کیا پاکستان واقعی ایک ناکام ریاست ہے؟

بیرسٹر حمید باشانی

ناکامی ایک طعنہ ہے۔ پوری دنیا میں ناکامی کو المیہ تصور کیا جاتا ہے۔ ناکامی صرف افراد کا ہی المیہ نہیں ہوتا یہ ریاستوں کا بھی المیہ ہوتا ہے۔ ایک سنجیدہ المیہ ۔ اس المیے پر ہر فرد کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ بعض کا شدید، بعض کا کم۔ مگر ہر ذی ہوش شخص ناکامی کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔

ریاستوں کے حوالے سے تو یہ اور بھی سنجیدہ بات ہے۔ ریاستیں افرد کا مجموعہ ہوتیں ہیں۔ ریاست کی ناکامی اجتماعی ناکامی ہو تی ہے۔ ان سارے عوام کی جو اس ریاست کے شہری ہو تے ہیں۔ ایک نا کام ریاست میں جو لوگ انفرادی طور پر کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی اس اجتماعی ناکامی کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہو تے ہیں۔پورا سماج ناکامی کے اس المیے کا شکار ہو تا ہے۔

انفرادی طور پر ایک شخص کامیاب ہے یا ناکام ؟ اس پر دو آراء ہو سکتی ہیں۔کامیابی اور ناکامی کی انفرادی طور پر علیحدہ علیحدہ تعریف ہو سکتی ہے۔اس میں ہمیشہ اختلاف رائے اور بحث کی گنجائش ہوتی ہے۔ مگر ریاستوں کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ریاستوں کی کامیابی اور ناکامی کے متفقہ اور معلوم پیمانے ہوتے ہیں ۔اس کے متفقہ قاعدے اور کلیے ہیں۔ ان قاعدوں اور کلیوں کی روشنی میں بڑی آسانی سے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کون سی ریاست کامیاب ہے اور کون سی ناکام ؟ ۔اور اس میں بحث یا غلطی کی کم ہی گنجائش ہو تی ہے۔

ان ہی قاعدوں اور کلیوں کی روشنی میں ایک امریکی تھنک ٹینک فنڈ فار پیس اور فارن پالیسی میگزین سال دوہزار پانچ سے ہر سال دنیا کی ناکام ریاستوں کی فہرست چھاپتا تھا۔ اس فہرست میں ہر سال پاکستان دنیا کی پہلی دس ناکام ریاستوں میں شامل ہوتاتھا۔ ناکام ریاستوں میں شامل ممالک نے اس پر شاید اس پر حتجاج کیا جس کے بعد میگزین نے ناکام کی جگہ کمزور یا نازک ریاستوں کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ 

حسب سابق سال2016 میں بھی فارن پالیسی میگزین نے سماجی، معاشی، سیاسی اور عسکری اعداد و شمار کی روشنی میں 178 نازک ریاستوں کی فہرست تیار کی ہے۔یہ فہرست تیار کرنے کے لیے میگزین نے تقریبا تیس ہزار ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔ اس فہرست کے مطابق نازک یا کمزورریاستوں میں صومالیہ کا پہلا نمبر ہے۔ عراق اور افغانستان جیسے تشدد کا شکار جنگ زدہ ملکوں سے پاکستان محض بالشت بھر دور ہے۔ اس کا نازک ممالک کی فہرست میں 14واں نمبر ہے۔

اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کے ایتھوپیا اور یوگنڈا جیسے قحط زدہ اور پسماندہ ممالک بھی پاکستان سے کئی بہتر ہیں جن کا اس فہرست میں نمبر23 اور 24 ہے۔ یہ فہرست تیار کرتے ہوئے سب سے پہلے کسی ملک میں آبادی کا دباؤاور تناسب دیکھا جا تا ہے۔اس ملک میں بے گھر ہونے والے اور پناہ گزین لوگوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جا تا ہے۔ پھر یہ دیکھا جا تا ہے کہ اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف انسانی گروہوں کے درمیان تضادات اور تصادم کی کیا شکلیں ہیں۔ انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے۔

ترقی کی رفتار اور شکلوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے یہ ترقی کس حد تک غیر مساویانہ ہے۔مجموی معاشی ترقی، حالات اور تضادات دیکھے جاتے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کے ریاست کی کس حد تک عملداری ہے ۔ پبلک سروس کی سطح اور کوالٹی کا جائزہ لیاجاتا ہے ۔۔امن و امان، قانون کی حکمرانی اور بیرونی مداخلت جیسے عوامل کا گہرا تجزیہ کیاجا تا ہے۔ان تما م حقائق اور اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد یہ دیکھاجاتا ہے کہ کوئی ریاست در اصل کہاں کھڑی ہے ؟۔کسی قدرتی آفت، تباہی یا دوسرے ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لیے اس میں کتنی استعداد ہے۔ 

اور اس گہرے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ نکالا جا تا ہے کہ کون سی ریاست ناکام ہے اور کون سی کامیاب ؟۔فارن پالیسی میگزین نے جن بارہ عناصر کا جائزہ لیکر پاکستان کو نا کام یا نازک ریا ست قرار دیا ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کو کوئی پہلی بارناکام ریا ست نہیں قرار دیا گیا۔ گزشتہ بارہ سالوں سے جب سے یہ فہرست بننی شروع ہوئی پاکستان اس میں شامل ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔۔۔

حیرت کی بات اس فہرست پر ہونے والا رد عمل ہے۔اس فہرست پر پاکستان کے کسی اخبار نے کوئی سرخی جمائی نہ کوئی اداریہ لکھا۔ کسی معروف ٹاک شو میں اس پر بحث نہیں ہوئی۔ کسی ذمہ دار حکومتی عہدے دار نے اس پر کوئی قابل ذکر تبصرہ نہیں کیا۔جو محدود رد عمل سامنے آیا اسے مایوس کن ہی کہا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کا رد عمل شتر مرغ جیسا تھا۔ ۔ یہ ردعمل بجائے خود ایک خوفناک مایوسی کا مظہر ہے۔ یہ اس ذہنی کیفیت کا شناخسانہ ہے جس میں ناکامی کو ایک تلخ سچائی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ بغیر کسی تاسف اور احساس زیاں کے۔ 

یہ ذہنی کیفیت اس بات کا اشارہ دیتی ہے کے آنے والے برسوں میں حالات مزید دگرگوں ہوتے جائیں گے۔حکمران لمبے عرصے کے لیے سوچنے کی استعدادنہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کے وہ عارضی ہیں۔ وہ اس لمحے اور اس دن سے لطف اندوز ہو نا چاہتے ہیں جو ان کو میسر ہے۔ان کو یقین ہے کہ کل ان کا نہیں ہے۔ اس لیے وہ کل کے بارے میں پریشان ہو نا نہیں چاہتے۔ 

مگر زوال کایہ سفر جس تیز رفتاری سے جاری ہے یہ پریشان کن ہے۔کوئی ایک قدرتی آفت ،کوئی ایک حادثہ، کوئی ایک چھوٹا ساواقعہ زوال کے اس سفر کو برق رفتاری دے سکتا ہے۔پاکستان اور صومالیہ کے درمیان بہت تھو ڑا فیصلہ ہے جو صرف ایک چھلانگ میں طے ہو سکتاہے۔

One Comment