کیا ہم زومبیز پیدا کر رہے ہیں؟

عباس خان

تمام جانداروں میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ انسان بوجہ کچھ اوصا ف کے تمام جانداوروں میں افضل ہے۔ لیکن انسان نے یہ درجہ اچانک حاصل نہیں کیا بلکہ اس درجے تک پہنچنے کے لئے لاکھوں سال لگے۔ ارتقا ء کی یہ کہانی انسان کا شکار کے دور سے گذر کے زرعی معاشرے اور آج کل انڈسٹریل اور پوسٹ انڈسٹریل کا قیام ہے۔

ارتقاء کی اس کہا نی میں انسان کے جس عضو نے سب سےا ہم کردار ادا کیاوہ دماغ تھا ،اور ہے ۔ اگر دماغ کے علاوہ صرف دوسرے اعضاء کی ترقی با عث افتخار تھی تو آج ہاتھی، گینڈا اور شیر افضل ترین مخلوق میں شمار ہوتے۔ ظاہر ہے دماغ کا کا کام سوچنا ہے۔ دماغ کے اسی سوچ کی صلاحیت نے ہر زمانے میں بڑے لوگ پیدا کئے جس نے اپنے معاشرے کو ترقی دینے اور انسان کو بہتر زندگی گزارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

گوتم بدھ سے لے کر افلاطون تک، افلاطون سے لے کر ابن الرشد اور الرازی تک، الرازی سے لے کر فرانسس بیکن تک اور اسی طرح بیکن سے لے کر کارل مارکس تک اور ہوتے ہوتے رسل تک یہ تمام حضرات اپنے دور کے درخشندہ ستارے صرف اپنی مُختلف سوچ کی وجہ سے تھے نہ کہ کسی جسمانی طاقت کی وجہ سے۔

یہاں رُک کے ذرا غور کیجئے کہ اگر یہ حضرات اسی طرح سوچتے جس طرح عام لوگ سوچ رہے تھے تو کیا انسان کا ارتقاء اس طرح ہوتا جس طرح ہوا ہے؟ میرے خیا ل میں یقیناً نہیں۔ ان حضرات نے بھی اپنے اپنے دور میں چُبھتے ہوئے سوالات اُٹھائے وہ سوالات جو کہ سٹیٹس کو چیلنج کر رہے تھے ۔ یہ وہ سوالا ت تھے جو کہ اقتدار کے ایوانوں ، مندر، مسجد اور کلیساء میں موجود مذہبی پیشواؤں کے لئے زہر قاتل تھے۔ ان سوالوں سے ان کے طاقت کو خطرہ تھا۔ کیونکہ اقتدار اور مذہبی پیشوا کے کٹ جوڑ نے عام انسان کا استحصال کیا تھا۔

اپنی طاقت کو خطرے میں دیکھتے ہوئے مقتدر حلقوں نے ان کی کتابوں کو جلایا۔ ان کو جیل میں ڈالا گیا، یہاں تک کہ انہیں برونو کی طرح زندہ جلایا گیا۔ کسی کو دیوار میں زندہ چُنا گیا تو کسی کو دار پے لٹکایا گیا، مگر ان کے سوچنے کے انداز میں لغز ش نہیں آئی ۔ اسی طرح ذہنی ارتقاء کا یہ عمل آگے بڑھتا گیا۔ آج کی ترقی ان ہی افراد کی مرہون منت ہے۔ یہ ان ہی کی سوچ کا ثمر ہے کہ نئے نئے سوالات اُٹھا ئے جا رہے ہیں ۔

لیکن بعض ممالک آج بھی تاریکی میں ٹامک ٹویاں مار رہیں ہیں ، آج بھی ان معاشروں میں آزادانہ سوچ رکھنے والے راندہ ِدرگاہ ہیں۔ ان روشنی کے میناروں کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ سبین محمود سے لے مشال خان تک ان سب کو درندگی سے قتل کیا گیا۔ وجہ اسکی یہی ہے کہ آج بھی یہ معاشرے فیوڈ ل ہیں ۔ یہ معاشرے ان افراد کے لیے جہنم ہیں ۔ یہ افراد اگر نت نئے سوالات اُٹھا ئے تو اُن سے قطع تعلق کیا جا تا ہے ، پھر پرسیکیوشن اور آخر میں اگر بات نہ بنے تو قتل۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان معاشروں میں ایسا ہوتا کیوں ہے؟ میرے خیال میں ان کی بہت سی وجوہا ت کے ساتھ ساتھ ایک وجہ ستر کی دہائی کے بعد سے ہمارے معاشرے کا ایک خا ص قسم کی اسلامی سوچ کا ریاست کی طرف سے پُرزور حمایت اور اسی کی روشنی میں تعلیمی پالیسی کا بنانا تھا۔ انہی تعلیمی پالیسی کو پر سرکاری تعلیمی اداروں میں نفاذ کیا گیا۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اُن لکھاریوں کی کتب پر پابندی بھی لگ گئی جو آزادانہ سوچ کی ترغیب اور سوال اُٹھانے کا حوصلہ دیتے تھے۔

اب بقول رسل، جب ریاست ایک ہی کی طرح کی تعلیمی پالیسی طالب علموں پر ٹھونسی گی تو اسکا نتیجہ سوائے خونخوار زومبیز کے پیدا کرنے کے کچھ نہیں ہو گا۔ اس کا نتیجہ وہی ہو گا جو ہم نے تیرہ اپریل کی تاریخ کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیکھا۔ زومبیز جو کہ ایک ہی طرح کی سوچ رکھتے تھے ، نے مختلف سوچ رکھنے والے مشال خان کو درندگی سے قتل کیا۔

مشال خان سے اظہار ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ایک جانب سے یہ سوال اُٹھا گیا کہ کہ ابھی تو یہ ثابت بھی نہیں ہوا کہ مشال خان نے کو ئی مذہبی گستاخی کی ہے تو پھر اس کا قتل چہ معنی دارد؟لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگریہ ثابت بھی ہو جائے کہ مشال خان نے کوئی گستا خی کی بھی ہے تو یہ لوگ کس قانون کے تحت مشال خا ن پر خونخوار درندوں کی جھپٹے؟ کمپیوٹر اور سمارٹ فونز کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی اپلیکیشنر کی ضرورت ہو تی ہے تاکہ وہ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا کا ساتھ دے سکے ، تو پھر انسانی دما غ جو اتنے طویل ارتقائی عمل سے گزرا جس کی سوچنے کی صلاحیت ہزار گنا بڑھ گئی ہے ،کو آخر کیوں بند دریچوں میں رکھا جائے؟

اب تبدیل اور سُکڑتی ہوئی دنیا میں جاندار ذہن سوال ضرور اُٹھائے گا، سوال چاہے مذہبی نوعیت کا ہو یا معاشی یا معاشرتی ، سوال تو اب ضرور اُٹھے گا، آخر سوال اُٹھا نی ہی تو ایک صحت مند ذہن کی نشانی ہے ورنہ ہم اسی طر ح زومبیز اور روبوٹس پیدا کرتے رہیں گے جس کی کھوپڑی دماغ سے خالی ہوگی۔

2 Comments