ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی سفر

لیاقت علی

سٹنلے والپرٹ کا کہنا ہے کہ 1950کی دہائی میں کراچی میں تین ایرانی نژاد خواتین کی بہت دوستی تھی ۔ ان میں بھٹو کی بیوی نصرت بھٹو، سکندر مرزا کی بیوی ناہید اسکندر اور تیسری بی بی اصفہانی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔ نصرت بھٹو کا ایرانی نژاد ہونا ایک فیکٹر تھا جس کی بنا پر بھٹو اسکندر مرزا کے قریب ہوئے اور انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ ہر سال ستمبر میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جانے والے پاکستان کے وفد میں انھیں نامزد کرایا۔

انھوں نے جب ایوب خان کے ساتھ مل کر ملک میں مارشل لا لگایا تو بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیاکچھ ہی دنوں بعد جب جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو ایوان صدارت سےنکال باہر کیا تو نئی کابینہ میں انھوں نے بھٹو کو وزارت کے عہدے پر قائم رکھا۔ بھٹو سیاست میں چونکہ براستہ فوجی جرنیل شامل ہوئے تھے اس لئے اپنی تمام تر سیاسی زندگی میں نفسیاتی طورپر فوج کے اثرات سے باہر نہ آسکے۔

جب وہ وزارت خارجہ سے مستعفی ہوکر(ایوب خان نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ میں نے ان سے استعفی طلب کیا تھا) سیاست میں آئے تو اس وقت بھی انھوں نے فوج کے بیانیہ کو پرو موٹ کرنا شروع کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ جنرل ایوب خان نے 1965 کی جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں ہوئے پاکستان بھارت مذاکرات کی میز پر ہار دی تھی۔ وہ جنرل ایوب خان پر الزام لگاتے تھے کہ انھوں نے تاشقند معا ہدے کی صورت میں بھارت سے خفیہ معاہدہ کر کے کشمیر سے دست بردار ہوگئے تھے ۔

ہم ہزار سال لڑیں گے لیکن ’بھارت کی غلامی قبول نہیں کریں گے‘۔ ایسے نعرے تھے جن کا اس کے سوا کوئی مقصد نہیں تھا کہ جنگی جنون کو ہوا دی جائے اور فوجی اشرافیہ کو خوش کیا جائے۔ ان دنوں بھارت کی مخالفت کا نعرہ پنجاب میں کچھ زیادہ مقبول تھا اس کی وجہ تقسیم پنجاب کے وقت ہونے فرقہ ورانہ فسادات کی یادیں اور 1965 کی جنگ میں ہوئے پنجابیوں کے جانی اور مالی نقصانا ت تھے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان کی مخالفت کرتے وقت بھٹو فوج میں جنرل ایوب مخالف جرنیلوں سے رابطے میں تھے اور انہی کی ایما پر انھوں نے گول میز کانفرنس میں شرکت نہیں کی تھی اور بھاشانی نے بھی ان کے اس موقف کی تائید فوج کے ا یوب مخالف گروہ کی تائید سے کی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ گو ل میز کانفرنس ناکام ہو اور مارشل لا کے نفاذ کا جوا ز پیدا کیا جاسکے۔

چنانچہ وہی کچھ ہوا جو ایوب مخالف جرنیل چاہتے تھے گول میز کانفرنس ناکام ہوئی اور ملک میں مارشل لا لگ گیا ۔ بھٹو نے اس مارشل لا کو خوش آمدید کہا ۔ ملک میں انتخابات ہوئے بھٹو کو پانچ میں سے دوصوبوں پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت ملی اور ان صوبوں کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی اکثریت بھی بھٹو صاحب جیت گئے۔ مشرقی پاکستان مین عوامی لیگ کو مکمل اکثریت ملی تھی۔ بھٹو شیخ مجیب الرحمن کے شریک اقتدار ہونا چاہتے تھے جس پر مجیب تیار نہیں تھے۔ فوجی جر نیلوں کا اپنا ایجنڈا تھا۔

بھٹو اگر شعوری طور پر نہیں تو غیر ارادی طور پر فوجی جرنیلوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ سیاست دان بالخصوص بھٹو اورمجیب شراکت اقتدار کے کسی فارمولے پر راضی ہونے میں ناکام ہوگئے اور مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع ہوگیا بھٹو نے ’خدا کا شکر ادا کیا کہ پاکستان بچ گیا‘۔مشرقی پاکستان میں شکست اور بنگلہ دیش کے قیام کے نتیجے میں اقتدار بھٹو کو ملا انھوں نے ملک سے مارشل لا ختم کرنے سے انکار کردیا اور یہ کہنا شروع کیا کہ معاشی اصلاحات کے لئے مارشل لا کا رہنا ضروری ہے۔

