قانون تنقیدِ مذہب اور قانون حرمتِ انسانی کی ضرورت

آصف جاوید

پاکستان اگرواقعی اسلام کا قلعہ ہے ، اور مذہبِ اسلام پاکستان اور جدید دنیا میں ایک پرامن مذہب کے طور پر اپنی شناخت برقرا رکھنا چاہتا ہے،تو پاکستان میں قانون توہینِ مذہب کے سفّاکانہ استعمال کو روکنے کے ساتھ ساتھ مذہب پر تنقید اور سوال اٹھانے کی اجازت کو قانونی تحفّظ دینے کے لئے قانون تنقیدِ مذہب اور قانون حرمتِ انسانی بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ تاکہ پاکستان میں مشال خان جیسا کوئی اور نوجوان سفّاکانہ تشدّد ، سنگساری اور شدید ترین انسانی بے حرمتی کی بھینٹ نہ چڑھ سکے۔

سوال اٹھا نا اور تنقید کرنا انسانی جبلّت ہے، یہ قطعی غیر فطری اور غیر اسلامی رویّہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شعوری رویّہ اور بنیادی انسانی رویّہ ہے۔ مذاہب پر تنقید کا سلسلہ روزِ اوّل سے جاری ہے۔ دنیا میں جب سے مذاہب کا ظہور ہوا ہے، تمام مذاہب سوالات، تنقید اور مذمّت کی زد میں ر ہتے چلے آئے ہیں۔ مذاہب پر تنقید کرنے اور سوال اٹھانے سے مذاہب فوت نہیں ہوتے، نہ ہی مذاہب کی بے حرمتی ہوتی ہے۔

مذہب پر تنقید کا گلا گھونٹنا، سوالات پر قدغن لگانا، دراصل جہالت کا دفاع اور شعور و ادراک کا قتل ہے۔

دنیا میں آج تک ایسا کوئی مذہب اس دعویکے ساتھ سامنے نہیں آیا ہے، کہ وہ تنقید سے مبرّا اور ماوراء ہے۔ مذہب اور تنقید کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مذہب عقیدے سے جڑا ہے، عقیدے کا مطلب بے چوں و چراں تسلیم و رضاء ہے۔ کچھ لوگ مظاہرِ فطرت اور عقائد مذہب کو بے چوں و چرا تسلیم کرلیتے ہیں۔

کچھ ان کی غرض و غایت، اور ماہیت پر غور و فکر کرتے ہیں، کچھ سوال اٹھاتے ہیں، اور جو زیادہ رجعت پسند ہوتے ہیں، تنقید شروع کردیتے ہیں۔ انسانی عقل و سوچ ہر طرح کے افکار و خیالات کو جنم دیتی ہے، کسی کے نزدیک عقیدہ افضل ترین ہوتا ہے، کسی کے نزدیک عقل و خرد ، شعور و آگہی افضل ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو دنیا میں صرف مولانا طارق جمیل، علّامہ اوریا مقبول جان ، علّامہ عامر لیاقت ، علم دین غازی، اور ممتاز قادری ہی پیدا ہوتےکبھی دنیا میں ایاز نظامی، البیرونی، الخوارزمی، نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے مفکّر ، دانشور اور سائنسداں پیدا نہیں ہوتے۔

مذاہب کے دفاع کی ذمّہ داری مذاہب کے عقیدت مندوں پر نہیں ہوتی۔ مذاہب اپنا دفاع خود کرتے ہیں، مذہب اگر سچّا ہوگا تو اپنا دفاع خود کرلے گا۔ مذہب پر سوالات اور تنقید کا دروازہ بندکرنے کا مطلب عقل و خرد کے دروازے بند کرنا، منطق کا گلا گھوٹنا، دلیل کو سنگسار کرنااور انسانوں کو عقیدے کا غلام بنا کر انسانی دماغ پر مذہب کی بند ٹوپی کا خول چڑھا کر باشعور انسان نہیں بلکہ دماغی معذور افراد کا ایک خوف زدہ معاشرہ تشکیل دینا ہے۔

اطبّاء نے خوف کی اب تک دو سو سے زائد اقسام و علامات کی نشاندہی کی ہے۔ جس میں اسلاموفوبیا سمیت دو سو سے زائد خوف اپنی پوری علامات کے ساتھ معاشرے کو اپنی قید میں جکڑے ہوئے ہیں۔ خوف انسانی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رُکاوٹ ہے خوف کی وجہ سے معاشرے میں آزادانہ فکر اور سماجی شعور کی ترقّی کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔

فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ گوکہ خوف کی بیماری انسانوں کو ہوتی ہے۔ مگر چونکہ انسانوں کا تعلّق معاشرے سے ہوتا ہے اس لئے معاشرے پر افراد کی ذہنی حالت کا اثر بہت ہی اہم ہے۔ اگر کسی معاشرے کے افراد خوف زدگی کا شکار ہوں، تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ پورا معاشرہ خوف زدگی کا شکار ہے۔ خوف زدہ معاشرے میں لوگ تخلیقی قوتوں سے تو محروم ہوتے ہی ہیں، مگر اسکے ساتھ ساتھ جھوٹ، عدم اعتماد اور بیگانگی ، بے حسی ، عزم و جذبے کے فقدان کا شکار اور ارتقاء کی صلاحیتوں سے معذور و مجبور ہوتے ہیں۔

اس لیے خوف سے آزاد ہوئے بغیر انسان کبھی اپنی تخلیقی سوچ کو بیدار نہیں کر سکتا، معاشرہ کبھی ارتقائی عمل کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ جب انسان خوف سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس میں جستجو، خود اعتمادی تعمیر و ترقّی کی صلاحیت کا اضافہ ہوتا ہےاور پھر انسان قدرتی طور پر زندگی کی تفہیم و تذئین کی طرف بڑھتا ہے، جمود ٹوٹ جاتا ہے، اور معاشرہ ارتقاء پذیر ہوجاتا ہے۔

جامد اور ساکِت نظریات کی طرح، جامد و ساکت مذہبی عقائد اور مذاہب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، ارتقائے انسانی کی معلوم تاریخ میں کئی مذاہب آئے اور کئی مذاہب متروک ہوگئے، آج تک کسی مذہب کو دوام نہیں ملا، اور نہ ہی ملے گا۔ کیونکہ شعوری ارتقاء ، عقیدے کو ٹھہرنے اور قیام کی اجازت نہیں دیتا۔

شعوری ارتقاء ، مذاہب کی ضد ہے۔

جس طرح ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں، بالکل اس ہی طرح شعوری ارتقاء اور مذہب ایک ساتھ نہیں رہِ سکتے، ان کا یہ ٹکراؤ ایک فطری ٹکراؤ ہے۔ اس ٹکراؤ کے آگے ڈیم بنانے کی حماقت نہ کی جائے۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ 22ویں صدی میں اسلام اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ زندہ رہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ مذہبِ اسلام پر ہر قسم کی تنقید اور مذمّت کا دروازہ کھول کر اسلامک ریفارم یعنی اسلام کی تجدیدِ نو ، عصری تقاضوں کے پیشِ نظر اسلامی عقائد میں اصلاحات اور گنجائش کا رستہ پیدا کریں۔

جب مسلمانوں کی الہامی کتاب، قرآنِ کریم ، غوروفکر و تدبّر کی کھلی اجازت دیتی ہے، تو ٖغورو فکر اور تدبّر کے نتیجے میں حاصل ہونی والے شعور و آگہی کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کی اجازت کیوں نہیں دے گی؟

عربوں کی جاہلانہ بدوی تہذیب و رسومات، اور 1400 سال قبل کے شرعی احکامات کے ساتھ 22 ویں صدی میں مذہب ِ اسلام کو داخل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر مذہبِ اسلام کے پیروکاروں نے اسلامِک ریفارم یعنی مذہب اسلام کی تجدیدِ نو کا راستہ اختیار نہیں کیا، پاکستان میں قانون توہینِ مذہب کے ناجائز استعمال کو نہیں روکااور انتشار و مایوسی سے بچنے اور انسانی ارتقاء کے آفاقی عمل میں شامل ہونے کے لئے قانون تنقیدِ مذہب اور قانون حرمتِ انسانی کی ضرورت کو محسوس کرکے نئے قوانین نہیں بنائے تو خوف و وحشت کا راج ہوگا، پاکستانی نوجوان کبھی اپنی تخلیقی سوچ کو بیدار نہیں کر سکے گا، معاشرہ کبھی ارتقائی عمل کی منازل طے نہیں کر سکے گا۔ مشعل خان جیسے نوجوان روزانہ مذہبی انتہا پسندی اور جنون ، وحشت و بربریت کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اور وحشی اور جنونی ریاستوں کا جو انجام ہوتا ہے، ریاست پاکستان کو بھی اپنے اس ہی انجام کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مگر اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی، بس یہی ریاستی دانشوروں کو یہی سمجھانا تھا۔

Comments are closed.