مذہب کے نام پر پسماندگی کا پرچار

بھارت کے مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود طلاق کی شرح دوسری برادریوں کے مقابلے نسبتاً کم رہی ہے۔لیکن روزی روٹی کی تلاش میں گزرے عشروں میں بڑے پیمانے پر ہجرت، ٹی وی سیریلوں کے ایکسپوژر، زندگی کی پیچیدگیوں اور بدلتی ہوئی معاشرتی قدروں نے انسانی رشتوں کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔جس کی وجہ سے طلاق کی شرح جو چند عشرے پہلے تک مسلمانوں میں کم تھی اب وہ نہ صرف تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ اب یہ عملی طور پر مردوں کے حق میں ایک طرفہ ہو چکی ہے۔

چند عشرے قبل طلاق ایک طویل عمل ہوا کرتا تھا اور آخری وقت تک شادی بچانے کی کوششیں ہوتی تھیں۔ معاشرے کے بزرگ شامل ہوتے تھے۔ جب کوئی راستہ نہیں بچتا تھا تو پھر عموماً اتفاق رائے سے طلاق دی جاتی تھی۔

آج کے دور میں فرد کی آزادی بڑھ گئی ہے، وہ اب سماج کا اجتما‏عی طور پر تابع نہیں ہے۔ فرد کی ضرورت، پسند اور حالات، زندگی کے فیصلوں کا تعین کرتے ہیں۔ بھارت میں صرف مسلمان ایک ایسی برادری ہے جہاں زبانی طلاق کا چلن ہے۔ شوہر اپنی بیوی کو کبھی بھی زبانی طلاق دے سکتا ہے۔

انڈیا میں مسلمانوں کے شادی بیاہ کے مسائل 1937 کے شریعت قانون کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ 1972 میں بعض مسلم مذہبی تنظیموں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم تشکیل دی۔ ان تنظیموں نے اس غیر منتخب ادارے میں اپنے نمائندے نامزد کیے اور اسے پورے ملک کے مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ قرار دیا۔

ابتدا میں یہ ادارہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں سرگرمی کے ساتھ ملوث رہا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ مسلکی اختلافات، سیاسی عزائم اور اپنے قدامت پسندانہ اور فرسودہ خیالات کے سبب بالآخر پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ اس ادارے کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک متفقہ نکاح نامہ یا طریقہ طلاق تک طے نہ کر سکا۔

بھارت میں ہر حکومت نے مسلمانوں کی ترقی کے لیے کئی تجاویز پیش کیں مگر ان کے رہنماؤں نے مذہب میں مداخلت کے نام پر ہمیشہ ان کی مخالفت کی ہے ۔حکومت یا ملک کی عدالتوں نے جب بھی کوئی اصلاحی قدم اٹھانے کی کوشش کی اس خود ساختہ ادارے نے اس کی مخالفت کی ہے۔ خواہ وہ نابالغ بچیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون ہو، ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال ہو یا پھر زبانی طلاق اور نان و نفقہ کا سوال ہو یا یونیفارم سول کوڈ، مسلم پرسنل لا بورڈ ہر جگہ مخالفت کرتا نظر آئے گا۔

اب جب بھارتی سپریم کورٹ زبانی طلاق اور کئی شادیوں کے مسائل پر غور کر رہی ہے تو یہ ادارہ بجائے ایک بہتر اسلامی اور جمہوری حل تجویز کرنے کے مسلمانوں میں یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ عدالت اور حکومت اسلامی قوانین میں دخل اندازی کی کوشش کرر ہی ہے۔

بھارت میں 2011 کی مردم شماری میں 13 لاکھ 20 ہزار طلاق درج کی گئی تھیں۔ ان اعداد وشمار کے مطابق مسلم خواتین میں طلاق کی شرح ہندوؤں کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔ مسلم خواتین کے طلاق کی شرح پانچ اعشاریہ چھ تین فیصد تھی جبکہ ہندوؤں میں یہ محض دو اعشاریہ چھ تھی۔

مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بھارتیہ مسلم مہیلا آندولننے چند مہینے پہلے ایک ملک گیر سروے کیا تھا۔ اس سروے میں اقتصادی طور پر غریب طبقے کی 4710 خواتین سے بات کی گئی تھی۔ ان میں 525 خواتین مطلقہ تھیں۔ یہ تعداد 11 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی ان میں 78 فیصد عورتوں کو ان کے شوہروں نے ایک طرفہ زبانی طلاق دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ پہلی بار طلاق اور کئی شادیوں کے اہم سوال کا مفصل جائزہ لے رہی ہے۔ وہ اس معاملے میں اسلامی قوانین کے کئی ماہرین سے مدد بھی لے گی۔ لکھنؤ میں خواتین کی تنظیم تحریککی سربراہ نائش حسن کہتی ہیں یہ خواتین کے حقوق کے لیے بہت اہم گھڑی ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ بعض مذہبی رہنماؤں کی ایک خود ساختہ تنظیم ہے۔ یہ کوئی منتخب جمہوری ادارہ نہیں ہے جو ملک کے 18 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکے۔ مسلمانوں میں زبانی طلاق، حلالہ اور مینٹینینس کا موجودہ چلن یقیناً ‏‏مسلم خواتین کے خلاف ایک منظم تفریق ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ سپریم کورٹ ان اسلامی ملکوں کے قوانین کی روشنی میں جہاں اصلاحات کی گئی ہیں کوئی حتمی فیصلہ کرے۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری اصولوں کے تحت کسی بھی طبقے کے ساتھ تفریق ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔

شکیل اختر، بی بی سی

Comments are closed.