اِلحاد کررہا ہے مرتّب جہانِ نو

آصف جاوید

کسی فلسفی کا قول ہے کہ جس دن یہ ثابت ہوگیا کہ خدا موجود ہی نہیں ہے تو یہ بہت بڑی دریافت ہو گی۔ اور اگر یہ ثابت ہوگیا کہ خدا واقعی موجود ہے تو یہ اس سے بھی بڑی دریافت ہوگی۔

ہمارا آج کا موضوعِ گفتگو یہ نہیں ہے کہ خداموجود ہے یا نہیں۔ ہم تو آج پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ،خوف زدہ معاشرے کی نفسیات ، ریاست پر تنقید اور ریاست کے مذہب کے ساتھ تعلّق کے حوالےسے پیدا ہونے والے مضمرات پر گفتگو کریں گے۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ سوچ و فکر پر جبر و قدغن ، اظہار پر پابندی اور فنون لطیفہ کے لئے ناسازگار حالات کے معاشرے پر کیا منفی ا ثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ موضوع خشک طبعیت ہے، مگر اس موضوع پر بات کرنا پاکستان میں آج کل پیدا شدہ حالات کے تناظر میں ناگزیر ہے۔ میں اس مضمون میں اپنے دوستوں جناب ارشد محمود(مصنّف، دانشور اور قلمکار ) اور جناب سہیل بٹ (دانشور اور قلم کار) ، محمّد مصطفی‘ (دانشور) جو سوشل میڈیا پر روشن خیا لی اور سماجی ترقّی کے لئے کوشاں رہتے رہتے ہیں، کے افکار و خیالات کو بھی اپنے مضمون میں شامل کرونگا۔

خوف (فوبیا) ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ انتہا درجے کے غیر منطقی ڈر کو خوف کہا جاتا ہے۔ اس کی تاویلات کی کوئی حد مقرّر نہیں ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے خوف کی اب تک دو سو سے زائد اقسام و علامات کی نشاندہی کی ہے۔ مثلا اسلاموفوبیا، ہوموفوبیا، ایکروفوبیا، ایروفوبیا وغیرہ وغیرہ۔ خوف انسانی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رُکاوٹ ہے خوف کی وجہ سے معاشرے میں آزادانہ فکر اور سماجی شعور کی ترقّی کی تمام راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔

فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ فرد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ گوکہ خوف کی بیماری انسانوں کو ہوتی ہے۔ مگر چونکہ انسانوں کا تعلّق معاشرے سے ہوتا ہے اسلئے معاشرے پر افراد کی ذہنی حالت کا اثر بہت ہی اہم ہے۔ اگر کسی معاشرے کے افراد خوف زدگی کا شکار ہوں، تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ پورا معاشرہ خوف کا شکار ہے۔ خوف زدہ معاشرے میں لوگ تخلیقی قوتوں سے محروم تو ہوتے ہی ہیں اسکے ساتھ ساتھ جھوٹ، عدم اعتماد اور بیگانگی ، بے حسی ، عزم و جذبے کے فقدان کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

اس لیے خوف سے آزاد ہوئے بغیر انسان کبھی اپنی تخلیقی سوچ کو بیدار نہیں کر سکتا، معاشرہ کبھی ارتقائی عمل کی منازل طے نہیں کرسکتا۔ جب انسان خوف سے آزاد ہو جاتا ہے تو اس میں جستجو، خود اعتمادی تعمیر ی صلاحیت کا اضافہ ہوتا ہےاور پھر انسان قدرتی طور پر زندگی کی تفہیم و ترئین کی طرف بڑھتا ہے اور معاشرہ ارتقاء پذیر ہوجاتا ہے۔

