بغداد یونیورسٹی کے پروفیسرز سے ملاقات

سلمیٰ اعوان

صدام کا صدارتی محل میں نے سعدی کی نشان دہی پر دیکھا۔یہ دجلہ کی دوسری سمت تھا۔کس قدر شاندار ایک انتہائی خوبصورت ٹاؤن کا تاثر اُبھرتا تھا۔’’تو یہ گرین زون ہے اور یہاں وہ رہتا تھا ایکڑوں میں پھیلے اِن پُر تعیش جگہوں پر جسے وقت نے چیونٹی کی طرح مَسل دیا ہے۔رہے نام اللہ تیرا۔باقی سارا رولا غولا۔‘‘سعدی کا کہنا تھاکہ صدام نے قارون دور کی کھدائیوں سے حاصل کردہ محلاتی نمونوں کی طرز پر اِسے بنایا تھا۔اِس محل کے نیچے ایسی خندقیں اور بنکر ہیں کہ جن کی مضبوطی کے بارے میں جتنا جھوٹ بولا جائے اتنا سچ ہے۔

کچھ حاصل ہوا میں نے بے اختیار اپنے آپ سے کہا؟امریکی جب اپنے ٹینکوں کے ساتھ محل میں داخل ہوئے تھے اُس کی شان و شوکت دیکھ کر کنگ رہ گئے تھے۔اتنا بڑا ۔اتنا پھیلاہوا کہ اندرشٹل سروس چلتی ہے۔آج کل امریکیوں کا ہیڈ کواٹر ہے۔وہ کمرے جن میں کِسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی وہ عام امریکیوں کے بوٹوں نے روند ڈالے۔عام لوگوں نے اندر جا کر اُسے لوٹا بھی بہتیرا۔گاڑی میں بیٹھے مجھے کیا نظر آنا تھا۔بس سُنتی رہی۔

شدریہ برج سے ذرا آگے عظیم الشان بغداد یونیورسٹی ہے۔جدید طرزِ تعمیر کی حامل۔ سعدی مجھے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں لے آیا تھا۔

یہاں میری ملاقات فیکلٹی کے چند ممبران سے ہوئی۔تعلیم عراق کی اولین ترجیح تھی۔مُلک بھر میں پھیلے ٹیکنیکل ،ٹریننگ سکول اور کالج بغداد یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔بصرہ موصل اور المستنصریہ یونیوسٹی عراق کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہیں۔وہ مجھے تعلیمی مراحل سے آگاہ کر رہے تھے جبکہ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ اُن لوگوں کے ردِّ عمل موجودہ حالات میں کیا ہیں۔

یہ حساس اور ذہین لوگ تھے جنہیں اپنے وسائل کے لُٹنے کا احساس تھا۔پڑھے لِکھے اور ذہین لوگوں سے بات چیت کایہ دلچسپ تجربہ تھا۔فیکلٹی کے کشادے کمرے میں صوفے کم اور کُرسیاں زیادہ تھیں۔یہاں گیارہ لوگ تھے۔کچھ اُدھیڑ عمر اور جوان۔مگر جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا مجھے احساس ہوا تھا کہ اُن میں سے ایک دو کے علاوہ کوئی بھی نہ صدام کا حامی اور نہ امریکہ کا۔

ذرا کونے میں بیٹھے قدرے گندمی رنگ کے نوجوان کو جس کا نام ابو المنیب الرازی تھا کو جنگ سے بھی زیادہ اقتصادی پابندیوں پر غُصّہ تھا۔گلف وار سے قبل مُلک کا فی کس جی این پی3000ہزار ڈالر تھا جو 2001میں گھٹتے گھٹتے صرف 500ڈالر پر آگیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں بھی اس کا نظامِ صحت کمال کا تھا۔اس کے سکول ،کالج اور یونیورسٹیاں علاقے میں بہترین خیال کی جاتی تھیں۔ بے غیرت لوگ سیال سونے کے دولت سے مالا مال مُلک جسے دُنیا کا غریب ترین مُلک بنا دیا گیا۔‘‘اُس کی آواز میں مجھے اب زیادہ بھراہٹ محسوس ہوئی تھی۔

سوال ذہن میں کنکری کی طرح چُبھ رہا تھاکہ چلو صدام تو اقتدار میں تھا۔غریب لوگوں کی کیا خطا؟وہ بیچارے نہ تین نہ تیرہ میں۔انہیں کِس بات کی سزادی گئی؟کہاں ہیں ان کے انسانی حقوق؟

