پاکستان یا گستاخستان

نبیل انور ڈھکو

تلہ گنگ کے محمد اسحاق نے گورنمنٹ اصغر مال کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد دفتر خارجہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ بریلوی فرقے سے تعلق ہونے کی وجہ سے محمد اسحاق نے تلہ گنگ کے ایک پیرا فضل شاہ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کا مرید بھی بن گیا تھا۔ وزارت خارجہ نے محمد اسحاق کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کے مستقل مندوب کا معاون خصوصی تعینات کر دیا اور اس طرح اسحاق نے نیویارک میں قیام کے دوران ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون سے شادی کر لی اور امریکہ کی شہریت بھی حاصل کر لی۔

اپنے پیرافضل شاہ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسحاق نے امریکہ میں ایک اسلامک سنٹر کی بنیاد رکھی اور اسلام کی تبلیغ شروع کر دی۔ امریکہ میں قیام کے دوران اسحاق گاہے بگاہے تلہ گنگ بھی آتا رہا۔ پیر افضل شاہ کی وفات کے بعد پیر افضل شاہ کے خاندانی ورثاء اور اسحاق کے درمیان گدی نشینی پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ اسحاق نے اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر پیرا فضل شاہ کا الگ آستانہ تعمیر کر لیا۔وقت کے ساتھ ساتھ اسحاق کے مریدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

جولائی2009ء میں صوفی اسحاق امریکہ سے پیر افضل شاہ کے سالانہ عرس میں شرکت کے لیے تلہ گنگ آیا۔ مریدوں کی ایک بڑی تعداد نے صوفی اسحاق کا والہانہ استقبال کیا۔ اسحاق کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ گل پاشی کی گئی۔ عقیدت مند اپنے مرشد صوفی محمد اسحاق کو اسی طرح باادب طریقے سے جھک کر ملے جس طرح پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے اپنے پیروں کو ملتے ہیں۔

صوفی اسحاق کے مرید یا رسول اللہ کے نعرے اس طرح لگا رہے تھے جس طرح بریلوی مسلک کے باقی مسلمان لگاتے ہیں۔مریدوں کے صوفی اسحاق کو جھک کر ملنے کے عمل اور نعروں کی ویڈیو بنا لی گئی اور پھر یہ ویڈیو تلہ گنگ کے مذہبی دکانداروں کے ہاتھ لگ گئی۔ شہر میں شور اٹھاکہ صوفی اسحاق نے نعوذ بااللہ بیک وقت خدا اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ تاویل یہ دی گئی کہ مرید صوفی اسحاق کو جھک کر ملتے نہیں بلکہ سجدہ کرتے ہیں کیونکہ وہ خود کو ’’خدا‘‘کہلواتا ہے اور ’’یارسول اللہُ کا نعرہ اس لیے لگایا گیا کیونکہ وہ خود کو رسول کہلواتا ہے۔

یا رسول اللہ کے نعرے پر بریلوی اور دیوبندی فرقوں میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کا عملی مظاہرہ آپ ایک گاؤں میں روزانہ پانچ دفعہ دیکھ سکتے ہیں۔ عربی لفظ’’یا‘‘کا مطلب ’’اے‘‘ہے یعنی سامنے موجود شخص یا ہستی کو مخاطب کرتے وقت آپ’’یا‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ بریلوی مسلک کے نزدیک نبی آخر الزمان ؐ آج بھی موجود ہیں جبکہ دیوبندی مسلک کے نزدیک آپ ؐ اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ اس لیے دونوں فرقوں کے درمیان یا رسول اللہ کہنے پر اختلاف ہے۔

صوفی اسحاق کے مریدوں کے اس عمل کو بنیاد بنا کر تلہ گنگ شہر میں جلوس نکالے گئے ۔ اسحاق کو واجب القتل قرار دیا گیا۔ مقامی اخبارات نے مذہبی دکانداروں کی زہر آلود تقاریر کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ اس طرح باقاعدہ مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہی اسحاق گستاخ قرار دیدیا گیا۔ پولیس نے اسحاق کے خلاف توہین رسالت اور توہین مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ اس مقدمے کی سماعت تلہ گنگ میں اس وجہ سے نہ ہو سکی کیونکہ عدالت میں بپھرے ہوئے مذہبی دکانداروں اور ان کے مشتعل حواریوں کا جم غفیر امڈ آتا۔

