معذورمعاشرے کے صاحب بصیرت لوگ

علی احمد جان

میں عام لوگوں کے لئے لکھتا ہوں اس لئے اپنے مضامین میں کبھی کسی حکومت یا ریاستی ادارے سے مطالبات یا فرمائشیں نہیں کرتا کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے کے لئے ہم نے لوگوں کو منتخب کر رکھا ہے یہ ان کا کام ہے۔ میں تو کسی کو مشورہ بھی نہیں دیتا کیونکہ میں ان کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا جن کا پیشہ ہی مشاورت ہے۔

میں شکایتیں بھی نہیں کرتا حالانکہ روز میرے آس پاس ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو میں خود اپنی پوشاک ، علاقائی و لسانی وابستگی، نظریات اور خیالات کی وجہ سے انفرادی ، گروہی اور ادراہ جاتی جبر اور استحصال کا شکار ہونے کے باوجود ضبط تحریر میں لانا میں قلم کے تقدس کی پامالی سمجھتا ہوں کیونکہ میرے ہاتھ میں قلم لوگوں کی امانت ہے جو میں اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بنانا چاہتا۔

جب سے سید ارشاد حسین کاظمی کا گلگت دنیور سےصوتی پیغام سنا ہے میری طبیعت میں بے چینی ہے اور خود سے الجھ سا گیا ہوں ۔ بقول ان کے وہ دیکھ کر پڑھ نہیں سکتے اس لئے ٹیکنالوجی کی مدد سے تحریریں سن لیتے ہیں ۔ شاہ صاحب کی ہم جیسے نام نہاد لکھاریوں سے امید ہے کہ ہم ان کے مسائل کو بھی اجاگر کر یں تاکہ اہل اقتدار کی توجہ حاصل کی جاسکے۔

سید ارشاد حسین شاہ کی دیکھنے کی صلاحیت پیدائش کے بعد متاثر ہوتی رہی اور اب بینائی مفقود ہو چکی ہے۔ اپنی تمام مشکلات کے باوجودشاہ صاحب گلگت بلتستان میں رہ کر ایم ۔اے کر رہے ہیں جہاں دیکھنے والوں کو تعلیمی سہولیات ابھی انتہائی ناکافی ہیں۔ شاہ جی اس معذور معاشرے میں ایسے افراد کے لئے لکھی گئی مخصوص کتابوں میں الفاظ کو انگلیوں سے ٹٹول ٹٹول کر اور کبھی صرف سن سن کر بطور علم ذہن میں نقش کرکے امتحان پاس کرتے ۔

میں ان کی شکایات ایسےلوگوں سے کیا کروں جو آنکھیں رکھتے ہوئے پڑھ نہ پائے اوردھاندلی سے امتحان پاس کرکے تعلیم یافتہ کہلائیں۔ آنکھیں رکھنے والوں نے رشوت، سفارش اور اپنی سیاسی، قبائلی اور مسلکی دھونس سے سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتیں حاصل کی ہیں اور اب میری اور آپ کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں۔ آنکھیں رکھنے والے اس صلاحیت سے محروم ہیں جو شاہ صاحب کے پاس ہے جس کا مظاہرہ وہ اپنے طرز عمل سے کرتےرہتے ہیں کبھی عالمی ادارہ صحت کا منشور ان کو یاد دلا کر اور کبھی ان کے ملک کا آئین پڑھا کر جو اس بصیرت سے محروم ہیں جو سید ارشاد حسین کاظمی کے خوبصورت من میں بستی ہے جو آنکھوں کی محتاج نہیں ہوتی۔

شاہ صاحب ویژن ویلفیئر فاؤنڈیشن گلگت بلتستان کے چیرمین ہیں کہتے ہیں کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹے کے باپ بھی ہیں۔ اپنے خاندان اور بچوں سے زیادہ ان کو دیگر بصیرت سے محروم افراد کی فکر ہوتی ہے جن کے مسائل لیکر وہ ہر اس دروازے پر دستک دیتے ہیں جس سے ان کو بھلائی کی امید ہوتی ہے۔ میں شاہ صاحب کے مسائل ان کے سامنے کیا بیان کروں جو غیر سرکاری تنظیموں کو بطور خاندانی کاروبار چلاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انفرادی سطح پر سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہے جہاں اربوں ڈالر کی امداد دی اور لی جاتی ہے۔ یہ امداد اس سے الگ ہے جو یورپ امریکہ جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے آتی ہے ۔ میں اس امداد کی بھی بات نہیں کرتا جو عرب ملکوں میں رہنے والے امیر ہمیں مسکین سمجھ کر اپنی آخرت سدھارنے کے لئے دیتے ہیں۔ مگر یہ امداد کہیں نظر نہیں آتی۔