کوئی چالیس کے پیٹے میں بڑی سنجیدہ اور مدبّر سی شخصیت نے جن کا آبائی شہر موصل تھا نے متانت سے کہا۔’’دراصل امریکہ کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔صدام کے سوا کوئی نظر نہیں آتا تھا۔امریکہ کی یہ کمزوری حکمرانوں کو بھی سمجھ آگئی تھی۔بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے غریب عوام حکومت کی اور محتاج ہو کر رہ گئی تھی۔ اور یوں اُس ظالم کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو گئی تھی۔جنوبی عراق میں حکومت کے خلاف ہونے والی سازشوں کا جس بے دردی سے گلا گھونٹا گیا اُس کے بارے میں تفصیلات رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں۔

شمالی عراق کے کُردوں کو دم گھونٹ کر جس کیمیائی گیس سے ہلاک کیا گیا۔اُس گیس کو تیار کرنے والے کیمیائی ہتھیار صدام کے پاس کس نے بیچے اور کیوں بیچے؟اب زہریلی گیس بنا کر اُس نے اپنے مخالفوں کے گلے تو گھونٹنے تھے۔عراق کے کُردوں کیلئے پریشانی اور دُکھ کا اظہار بھی ہونے لگا ۔اس امریکہ اور اس کے اتحادی کا تو وہ حال ہے چوروں کو کہتے تھے نقب لگاؤاور لوٹ لواُن کا سب کچھ اور سنتریوں سے کہتے ہیں ناہنجاروں جاگو تم تو لٹ گئے‘‘۔

میں نے لمبی سانس کھینچ کر اپنے آپ سے کہا تھا۔ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔کوئی پوچھے نیویارک میں جڑواں ٹاورز کا ڈرامہ(اگر وہ ڈرامہ نہیں)تب بھی اُس پر حملہ کرنے والے سب سعودی تھے۔عراقی تو ایک بھی نہ تھا۔مگر سعودی عرب کیلئے با ز پرس نہیں۔’’آپ لوگ سمجھتے ہیں صدام امریکی ایجنٹ تھا۔‘‘دو نے کہا’’ سو فی صد تھا۔بقیہ کا کہنا تھا ۔’’امریکہ سُپر پاور ہے۔ دُنیا کے حکمران اس کے ایجنٹ ہیں۔کویت پر حملہ امریکہ کی مرضی کے مطابق ہوا ‘‘۔

کلین شیو پر چھوٹی چھوٹی مونچھوں اور ذہانت سے بھری چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا کامل مغیر بولنے لگا تو مجھے محسوس ہوا جیسے اِس چہرے کے پیچھے ہمارا حسن نثار ہے۔دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے احمق اور حرص و ہوس کے مارے حکمرانوں کے چیتھڑے اڑاتا ہوا۔تاریخ سے گہرے شغف اور عبور کی صورت اُس کے ہاتھ میں پکڑے اُس ریموٹ کنٹرول جیسی ہی تھی کہ جس سے وہ دنیا کی سکرین پر بٹن پر بٹن دباتے ہوئے منظروں کو بدلنے پر قادر تھا۔اسرائیل کے قیام سے مشرق وسطیٰ کی سیاست کے بکھرے ہوئے تارو پود کے اُتار چڑھاؤ۔ایران میں مصدق کی برطرفی سے ابتک کی صورت، پاکستان میں مارشل لاؤں کی پشت پناہی،چے گویرا،بھٹو کی پھانسی کا ذکر مغیر نے جس انداز میں کیا۔متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ایسٹ تیمور کیلئے سپر پاور کی ممتا کا پھٹنا،افغان جنگ کے ہیرو پھر زیرو،القاعدہ کی تخلیق۔بخئیے اُدھیڑ دئیے تھے امریکہ کے تو۔

پھرمشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان ہندوستان پر بحث ہوئی۔یہاں مغرب کے لوگوں کی انسان دوستی، اُن کا احتجاج اور ان کے رویّے سامنے آئے۔ ٹونی بلےئر، اٹلی کے برکونی اور اسپین کے ایزناز پر طعن طعن کرنا ،کھلے عام نعرے، مفادات کی لڑائی، طاقت ور کی طرف سے جنگ،نہ انصاف نہ امن ۔ان کے پیش نظرعراقی عوام اور معصوم بچے تھوڑی تھے۔کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، انڈونیشیا اور ملائشیاحتیٰ کہ انڈیاتک کے لوگوں نے کیا۔