کیس کو چکوال منتقل کیا گیا لیکن صورتحال یہاں بھی مختلف نہ تھی۔ خوف اور عدم تحفظ کا یہ عالم تھا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے سماعت مکمل کر کے فیصلہ سنانے سے معذوری ظاہر کر دی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو یہ کیس کسی دوسرے ضلع میں منتقل کرنے کا لکھ دیا۔ اس طرح صوفی اسحاق کا کیس جہلم منتقل ہوا۔ صوفی اسحاق نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور عدالت کو بتایا کہ وہ خدا یا رسول ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن جہلم کے جج نے 30جنوری2012ء کو صوفی اسحاق کو سزائے موت سنا دی۔24فروری2017ء کو ہائی کورٹ نے صوفی اسحاق کو بری کر دیا کیونکہ اسحاق پر لگائے گئے الزامات کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کیا جا سکا۔

تلہ گنگ تحصیل کے ہی چینجی گاؤں کے رہائشی غلام اصغر کے خلاف نومبر2011ء میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات پر مقدمہ درج کیا گیا۔ غلام اصغر کا قصور یہ تھا کہ اس نے گاؤں کے دو لوگوں کے ساتھ مذہبی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے صحیح بخاری سے ایک حدیث کا حوالہ دینے کی جرأت کر دی۔ لیکن اصغر کا اس سے بڑا قصور یہ تھا کہ اس کا تعلق’’شیعہ‘‘مسلک سے تھا۔ اسحاق کی طرح مقدمہ درج ہونے سے پہلے ہی اصغر کو واجب القتل قرار دے دیا گیا۔

پورے گاؤں نے اصغر اور اس کے خاندان کے باقی افراد کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ اصغر کی بیٹی نویں جماعت کی طالبہ تھی ۔سکول کی طالبات نے اصغر کی بیٹی سے بولنا ترک کر دیا۔ اصغر کے کیس کی سماعت بھی تلہ گنگ میں نہ ہو سکی۔ چکوال کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز اخترنے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اصغر کا کیس کسی اور ضلع میں منتقل کرنے کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ 8جنوری2013ء کو پرویز اخترنے اصغر کو دس سال کی قید سنا دی۔ معزز جج کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اپیل اصغر نے نہیں بلکہ ان کے مدعی نے دائر کی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اصغر کو سزائے موت ہونی چاہئے۔

ہائی کورٹ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی اپیل تھی۔ دوسری طرف اصغر نے بھی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ 18دسمبر 2015ء کو ہائی کورٹ نے غلام اصغر کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا۔ اصغر جب ایک جھوٹے کیس کی پاداش میں چار سال کے بعد جیل سے باہر آیا تو اس کی دنیا بدلی ہوئی تھی۔ اصغر جب جیل میں تھا تو اس دوران ایک کالعدم تنظیم کے تحصیل صدر تلہ گنگ کا قتل ہو گیا۔ قتل کا پرچہ اصغر کے چھوٹے بھائی اور اس کے دو اور ساتھیوں کے خلاف درج ہو گیا جو ابھی تک زیر سماعت ہے اور تینوں ملزمان جیل میں ہیں۔ دوسری طرف اصغر جس گاؤں میں پلا بڑھا وہ گاؤں اس کے لیے اجنبی بن چکا تھا۔ اصغر کی بیوی اور بیٹی جو اصغر کے خلاف توہین کا مقدمہ درج ہونے پر دکھ اور تکلیف میں تھیں وہ بھی اصغر کو چھوڑ چکی تھیں۔

صوفی اسحاق کی زندگی کے آٹھ سال بھی ایک جھوٹے مقدمے کا ایندھن بن گئے۔ ان آٹھ سالوں میں صوفی اسحاق کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب پر کیا بیتی اس کا اندازہ میں اور آپ نہیں لگا سکتے۔ اسحاق اور اصغر کے متعلق ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے ہر پاکستانی اور بالخصوص ہر چکوالیے کو لازمی پڑھنے چاہئیں۔ ان دونوں تاریخی فیصلوں کا ایک ایک فقرہ ہمارے مذہبی دکانداروں کے منہ پر طمانچہ ہے۔