بنکوں کے اکاؤنٹس پر زبردستی کٹنے والی زکواۃ سے لیکر رضاکارانہ طور پر دیے جانے والے خمس اور مال امام تک کے جانے کا معلوم سب ہی کو ہے مگر آنے کا راستہ شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔ میں شاہ صاحب کو کیسے بتاوں کہ خصوصی افراد کے نام پر ایام منانے والے اورسالانہ پندرہ اکتوبر کو سفید چھڑی کے دن کے موقعے پر اسلام آباد کی سڑکوں پر اور پانچ ستاروں والے ہوٹلوں میں سفارتکاروں اور امداد دینے والے اداروں کو اپنے کارکردگی دکھانے والوں کے گھروں میں کاش آپ جھانک سکتے تو معلوم ہو جاتا کہ معذوروں کے نام پر ملنے والی امداد کدھر جاتی ہے۔ لیکن خیر شکر ہے آپ اس گند کو نہیں دیکھ پاتے ہیں اس لئے آپ نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔

سید ارشاد حسین شاہ نے اپنے دیگر ہمدردوں اور خصوصی افراد کے ہمراہ گلگت بلتستان اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا اور قانون کے بنانے والوں اور ایوان اقتدار پر براجمان لوگوں سے ملکر اور ایک خط کے ذریعے ان کواپنے فرائض یاد دلانے کی کوشش کی ہے ۔ شاہ جی شاکی ہیں کہ ان کی داد فریاد کا کسی پر بھی اثر نہیں ہوا۔

میں شاہ صاحب کے کیسے گوش گزار کروں کہ کاش آپ بھی دیکھ پاتے کہ جن کو آپ اپنے نمائندے سمجھتے ہیں وہ اپنی حق حاکمیت کن سے کس شرط پر حاصل کرتے ہیں اور کن کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں۔ لمبی لمبی گاڑیوں کے جھرمٹ میں ہٹو بچو کے سائرن پر سڑکوں پر دھندناتے یہ لوگ حقیقت میں کتنےچھوٹے ہیں۔ ان لوگوں نے آنکھوں والوں کی نوکریاں بیچ کھائی ہیں تو نہ دیکھ پانے والوں کے ساتھ ان سے خیر کی توقع کیسی۔

میری اپنی چھوٹی بہن اور اس کے ساتھ دیگر پانچ ہونہار نوجوان ٹسٹ انٹرویو میں سب سے اوپر رہنے کے باوجود گزشتہ پانچ سالوں سےاپنے حق کے لئے عدالتوں میں خجل خوار ہیں۔ یہاں اگر آپ کے پاس کسی مسجد کا رقعہ نہیں ، کسی بنک کا چیک نہیں یا پھر کسی سیاسی پارٹی کا پروانہ نہیں تو آپ کسی بھی سرکاری نوکری کے لئے لائن میں کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ یہاں کوٹہ کیا پورے کا پورا حصہ ہی اخلاقی ، سماجی اور نفسیاتی معذوروں کا ہوتا ہے جو کوئی ان کی طرح معذور نہیں وہ ان سے نوکری لینا اپنے لئے باعث ندامت سمجھتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ ان کی طرح معذور نہیں جو ان کے کوٹے کا مستحق ٹھہر سکوں۔

میں نے نرگسیت میں مبتلا اس مشرقی اور مذہبی کہلانے والے سماج میں بھی ڈھونڈا کہ شاہ جی جیسے صاحب بصیرت افراد کے لئے اس میں کیا رکھاہے۔ مجھے مایوسی ہوئی کہ اس سماج میں بھی ان کے لئے قرآن حفظ کرکے تراویح پڑھانے، مجلسوں میں نوحے پڑھنے، میلاد میں نعتیں پڑھنے یا پھر مرنے والوں کے قل پر قران پڑھ کر خیرات پر گزارہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اس معذور سماج کی جھولی میں ان لوگوں کو دینے کے لئےاگر کچھ نہیں تو کم از کم یہ جسمانی معذوری کا طعنہ دے کر ان خوبصورت لوگوں کا جینا دوبھرنہ کرے تو اس کی مہربانی ہوگی۔

میں کسی اور کی وفاداری کا دم بھرنے والے کسی وزیر یا مشیر اور غیر سرکاری تنظیموں کے نام پر اپنی جیب کا پالن ہار کرنے والے کسی سفید پوش وارداتیے سے زیادہ سید ارشاد حسین شاہ سے بڑی امیدیں رکھتا ہوں کہ وہ خود ہی اپنے اور اپنے ساتھیوں کے مسائل کے لئے حل نکال لیں گے۔ وہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے مسائل پر قابو پالیں گے اور اپنے من میں رچی بسی بصیرت سے نہ صرف خود کو بلکہ ہم سب کو بھی منور کر دیں گے۔

Comments are closed.