ملالہ یوسف زئی امن کی سفیر

ملالہ یوسف زئی کو اقوام متحدہ نے امن کا سفیر مقرر کیا ہے جوکہ پاکستان کے بہت بڑا اعزاز ہے۔ملالہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر ملک میں جاسکتی ہے لیکن اپنے ملک پاکستان میں نہیں آسکتی کیونکہ یہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔ پاکستان کے اردو میڈیا نے ملالہ کے اعزاز کو نظر انداز کیا جبکہ انگریزی میڈیا نے بچ بچا کر اداریے لکھے ہیں۔

پاکستان کے ایک دوسرے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو پوری دنیا اپنے ہاں بلاتی تھی لیکن وہ پاکستان نہیں آسکتے تھے کیونکہ یہاں آنے کا مطلب تھا کہ انھیں ان کے احمدی عقائد کی بنا پر ہلاک کر دیا جائے ۔ ڈاکٹر عبدالسلام سے پہلے فیض احمد فیض کو روسی حکومت نے ادب کے لینن ایوارڈ سے نوازا تھا مگر ملک میں ان کی حب الوطنی مرتے دم تک مشکوک رہی۔

اسی طرح 1988 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے نجیب محفوظ کو اس کے ہم وطن مصری نےگردن میں چھرا گھونپ دیا تھا۔

ملالہ کو امن کا سفیر مقرر ہونے پر نہ تو سرکاری سطح پر کوئی تقریب ہوئی ہے اور نہ ہی ہماری سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے اتنے بڑے اعزاز کا جشن منایا ہے۔

پاکستانی تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہیرو سمجھتے ہیں اور اس کی رہائی چاہتے ہیں جو امریکہ میں دہشت گردی کے جرم میں سزا کاٹ رہی ہے۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ پاکستان کے عوام گو دہشت گردی سے نالاں ہیں لیکن وہ طالبان کے بیانیہ کو درست تسلیم کرتے ہیں۔

ملالہ پر قاتلانہ حملے کے بعد ، 2009 ،اس کے حملہ آوروں ، طالبان نے اس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ

کفر کے خلاف جنگ میں ملالہ کفر کی طاقتوں کا ساتھ دے رہی تھی ، وہ کوئی بچی نہیں تھا بلکہ پندرہ سال کی بالغ لڑکی تھی اور وہ اپنے افعال کی ذمہ دار تھی۔

کیا اسلام میں خواتین کا قتل جائز ہے؟ تو طالبان کا کہنا تھا کہ فتح مکہ کے بعد حضرت محمد صلعم نے ذاتی طور پر خواتین کی ایک بڑی تعداد کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور کئی کو سنگسار کیا گیا۔

کیا واقعی ملالہ قصور وار تھی؟ طالبان نے کہا کہ وہ کوئی معصوم بچی نہیں تھی بلکہ گل مکئی کے جھوٹے نام سے میڈیا میں تواتر کے ساتھ ڈائری لکھتی رہی جس میں طالبان پر سخت تنقید ہوتی تھی ۔اس نے اوبامہ کو اپنا آئیڈیا قرار دیا اور اسلامی تعلیم کی بجائے سیکولر تعلیم کی حمایت کی تھی۔

کیا ملالہ نہتی تھی؟ طالبان نے کہا بالکل نہیں اس کے پاس سب سے بڑا ہتھیار قلم تھا جو کہ تلوار سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ اس ہتھیار کی مدد سے روزانہ اسلام اور مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی۔ وہ طالبان کو درندوں کے روپ میں پیش کرتی تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے اسے نشانہ بنایا۔ طالبان کے بیان میں پاکستان کی ریاست کی بھی مذمت کی گئی تھی وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بین الاقوامی طور پر کچھ نہیں کر رہی تھی۔

خالد احمد/نیوز ڈیسک

Comments are closed.