سنہ 2002ء میں لاہور ہائی کورٹ نے ملزم محبوب حسین کو توہین رسالت کے الزام سے بری کرتے ہوئے ایاز امیر کے کالم بعنوان(توہین کیا ہے؟ روزنامہ ڈان،26 جولائی2002 ) اور محمد شہزاد کے کالم بعنوان“(توہین کے قانون کا اثر، روزنامہ ڈان،18جولائی2002) سے نہ صرف رہنمائی لی بلکہ ان دونوں کالموں کو اپنے تاریخی فیصلے کا حصہ بنایا۔ اسحاق اور اصغر کے فیصلوں میں بھی ان دونوں کالموں سے نہ صرف رہنمائی لی گئی بلکہ ان کو فیصلوں کا حصہ بھی بنایا گیا۔

معزز عدالت نے لکھا کہ ہم سب یہ پاک پیغمبر حضرت محمد ؐ کے نام پر کر رہے ہیں جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں اور جنہوں نے یہ بشارت دی تھی کہ اگر کوئی شخص ساری زندگی گناہ کرتا رہے لیکن مرتے وقت کلمہ طیبہ پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ معاف کر دے گا۔

ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا۔ کم از کم ہمیں نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے بلکہ باقاعدہ درسی کتب میں پڑھایا بھی جاتا ہے ۔ اس ملک کی 97فیصد آبادی مسلمان ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ملک کو اسلام کا مضبوط قلعہ ہونا چاہئے لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا اور جس کی 97فیصد آبادی مسلمان ہے وہی ملک پوری دنیا میں سب سے زیادہ ’’گستاخانِ رسالت اور گستاخان مذہب‘‘پیدا کر رہا ہے۔

توہین کا قانون1860ء میں بنا۔ 1947ء سے 1986ء تک پاکستان میں توہین کے صرف14مقعدمات درج ہوئے۔ تاہم ’’مرد حق‘‘یا ’’بادشاہ ظلمت‘‘ضیاء الحق کے دور میں جب سے ان قوانین میں ترمیم کر کے سزاؤں کو سخت بنایا تب سے ان قوانین کا غلط استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا۔ 1947ء سے 1986ء تک یعنی39سالوں میں اگر توہین کے 14مقدمات درج ہوئے تو1986ء سے 2010ء تک یعنی 24سالوں میں پاکستان میں توہین کے 1274 مقدمات درج ہوئے۔ جبکہ1947ء سے مارچ2017ء تک پاکستان میں1522توہین کے مقدمات درج ہوئے۔

اس وقت ملک میں21افراد توہین کے الزام میں سزائے موت کے قیدی ہیں جبکہ 22افراد کو عمر قید کا سامنا ہے۔1987ء سے آج تک 65افراد کو توہین کے الزامات کی بنیاد پر ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ ان 65افراد میں مشال خان کا بہیمانہ قتل بھی شامل ہے۔ ان65افراد میں 32مسلمان ،23 عیسائی ،7احمدی، 1ہندو اور2 نامعلوم افراد شامل ہیں۔ جبکہ سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر ،سابق وفاقی وزیر شہباز بھٹی اور ہائی کورٹ کے ایک جج بھی ان 65افراد میں شامل ہیں۔

پوری دنیا میں توہین کے الزامات میں سب سے زیادہ مقدمات پاکستان میں درج ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اس ملک میں اتنی زیادہ تعداد میں لوگ توہین کے مرتکب ہوئے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مذہبی دکاندار اپنی دکانداری چمکانے کی خاطر لوگوں پر توہین کے جھوٹے الزامات لگا کر مقدمات درج کرواتے ہیں۔ آپ اس ساری صورتحال کو مندرجہ ذیل شعرسے سمجھ سکتے ہیں۔ غلام اصغر کو بری کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس عباد الرحمن لودھی نے جماعت اسلامی کے سابق امیر حکیم محمود احمد سروسہارنپوری کے اس شعر کا حوالہ دیا

رشد و واعظ کی سوغات بٹ رہی ہے گلیوں میں
مقتدی کہاں سے آئیں سب یہاں پیمبر ہیں

اب وہ وقت دورنہیں جب مذہب کے ان دکانداروں کو توہین کا جھوٹا الزام لگانے پر وہی سزا ملے گی جو توہین کے مرتکب افراد کو ملتی ہے۔ سانحہ دوالمیال کے ذمہ دار بھی یہی مذہبی دکاندار ہیں۔

One Comment