ہماری آئینی اور عدالتی تاریخ میں ماہِ اپریل کی اہمیت

لیاقت علی 

اپریل کا مہینہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔چوالیس سال قبل 10۔ اپریل 1973کو پاکستان کے عوام کے ووٹوں سے منتخب قومی اسمبلی نے متفقہ آئین کی منظوری دی تھی۔ یہی وہ آئین ہے جسے آج ہم 1973کا آئین کہتے ہیں ۔ پاکستان کا وفاق ہو یا صوبوں کے اختیارات ان سب کا سر چشمہ یہی آئین ہے۔

یہ آئین پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا جو اکثر دوہرائی جاتی ہے کہ اگر کسی مرحلے پر یہ آئین نہ رہا تو پاکستان کے وفاق کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 10اپریل کے دن کی مناسبت سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں حزب اقتدار اور حزب اختلا ف سے تعلق رکھنے والے اراکین نے اس آئین اور اس کے تحت تشکیل پانے والے اداروں کے تحفظ اور ان کے تسلسل کو قائم رکھنے کا عہد کیا ۔

اپریل ہی کے مہینے میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے گذشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کی سیاست کو اپنی گرفت لے رکھا ہے ۔اڑ تیس برس قبل 4اپریل 1979کو پاکستان کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک ایسا واقعہ ہے جس کے جھٹکے پاکستان کی سیاست میں آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاست میں بھٹو آج بھی ایک اہم سیاسی فیکٹر کے طور پر زندہ ہے خواہ ایک صوبے ہی میں سہی آج بھی بھٹو کے نام پر سندھ کی عوام ووٹ دیتی ہے۔

قومی اسمبلی اور سینٹ نے 1973 کے آئین کی حفاظت کا اعادہ تو کیا لیکن اس آئین کے خالق کو خراج عقیدت پیش کرنے میں کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ بھٹو کا مقدمہ قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس کا ہماری اعلی عدلیہ ذکر کرنے سے گریز کرتی ہے ،وکلا بطور نظیر اس کا حوالہ عدالتوں میں دینے سے کتراتے اور سیاسی جماعتیں بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل تسلیم کرنے سے ہچکچاتی ہیں ۔

اٹھارہ 18مارچ 1978کو صبح 8:20 پر لاہور ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین بنچ میں شامل اپنے ساتھی ججوں ۔۔جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ملک گلباز خان، جسٹس ایم۔ایس۔ایچ قریشی اور جسٹس شیخ آفتاب حسین کے ہمرا ہ کمرہ عدالت میں آئے اور انھوں نے نواب محمد احمد خان قصوری کے مقدمہ قتل کا فیصلہ پڑھنا شروع کیا ۔ فیصلہ کے مطابق پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ،میاں محمد عباس ،رانا افتخار احمد ،ارشد اقبال اور غلام مصطفے کو سزائے موت جب کہ وعدہ معاف گواہان مسعود محمود اور غلام حسین کو بری کر دیا گیا تھا ۔

یہ فیصلہ 410 صفحات پر مشتمل تھا اور اسے بنچ کے رکن شیخ آفتاب حسین نے لکھا اور بنچ کے دوسرے ارکان نے اس سے اتفاق کیا تھا جس کا مطلب تھا کہ یہ بنچ کا متفقہ فیصلہ تھا ۔ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ مقدمہ میں ملوث بڑے ملزم سابق وزیر اعظم ذولفقارعلی بھٹو نے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش تیار کی تھی اور اپنی اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فیڈرل سکیورٹی فورس( ایف ایس ایف) کے ارکان کو استعمال کیا تھا۔

فیصلہ کے مطابق بھٹو کو سزائے موت کے علاوہ 25000 روپے جرمانہ بھی کیا گیا تھا جو بعد از وصولی مقتول کے بیٹے احمد رضا خاں قصوری کا ادا کیا جانا تھا۔ ملزمان کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لئے سات دن کی مہلت دی گئی تھی۔ نواب محمد احمد خاں قصوری کے قتل کی ایف۔آئی۔آر 11 ۔ نومبر 1974 کو تھانہ اچھرہ میں زیر دفعہ 302/ 301/307/ 109/120-B تعزیرات پاکستان احمد رضا خاں قصوری کی مدعیت میں درج ہوئی تھی ۔