دوصوبوں ۔بلوچستان اور سرحد میں انھوں نے اکثریت پارٹیوں کو حکومت دینے سے لیت و لیل سے کام لینا شروع کر دیا ۔ بہت سے مذاکرات کے بعد فروری1972میں نیپ، جمعیت اور پی پی پی کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کی بدولت ان صوبوں میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومتوں کا قیام ممکن ہوسکا۔ بھٹو جمہوری طرز حکمرانی پر یقین کچھ زیادہ نہیں رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر انھوں نے فوج کو خوش کر لیا اور مولویوں کا انتظام کر لیا تو آنے والی کئی دہائیوں تک وہ بر سر اقتدار رہ سکیں گے۔

انھوں نے بطور چیف ایگزیکٹو یہ کہنا شروع کیا کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست فوجی نہیں سیاسی تھی۔ یعنی فوج کا کوئی قصور نہیں سارا قصور سیاست دانوں کا ہے۔مولویوں کو خوش کرنے کے لئے انھوں نے ریاستی اداروں میں انھیں اکاموڈیٹ کرنا شروع کیا۔ ملک میں پہلی دفعہ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ مذہبی امور کی وزارت قائم کی گئی۔ جلد ہی مولویوں کے زیر اثر دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا حالانکہ 1970کے انتخابات میں احمدیوں نے بھٹو کی بھرپور حمایت کی تھی۔

انھوں نے بلوچستان اور سر حد میں اپنے ایجنٹوں کی ذریعے مداخلت کا شروع کیا اور بلوچستان کی منتخب حکومت کو بے بنیاد الزامات کے تحت بر خاست کر دیا اور ایک ایسی صوبائی اسمبلی جس میں ایک بھی رکن پیپلز پارٹی کو نہ تھا وہاں اپنی حکومت بنالی۔ صوبہ سرحد کی حکومت احتجاجاً مستعفی ہوئی تو بھٹو نے حیات محمد خان شیر پاؤ کی سربراہی میں صوبائی حکومت تشکیل دے لی حالانکہ بھٹو کو وہاں کسی قسم کی کوئی اکثریت حاصل نہیں تھی۔

قومی اسمبلی کی بھی ایک ہی نشست پیپلز پارٹی نے جیتی تھی وہ مردان سے عبدالخالق خان کی تھی۔ بلوچستان میں فوجی ایکشن شروع کر دیا گیا۔ نیپ کی قیادت کو گرفتار کرکے ان پر نظریہ پاکستان سے بغاوت کا مقدمہ بنادیا جسے حید ر آباد ٹربیونل کہا جاتا ہے۔ اس مقدمہ بغاوت میں حبیب جالب بھی ملزم تھے اور نجم سیٹھی بھی۔ نجم سیٹھی نے سلطانی گواہ بن کر اپنی جان چھڑائی تھی۔بھٹو نے ٹکا خان کو فوج کا چیف بنایا جس پر بنگالیوں کی نسل کشی کا الزام تھا۔ چا رسالوں میں پنجاب میں چار وزرائے اعلیٰ تبدیل کئے اور ان میں دو کو جیل بھی بھجوایا۔

یہی کچھ سند ھ جو ان کا اپنا صوبہ تھا کے ساتھ بھی کیا۔ کبھی ممتاز بھٹو وزیر اعلیٰ تو کبھی غلام مصطفے جتوئی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر۔ اپنے سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ ان کے طرز حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔ وہ ترقی پسند فکر سے خوف زدہ اور مولویوں کو خوش کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ خان قیوم جیسے بدنام زمانہ سیاست دان کو انھوں وفاقی وزیر داخلہ مقرر کیا تھا مقصد ایک ہی تھا کہ وہ ان کی سیاسی مخالف نیپ کے ازلی دشمن تھے۔

پیپلز پارٹی کو معروف جاگیردار حیات محمد خان ٹمن کے سپرد کر دیا تھا۔ جے اے رحیم جو ان کے ابتدائی دنوں کے ساتھی کی ایف ایس ایف کے ہاتھوں ٹھکائی کرائی اور انھیں وزارت سے نکال باہر کیا۔ مختار رانا جو لائل پور سے پی پی پی کے رکن اسمبلی تھے کوخصوصی عدالت سے سزا دلوا کر قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کر دیا تھا۔ وہ اپنی مخالفت خواہ پارٹی کے اندر ہو یا باہر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

بھارت دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ فوج کو خوش رکھنے کا یہ بہترین طریقہ اور آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ اس لئے انھوں نے ایسے اقدامات کئے جس سے اس دشمنی میں اضافہ ہوا انھوں نے بنگلہ دیشں میں ہوئی شکست کا بدلہ لینے کا عندیہ دیا ۔ بھٹو نے جن قوتوں کو پروان چڑھایا اور مضبوط کیا انھوں نے آخر کار ان کی جان لے لی۔

ایک انتہائی غیر منصفانہ عدالتی فیصلے کی بدولت انھیں پھانسی چڑھنا پڑا۔ ایک وقت تھا جب بھٹو سارے پاکستان کے لئے زندہ تھا لیکن اب صرف بھٹو سندھ کے دیہی عوام کے لیے زندہ ہے باقی پاکستان اب ان کی زندگی اور موت سے بے نیاز ہوچکی ہے۔ وقت آگے بڑھتا ہے شخصیات پیچھے رہ جاتی ہیں۔

3 Comments