کمزور ریاستیں ہمیشہ خوف کا شکار رہتی ہیں، ریاست اگر مذہبی ہوتو اور بھی زیادہ خوف زدہ رہتی ہے۔ کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ آزاد فکر معاشر وں سے درآمد ہوکر آنیوالے افکار اور خیالات اس کے ذہنی غلام شہریوں کا ذہن اور مزاج تبدیل کردیں گے۔ سوچ و فکر کے زاویے بدل ڈالیں گے۔ اس ہی لئے مذہبی ریاستوں کو سب سے بڑا خطرہ ، ذرائع ابلاغ اور ترسیلِ ابلاغ سے ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پریس ہمیشہ پابندِ سلاسل رہا، اب انٹرنیٹ کی ایجاد اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وجود میں آجانے کے بعد ابلاغ کے تمام ذرائع انٹیگریٹ ہوکر میڈیا میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ ریاست پاکستان نے میڈیا پر تو اپنا غیر مرئی کنٹرول اس صورت میں حاصل کرلیا ہے کہ ایک طرف پیمرایعنی پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے میڈیا کو حکومت کے براہِ راست کنٹرول میں لے لیا گیا ہے، جب کہ دوسری طرف ریاستی اداروں نے میڈیا میں لفافہ اور پے رول صحافیوں کی ایک فوج ِ ظفر موج داخل کرکے میڈیا کو اپنے غیر مرئی کنٹرول میں لے لیا ہے، جو کہ اوریا مقبول جان اور لال ٹوپی پہنے بندرجیسے دانشوروں کو شام پر ٹی وی پر بٹھا کر مذہبی انتہا پسندی اور بوٹ پرستی کی تعلیمات دیتے ہیں۔ یوٹیوب کی بندش اور سوشل میڈیا کا کنٹرول بھی اس ہی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے۔

مذہب پر تنقید ، ناقابلِ معافی جرم ہے۔ چونکہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے، اسلئے مذہب پر تنقید در اصل ریاست پر تنقید کے مترادف ہے۔پوری دنیا میں مذہب پر تنقید کبھی نہیں روکی جا سکتی۔ اسلام سمیت دنیا کا ہر مذہب روزِ اوّل سے تنقید کی زد میں رہا ہے۔ مگر پاکستان میں مذہب پر تنقید کو ریاست نے قانون توہینِ مذہب کے ذریعے تقریباً ناممکن بنادیا ہے۔ پاکستان میں ناقدین کو خاموش کرنے کا طاقتور آلہ قانون توہین مذہب ہے۔

اس قانون کے تحت گرفتار ہونے وا لوں کو موت کی سزا کا لازمی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر پاکستان کے اربابِ اختیار یہ بھول جاتے ہیں کہ جب تک انسان کےپاس دماغ ہے۔ وہ سوچتا رہے گا۔ سوال اٹھاتا رہے گا۔ جاہل معاشرہ تواندھا ایمان رکھ سکتا ہے۔ اہل فکر، اہل علم، اہل تخلیق ہمیشہ منطقی سوال اٹھاتے رہیں گے۔ ۔

پوری انسانی تاریخ میں اپنے اپنے دورکے مقدس ترین مذاہب کی حکمرانی کی تنقید و مزاحمت کا نشانہ بنی ہے۔ پیشوائیت، رہبانیت، عیسائیت، یہودیت، کلیسا ءسب ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ مذاہب نے ہمیشہ انسانی فکرکوزنجیریں پہنانے کی کوشش کی ہے۔ مذاہب کے حاشیہ بردار ، کلیساء رہبانیت و پیشوائیت سب مل کر تشدد اورایزا رسانی کے باوجود بھی تنقید کا راستہ نہیں روک سکے ہیں۔

شعور و فکر کے ارتقاء کے نتیجے میں بالآخرمغربی دنیا میں سیکولر، سائنسی انقلاب برپا ہوگیا۔ مذہب کی ہارہوگئی۔ مذہب انسان کا انفرادی معاملہ قرار دے کر ذاتی زندگیوں اورعبادت خانوں تک محدود کر دیا گیا۔ مذہبی پیشوائیت کی بدمعاشی ختم ہوگئی۔ انسانی سوچ و فکرآزاد ہوگئی۔ اب مسلمانوں کی باری ہے۔ یہ وقت اورتاریخ کا فیصلہ ہے۔ وقت کبھی پیچھے نہیں جاتا۔ اب ڈیڑھ ہزارسال پرانے قصے کہانیاں چلنے والے نہیں۔ سائنس مذہب کومسترد کرچکی ہے۔