پولیس تھانہ اچھرہ نے بعد از تفتیش مقدمہ کو کیس آف نو ایوی ڈینس قرار دیتے ہوئے داخل دفتر کر دیا تھا ۔ بعد ازاں 1975 میں پنجاب حکومت نے مدعی مقدمہ احمد رضا خاں قصوری کی درخواست پر ہائی کورٹ کے جسٹس شفیع الرحمان کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا جس نے بھٹو پر عائد قتل کے الزام کو بے بنیاد قرار دیا اور اسے سیاسی مخالفت کا شاخسانہ کہا تھا ۔

لیکن 5جولائی 1977 کو جب جنرل ضیا ء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو اس تین سال پرانی ایف ۔آئی۔ آر پھر’ زندہ ‘ کر کے بھٹو کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل میں گرفتار کر لیا گیا ۔ بھٹو نے اپنی گرفتاری کے خلاف درخواست ضمانت دائر کی جو ہائی کورٹ کے جسٹس کے۔ ایم ۔ائے صمدانی نے اس بنا پر منظور کر لی کہ فائل پر موجود شہادت ناکافی اور باہم متضاد ہے اور بھٹو کی رہائی کا حکم دے دیا ۔

مارشل لا حکام کو بھٹو کی رہائی کسی صورت منظور نہیں تھی چنا نچہ اس مرتبہ بھٹو کو مارشل لا ضوابط کے تحت گرفتار کر لیا گیا اور وہ لاہور ہا ئی کورٹ کے مذکورہ فیصلے تک مارشل لا کے تحت زیر حراست رہے ۔قانونی تقاضا تو یہ تھا کہ مقدمہ قتل کی سماعت سیشن کورٹ میں ہوتی لیکن چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے براہ راست ہائی کورٹ منتقل کر دیا۔ مقدمہ کو ہائی کورٹ منتقل کرنے کے لئے ر یکارڈ پر کسی بھی فریق کی طرف سے دی گئی کوئی درخواست موجود نہ ہے ۔

مقدمہ کی باقاعدہ سماعت 11۔ اکتوبر 1977کو شروع ہوئی تھی اور استغا ثہ نے ملزموں کے خلاف 42 گواہان پیش کئے تھے اور یہ سارے سرکاری ملازمین تھے ان میں پبلک کا کوئی ایک گواہ بھی نہیں تھا ۔ اگرچہ مقدمہ میں ملوث دیگر چار ملزموں میاں محمد عباس ، رانا افتخار احمد ، ارشد اقبال اور غلا م مصطفے نے اپنے دفاع میں گواہان پیش کئے تھے لیکن بھٹو نے اپنے دفاع میں کوئی گواہ نہ پیش کیا تھا بلکہ انھوں نے9۔ جنوری 1978 کومقدمہ کی کاروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنے وکلا کے وکالت نامے واپس لے لئے تھے۔

وہ ہر تاریخ پر عدالت میں حاضر تو ہوتے تھے لیکن مقدمہ کی کاروائی سے لاتعلق رہتے تھے ۔ بھٹو کے مقدمہ قتل میں استغاثہ کے کیس کی پیروی بیرسٹر ایم۔انور، بیرسٹر اعجاز حسین بٹالوی، ایم ۔اے رحمان اور فاروق بیدار نے کی تھی جب کہ بھٹو کی طرف سے سابق اٹارنی جنرل یحیی بختیاراورڈی۔ایم اعوان پیش ہوئے تھے۔

بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ۔ اس اپیل کو سپریم کورٹ کے سات ججوں کے بنچ نے سنا تھا جن میں سے چار نے چیف جسٹس شیخ انوارالحق کی سر براہی میں بھٹو اور دوسرے چار ملزموں کی سزائے موت کا بحال رکھا تھا جب کہ تین ججوں نے بھٹو کو بر ی کر دیا تھا ۔ اکثریتی فیصلے کی رو سے بھٹو کو 4اپریل1979کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی ۔ بھٹو پر چلنے والا قتل کا یہ مقدمہ ہماری سیاسی اورعدالتی تاریخ کا شرمناک باب ہے۔

Comments are closed.