یہ لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر اس لئے نکلے تھے کہ تیل کی دولت سے مالا مال عرب دُنیا پر سامراجیوں کو مزید دولت سمیٹنے کا موقع نہ ملے۔سعودی عرب، اُردن اور مصر کے سربراہوں کے بدترین کرداروں اور رویّوں پر بحث ہوئی۔دُنیا کی سُپر پاور۔بے غیرت اور جھوٹ کی پنڈ۔حملے کیلئے بہانے کیسے جھوٹے گھڑے؟صدام نے کیمیائی ہتھیار تلف کردئیے تھے اس میں کوئی شک نہیں تھا۔اس کا اعتراف بھی ہوگیامگر وہ بش کا پلّا ٹونی بلےئر اپنی سوانح حیات میں بکواس کئے چلا جاتا ہے۔ملک تباہ کردیا۔اُسکے ہزاروں لاکھوں معصوم شہریوں کو بھینٹ چڑھادیا۔اب ٹونی بلےئر اور ڈک چینی اپنی یاداشتوں میں اپنی غلطیوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔لعنت ہے اِن پر۔ وہ واہیات ڈبلیو بش کا منہ چڑھا ڈپٹی چیف اف سٹاف کارل رو نے کس قدر نخوت سے کہا تھا۔

ہم ایک ایمپائر ہیں اب۔جب ہم کوئی کام کرتے ہیں ہم اس کے ہونے کا جواز پیدا کرلیتے ہیں۔اور جب دنیا ہمارے اِس جواز پر غوروخوض کررہی ہوتی ہے۔ہم نئی ترجیحات کا انتخاب کرلیتے ہیں۔ہم تاریخ کے اداکار ہیں اور تم سب لوگ(یعنی باقی دنیا)صرف یہی جاننے میں لگے رہتے ہیں کہ ہم کر کیا رہے ہیں؟یاس بھری لمبی سانس لیتے ہوئے مجھے وہ وقت یاد آیا تھاجب تکبّر اور نخوت سے بھرے اس بیان کو میں نے غالباً ’’دی نیوز‘‘میں پڑھا تھا۔

موجودہ حکومت کے بارے میں پوچھا۔’’دلاّل ہیں اُنکے۔کِسی نے بیچ میں سے لُقمہ دیا۔جو چلا گیاوہ بڑا تھا۔یہ ذرا چھوٹے ہیں۔‘‘ ’’عراق کا مستقبل کیا ہوگا؟‘‘یہ سوال میں نے کیا تھا اور ڈرتے ڈرتے کیا تھا کہ اگر انہوں نے جواباً مجھ سے پوچھ لیا کہ پاکستان کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟تو کیا کہوں گی۔میرے سامنے تو اندھیرے تھے۔اُمید کی کوئی کرن نہیں تھی۔اور یہاں بھی مجھے تاریکی ہی نظر آتی تھی۔
جنگ کے بعد ہمیں ایک موہوم سی اُمید تھی کہ شاید امریکہ عراق کو جاپان جیسی حیثیت دے دے یقیناً ایسی صورت میں اُس کے سارے خون معاف ہو سکتے تھے۔بات ابھی جاری ہی تھی جب ابوالمنیب نے اُسے کاٹتے ہوئے کہا۔’’ہم لوگ جذباتی باتیں کرتے ہیں۔ہمیں جمہوریت راس آئی نہیں۔ہم متحد ہوئے نہیں۔حکمرانوں میں اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ خود کو ثابت کرسکیں۔جاپان کیا جنوبی کوریا بھی ہمارے سامنے ہے جو تقسیم کے باوجود ایک بڑی اقتصادی طاقت بن کر سامنے آیا ہے۔

یہ غیر مسلم ممالک تھے۔ہم مسلمان ہیں۔افغانستان کو دیکھ لیں۔کچھ کہنے کی ضرورت ہے کیا۔ فوج کے چند سینئر افسران کو اگر خریدا گیا تو وہیں ایک عنصر نے اسی سوچ کے تحت کچھ زیادہ مزاحمت بھی نہیں کی تھی وگرنہ قبضہ اتنا آسان بھی نہ ہوتا۔کاش یہ سب نہ ہوتا اِس جنگ نے مذہبی انتہا پسندوں کو اُبھارا۔ایران کو عراقی شیعاؤں کے طاقت میں آنے سے تقویت ملی۔ اس وقت تک حالات مایوس کُن ہیں۔شیعہ سُنی عنصر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہیں۔اور سامراج کے سارے راستے آسان ہوتے جارہے ہیں۔

One Comment