اسلام کے ابتدائی دورمیں تنقیدی سوالات اٹھنے شروع ہوگئے تھے۔ مسلمان مفکروں، فلسفیوں، سائنس دانوں نے اسلام کی حقانیت پربنیادی سوالات اٹھا دیئے تھے۔ وہ سب خود مسلمان تھے۔ لیکن ان کواذیتیں دے کرچپ اورختم کرادیا گیا۔۔اس وقت مسلمانوں میں فکری ارتقا کا عمل ظہور پذیر ہے۔ اسلام کو تنقیدی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عرب دنیا ہو، فارس ہو، پاکستان ہو، یا ہندوستان ہو۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان ملحد ہوچکے، تشکیک میں چلے گے۔ اوربہت سارے سیکولر اورلبرل انداز سے اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

اسلام کی بقاء کا تقاضہ ہے کہ ثقافتی اور علامتی لحاظ سے مسلم تہذیب بے شک قائم رہے۔ لیکن وہ ترقی اور انسانی خوشی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے ۔ اسلام پرتنقید کا طوفان مسلمانوں کی عمومی جارحانہ طبیعت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اسلام پرتنقید کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اگرمسلمان اس اصول کو تسلیم کرلیں کہ مذہب ذاتی معاملہ ہے۔ اسے دوسروں پرٹھونسنا نہیں چاہئے۔۔ تو پرامن اور باعزت مسلم معاشرے دنیا میں قائم کئے جاسکتے ہیں۔

لیکن مسلمانوں کا جارحانہ پاگل پن ختم نہیں ہوتاوہ اپنے مذہب کوشو آف کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو بتانا چاہتے ہیں، کہ اسلام باقی مذاہب سے افضل ہیں۔ مسلمان آج کے ترقّی یافتہ اور جدید دور میں سوسائٹی، ریاست، حکومت پراسلام کا غلبہ چا ہتا ہے۔ اسلام کے غلبے سے مراد مولوی کا غلبہ ہوتا ہے۔ یعنی ملّائیت کا کنٹرول ۔ اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اکّیس ویں صدی سے نکال کر قرون وسطی (یعنی 1400 سال پہلے) لے جایا جائے۔

ظاہر ہے اس رویّے کی مزاحمت تو ہوگی ۔ اب مسلمان پرتشدد قوانین اور دہشت گردی کے زریعے اسلام کی ناموس کو بچانا چاہ رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے یہ انتہائی جہالت اور پس ماندگی میں بھی رہ رہے ہیں۔ لیکن اپنے مذہب کویہ ہروقت بانس پرچڑھائے رکھتے ہیں۔ اہل ایمان میں سے ہی اینٹی مذہب عناصرکا پیدا ہونا فطرت کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ مذہب کوابدی طورپرتبھی بچایا جاسکتا ہے۔ جب اللہ میاں انسانوں کے دماغ سے عقل کونکال دے۔۔

اب اللہ میاں یہ کام کرنہیں رہا۔ اورعقل کا تقاضہ ہے کہ عقل نے سوال کرنے، تنقید کرنے، انکارکرنے سے باز نہیں آنا۔ خدائی اسکیم توآدم کے پیدا کرنے کے روز سے ناکام ہے۔۔ مذاہب کے مطابق جوخدا کرنا چاہتا ہے۔وہ ہوتا نہیں ہے۔ چنانچہ بغاوت انسان کی سرشت بن جاتی ہےہے۔ اوریہی اس کا فخرہے۔ اسی کی وجہ سے وہ اشرف مخلوق ثابت ہوا۔ حیرت کی بات ہے، کہ اللہ اوررسول کی ناموس کی حفاظت پرتشدد سزائوں اورریاستی دہشت گردی سے کی جا رہی ہے۔ یہ تو بذات خود اللہ اوررسول کی توہین ہے۔

