسمعیل کی اس بات سے مطمئن نہیں۔ ان کے خیال میں اس اتحاد کی نوعیت ایران مخالف ہے ۔ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے مجلسِ وحدتِ مسلمین کے نائب ترجمان ناصر شیرازی نے کہا، ’’اگر یہ اتحاد مسلم ممالک کے لئے ہے تو اس میں سارے مسلم ممالک کیوں نہیں ہیں۔ یہ او آئی سی یا یواین کے زیرِ انتظام کیوں نہیں ہے۔ اگر یہ اتحاد داعش و القاعدہ کے خلاف ہے تو داعش کے خلاف لڑنے والے ایران، عراق اور شام اس کا حصہ کیوں نہیں ہیں۔ دراصل داعش و القاعدہ کو بنانے والے توسعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادی ممالک ہیں تو وہ ان کے خلاف اقدامات کیوں کریں گے‘‘۔

ناصر شیرازی کا موقف تھا کہ  مسلم ممالک کے درمیان تنازعات کی صورت میں غیر جانبداری پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون ہے تاہم انہوں نے مزید کہا ’’لیکن ہم جانب داری کی طرف جارہے ہیں۔ ہم ایک مسلم ملک کے خلاف بنائے جانے والے اتحاد کا حصہ بن رہے ہیں۔ ہم طالبان دہشت گردی کے خلاف لڑرہے ہیں۔ ہمیں تو کبھی سعودی عرب نے کوئی پیشکش نہیں کی۔ نہ ہی آل سعود نے کوئی اتحاد برما، فلسطین یا کسی اور مسلم علاقے کو آزاد کرانے کے لئے بنایا۔ ہمارے خیال میں اس اتحاد کو یمن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ سعودی عرب وہاں بے رحم بمباری کر رہا ہے۔ بدلے میں اسے پھول تو نہیں ملیں گے اور جب اس بمباری کا جواب دیا جائے گا تو ریاض کہے گا کہ ہماری سرزمین پر حملہ ہوگیا ہے لہذا اس اتحاد کو ملک کے دفاع کے لئے استعمال کیا جائے اور اس طرح پاکستان بھی اس جنگ کا حصہ بن جائے گا۔ ہمارے اپنے ہی مسائل بہت  ہیں۔ ہمیں بحیثیت پاکستانی ان مسائل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ایران و افغانستان ہمارے پڑوسی ہیں۔ سعودی عرب ہمارا پڑوسی نہیں ہے۔ ہمیں اپنے خطے کو دیکھنا ہے۔ غیروں کی جنگ میں کود کر ہم اپنا ہی نقصان کریں گے۔‘‘

مجلسِ وحدتِ مسلمین کے نائب ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ایسا شخص جس کے سینے میں ریاست کے انتہائی اہم راز ہوں وہ کیسے سعودی عرب یا کسی اور ملک میں ملازمت کر سکتا ہے۔ایسے اقدامات ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔

DW/News

One Comment