اللہّ قادرمطلق ہے، اسےکسی محافظوں کی ضرورت نہیں۔ ختمی مرتبت، رسول پاک (ص) رحمت العالمین ہیں۔ نبی کریم کا اسوہِ حسنیتا قیامت مشعل راہ ہے۔ اللہّ اور اس کے رسول تشدد، اذیت رسانی، سرتن سےجداجیسے اقدامات سے کیسے خوش ہوسکتے ہیں۔ مولویوں نے اسلام کوکاروباری اورسیاسی دھندہ بنا لیا ہوا ہے۔ اس سے ان کومال ودولت اورسیاسی طاقت ملتی ہے۔

جب بھی ذرائع ابلاغ روایتی پلیٹ فارموں پر یک طرفہ بیانیہ کو رواج دیں گے ۔خوف اور جبر کے روایتی ہتھیاروں کا استعمال کرکے اظہار راے کا گلہ گھونٹیں گے ۔ آزاد سوچ اور فکر کو دبائیں گے اور سوال اٹھانے کی آزادی دینے سے انکار کریں گے ۔ تو اس سے فرسٹریشن بڑھے گی لوگ سوشل میڈیا کا رُخ کریں گےاور بیسیوں اعتدال کا دامن چھوڑ کر توہین آمیز مواد میں حصہ ڈالنے کا باعث بھی بنیں گے۔

مذہب کو ذاتی مفادات کے خلاف استعمال کرنے کا پروانہ تھمانے اور ایسے ہر اقدام پر تنقید کرنے اور سوال اٹھانے پر شدید قدغنیں لگانے کے نتائج تباہ کن ہی برآمد ہوں گے۔ یہ وہ فصل ہے جسکی بوائی ہم پچھلے ستر برس سے کررہے ہیں۔ آپ نے نفرت کو بنیاد بنا کر زمین کا ایک الگ ٹکڑا حاصل کرلیا اسے ایک قوم بنانے کے لیے محبت کے جس جذبہ کی ضرورت تھی اس کی آبیاری نہ کرسکے۔

مان لیجیے آپ نے اپنے دین اور زمین کے ٹکڑے کی حفاظت جن لوگوں کی سپرد کر رکھی ہے وہ نااہل تو ہیں ہے لیکن انکی سوچ انتہائی تنگ ہےاور زہر سے بھری ہوئی ہے انکی دوکان پر بیچنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی مال دستیاب ہے بھی نہیں۔ قانون توہین مذہب اور غدّارِ وطن کے ہتھیاروں سے جائز تنقید کا گلہ گھونٹنے اور سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرکے نہ تو ماضی میں کسی کا بھلا ہوا ہے اور نہ مستقبل میں کسی مثبت نتیجہ کی امید کی جا سکتی ہے۔

اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ الحاد کا مطلب وجودِ باری تعالیکا یکسر انکار ہے۔ ایسا قطعی درست نہیں۔ بلکہ الحاد کا فلسفہ تو مذہب و عقیدے کی قید و بندشوں آزاد ہوکر ، غیر جانبدار ہوکر، غور و فکر و تدبّر کرنے، سوچنے سمجھنے اور تخلیقی عمل کو انجام دینے کا نام ہے۔ ملحد کو کافر اور مرتد قرار دے کر مرتد کا گلا نہ کاٹیں۔ آزاد سوچ اور فکر کو مت دبائیں گے اور سوال اٹھانے کی آزادی دیں۔ سماجی شعور کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ مت بنیں۔ مذہب اگر سچّا ہوگا تو اپنا دفاع خود کرے گا۔ تشکیک کا دروازہ کھل چکا ہے، الحاد کا بگل بج چکا ہے۔

انساں اُلٹ رہا ہے رخِ زیست کا نقاب
مذہب کے اہتمام فسوں پروری کی خیر
الحاد کر رہا ہے مرتب جہانِ نو
دیرو حرم کے حیلہء غارت گری کی خیر

5 Comments